پروفیسر رشید احمد انگوی
منصورہ کی وسیع وعریض مسجد میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ ہزارہا اہلِ ایمان
نمازِ جنازہ میں اُمڈ پڑے تھے ۔ ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی تھی۔ فضائیں
پکار پکار کر کہہ رہی تھیں کہ کسی سچے ومخلص مردِ مؤمن کا سفرِ آخرت ہے ۔
مولٰنا الطاف حسین حالیؔ نے غالب کے انتقال پر جو کمال کا تبصرہ فرمایا تھا
:ؔؔ’’اِک عالی دماغ تھا شہر میں نہ رہا‘‘، اُسے معمولی تصرف سے یوں دہرایا
جاسکتا ہے :’’اِک عالی دماغ تھا جماعت میں نہ رہا‘‘(جماعت کی بجائے منصورہ
بھی کہا جاسکتا ہے)۔جناب عبدالغفار عزیزؒ پوری زندگی اپنے ربِّ غفار کے
فرماں بردار بندے بن کر رہے اوربندگانِ ربّ سے ایسا شفقت ومحبت اوراپنائیت
کا راستہ اپنایا کہ عزیزِ جہاں ٗ اوریوں اسمِ بامسمّٰی بن گئے ۔جناب
عبدالغفارعزیزؒ منصور ہ نظم میں آئے اور’’دارالعروبہ‘‘کے شعبہ میں کمالات
اوراعلیٰ کارکردگی سے لوگوں کو متاثر کیا تو دیکھنے والے حیران تھے کہ ایک
نوجون اپنے ہم عصروں میں کس قدر ممتاز مقام پیدا کررہا ہے ۔ اتفاق سے ایک
ایسا واقعہ پیش آیا کہ مجھے بہت سے حقائق سے قدرے آگاہی ہوگئی۔ دسمبر 2003ء
کو ایوانِ اقبال میں مولانا مودودیؒ کے سالِ پیدائش 1903ء کی مناسبت سے ایک
صد سالہ عالمی کانفرنس ہورہی تھی جس میں دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے
وفود مولانا مودودیؒ کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع تھے ۔ یہ
پوری اسلامی دنیا کا خوب صورت گلدستہ تھا۔ اِس کو کنڈکٹ جناب عبدالغفار
عزیزؒ کرا رہے تھے اورہر مقرر کے حسبِ مرتبہ عربی کلام اُن کی اعلیٰ شخصیت
کا عکاس تھا۔ جب کھانے کا وقفہ ہوا تو ہر شخص اپنی جگہ پر ہی بیٹھا رہا ۔
میری خوش قسمتی کہ میری ساتھ والی سیٹ پر جو شخصیت تشریف فرما تھی اُن سے
باہمی تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ وہ جناب حکیم عبدالرحمن عزیز تھے (یہی نام
ذہن میں آرہا ہے)۔ اُنہوں نے بتایا کہ عبدالغفار عزیزمیرا بیٹا ہے ۔ بس پھر
کیا تھا’’اﷲ دے اوربندہ لے‘‘والا منظر تھا۔ یوں سمجھئے کانفرنس کے طویل
آرام کے وقفے میں یہ’’دورکنی سیمینار‘‘شروع ہوگیا جس کا ایک ہی موضوع
تھا:’’عبدالغفار عزیز‘‘۔ میں نے حکیم صاحب کو اتنا جلیل القدر لائق بیٹا
نصیب ہونے پر مبارک باد پیش کی۔ اُنہوں نے بتایا کہ عبدالغفار عزیز قطر کی
اسی یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا جس میں اِن کے اُستاد ڈاکٹر یوسف قرضاوی
عالمِ عرب کی انتہائی محبوب ومحترم شخصیت ہیں اوراُس کانفرنس کے اہم مقرر
بھی تھے جن کا زبردست استقبال کیا گیا کیونکہ انہوں نے ہی قذافی سٹیڈیم میں
مولانا مودودیؒ کا جنازہ پڑھایا تھا ۔ حکیم صاحب نے بتایا کہ قاضی حسین
احمدصاحب جب بھی قطر جاتے تو اُن کا یونیورسٹی کا دورہ ہوتا اوروہاں
نوجوانوں کے باہم علمی مباحثوں کو دلچسپی سے دیکھتے ۔ اِس طرح آنے جانے میں
ایسا بھی ہوا کہ اُنہوں نے عبدالغفار عزیز کی گفتگوئیں اورہم عصروں سے بحث
مباحثے کو دیکھ کر اندازہ لگایا کہ یہ نوجوان غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک
معلوم ہوتا ہے ۔ آخر اُنہوں نے پوچھا کہ وہ کس ملک کا ہے ٗ تو پتہ چلا کہ
پاکستان کا ہے ۔ عبدالغفارنے قاضی صاحب کو بتایا کہ میرے والدِ گرامی جماعت
اسلامی کے رکن ہیں ۔ قاضی صاحب نے نوٹ کرلیا۔ پاکستان آکر اُنہوں نے حکیم
صاحب کو اپنے دفتر بلایا۔ وہ تشریف لائے تو قاضی صاحب نے پوچھا کہ آپ کے
کتنے بیٹے ہیں اورکیا کرتے ہیں ۔ حکیم صاحب نے بتایا تو سب کچھ سن کر قاضی
صاحب نے فرمایا کہ آپ اپنا بیٹا عبدالغفار عزیز جماعت کو دے دیں ۔ حکیم
صاحب نے جواب دیا کہ میں خود رکنِ جماعت ہوں ۔ میرا سب کچھ جماعت کے لیے
حاضر ہے ۔ میں اِسے قبول کرتا ہوں اورعبدالغفار عزیز کی شخصیت میں چھپا ہوا
جوہرِ قابل جب جوہری کی نظروں میں آگیا تو جناب عبدالغفار عزیزکا ’’کیرئیر
‘‘طے ہوگیا اورراہِ حق کے سچے مسافر نے اپنا عہدِ وفا پورا کرکے دکھایا
تاوقتے کہ کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوکر سفرِ حیات مکمل کرگیا۔رحمتہ اﷲ
علیہ۔عربی کے مشہور اشعار میں انسان سے خطاب ہے ’’جب تُو دنیا میں آیا
اوررو رہا تھا مگر تیرے اِرد گرد خوشیاں منائی جارہی تھیں ۔ اپنی زندگی کو
اچھے اعمال سے ایسے سنوار کہ جب تُو دنیا سے ہنسی خوشی اپنے ربّ کی پکار پر
جائے تو تیرے اِرد گرد دنیا تیرے غم میں سوگوار ہو‘‘۔ آج لاہور کے مرکز
منصورہ میں ہزاروں لوگ آہوں اورسسکیوں میں اُس مردِ خود آگاہ کو یوں رخصت
کررہے تھے کہ خود زندگی بھی ایسی موت پر رشک کررہی تھی ۔ حکیم صاحب کا گھر
علم وعمل میں یکسانیت والے اصحاب کا خاندان ہے ۔ عبدالغفار عزیز صاحب کے
بڑے بھائی ڈاکٹر حبیب الرّحمن عاصم ایک نادرِ روزگار عالم ومحقق ہیں
اوراُنہوں نے ہی اُن کا جنازہ پڑھایا۔ پروفیسر عبدالجبار شاکر ، پروفیسر
خالد محمود، صحافی عبداﷲ طارق سہیل اسی خاندان کے چشم وچراغ ہیں ۔ یہ لوگ
فاقے کو ترجیح دے کر کتابیں خریدنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ اِن کے گھر میں
لائبریریاں بنی ہوئی ہیں جو اِن کی علمی پیاس بجھاتی ہیں ۔عبدالغفار عزیز
لمحہ ٔ موجود میں عالمِ اِسلام کے شب وروز اورحالات پر نظر رکھنے والے
معتبر اورباخبر ترین شخصیات میں سے تھے ۔ ’’ترجمان القران‘‘میں وہ قارئین
کو لمحہ بہ لمحہ احوالِ عالمِ اِسلام سے باخبر رکھتے تھے ۔ اِس کے ساتھ
ساتھ وہ تمام اسلامی تحریکوں کے مابین مستقل رابطے کے فرائض سرانجام دیتے
رہے ۔ منصورہ ڈگری کالج میں سالہاسال وہ قرآن ہال میں سینکڑوں نوجوانوں کے
سامنے ایسے خوب صورت معلوماتی اوردینی راہ نما لیکچرز دیتے رہے جس سے
اساتذہ وطلبہ مستفید ہوتے۔منصورہ کالج میں اُن کے بعض خطبات اتنے اہم تھے
کہ پرنسپل شیخ محمد رفیق نے کالج طلبہ کو بطور تحفہ دی جانے والی سالانہ
ڈائری میں اِس کا تذکرہ مستقل راہ نمائی کے لیے کیا اورکالج کا بلیٹن اِ ن
سرگرمیوں کا تاریخی ریکارڈ مہیا کرتا تھا۔ ایک بار وہ مہمانِ خصوصی کے طور
پر کالج تشریف لائے تو کالج کے بزرگ لائبریرین نعیم صاحب کی لکھی ہوئی
علامہ اِقبال کی ’’کلیاتِ اقبال‘‘(فیصل کمپنی کی شائع کردہ)’’فرہنگ ‘‘پیش
کی۔ اِس کتاب سے اتنے خوش ہوئے کہ اپنے مہمانوں وغیرہ کو دینے کے لیے یہ
کتاب خصوصی طور پر منگواتے ۔ لاریب کہ وہ اِسلامی دنیا کا دھڑکتا ہوا دل ٗ
سوچنے والا دماغ اورقیمتی اثاثہ تھے ۔ دعا ہے کہ اﷲ کریم اُنہیں جنت
الفردوس میں اعلیٰ درجات عطا فرمائے ۔(آمین)۔
|