شاہین باغ ایک زندہ تحریک ہے ۔ یہاں کی خواتین نے ہاتھرس
میں ہونے والی عصمت دری کے خلاف پچھلے ہفتہ جمعرات کو اپنے مقام پر مظاہرہ
کیا اور پھر پیر کو جنتر منتر پر جاکر اپنا احتجاج درج کروایا ۔ یہی وجہ ہے
کہ امریکہ کے اس مقبول جریدے ٹائم نے امسال دنیا کے 100 بااثر افراد کی
فہرست میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ گوگل کے سربراہ سندر پیچائی،
اداکار آیوشمان کھرانا، سائنسدان رویندر گپتا اور متنازع شہریتی ترمیمی
قانون کے خلاف دہلی کے شاہین باغ کا دبنگ چہرہ بن کر سامنے آنے والی 82
سالہ خاتون بلقیس بانو کو شامل کرکے مودی بھکتوں کی نیند اڑا دی ۔یہ حسن
اتفاق ہے کہ ۱۰۰؍ بااثر شخصیات میں بلقیس بانو کا تعارف اسی رعنا ایوب
نےلکھا جس نے 2002فسادات کے بعد ہندو فسطائیوں کے چہرے پر پڑی نقاب کو نوچ
کر پھینک دیا تھا ۔ وہ اپنے مضمون میں اس طرح رقمطراز ہیں کہ ’’بلقیس حاشیے
پر لگائے گئے افراد کی آواز بن گئیں.... ایک ایسے ملک میں مزاحمت کی علامت
بن گئیں جہاں خواتین اور اقلیتوں کی آوازوں کو مودی حکومت کی اکثریتی
سیاست میں مسلسل دبایا جارہاہے۔‘‘
شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف شاہین باغ کا یہ مظاہرہ پورے ملک میں اسی طرز کے
مظاہروں کا سبب بنا اور ا۱۰؍ دن تک جاری رہا ۔ کورونا کا بہانہ بناکر ۲۴؍
مارچ کو پولیس نے اسے زبردستی ختم کروایا ۔ شاہین باغ تحریک کی ۳؍ دادیاں
اسماء، سروری اور بلقیس دبنگ دادیوں کے نام سے مشہور ہوئیں۔ انہوں نے سخت
سردی اور بارش کے موسم میں بھی ہمت نہیں ہاری اور مظاہرے کی قیادت کی ۔
تحریک پر ہونے والے پر حملے کاانہوں نےزبردست ثابت قدمی اور عقل مندی سے
دفاع کیا ۔الیاس شریف الدین نامی ایک فیس بک صارف کے مطابق بلقیس بانو نے
بی جے پی اور آر ایس ایس کے فسطائیوں سے کہا تھا کہ 'جب تک میری رگوں میں
خون دوڑے گا میں لڑتی رہوں گی۔بی جے پی والوں نے جب الزام عائد کیا کہ
شاہین باغ میں احتجاجی دھرنے پر بیٹھنے والی خواتین کو روزآنہ پانچ سو
روپے ملتے ہیں توبلقیس بانو کا جواب تھا: 'مودی جی آپ اپنے آپ کو کیا
سمجھتے ہیں۔ ہم نے آپ کو کرسی پر بٹھایا ہے اور ہم کرسی سے اتار بھی سکتے
ہیں۔ ہم کسی سے نہیں ڈرتے ہیں ۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ہم آپ سے نہیں ڈرتے۔
ہم صرف اس سے ڈرتے ہیں جس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔آپ ہمیں بے کار میں (یہ کہہ
کر) بدنام کر رہے ہیں کہ یہاں بیٹھنے کے پانچ پانچ سو روپے ملتے ہیں۔ ہمت
ہے تو آجایئے اور یہاں بیٹھیے، ہم آپ کو ایک لاکھ روپے دیں گے۔' یہ بات بھی
مشہور ہے کہ جب امیت شاہ نے کہا ہم ایک انچ بھی نہیں ہٹیں گے تو بلقیس بانو
بولیں ہم بال برابر پیچھے نہیں جائیں گے۔
شاہین باغ نیشنل موومنٹ کمیٹی کےمنتظم شعیب جامعی کے مطابق اس اعزاز کے بعد
دادی کسی سے مل نہیں رہی ہیں لیکن ان کی ہمت اور حوصلہ بلند ہے۔ دادی نے سب
کو پیار بھیجا ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے وہ لوگوں سے نہیں ملیں گی مگر سب
کے لیے خاص طور پرجن بچوں کو جامعہ کےاحتجاجی مظاہروں میں گرفتار کیا گیا
ہے ان کے لیے دعائیں کی ہیں۔'شعیب جامعی نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا
کہ : 'ہماری بلقیس دادی نے ہمیں شاہین باغ تحریک کے دوران متحرک رکھا۔ ہمیں
ان کی باتوں سے حوصلہ ملتا رہا۔ تحریک کے دوران کئی مشکلات اور پریشانیاں
آئیں لیکن دادی کو دیکھ کر ہماری ہمت بڑھ جاتی تھی‘۔ شاہین تحریک کی بابت
انہوں نے یہ وضاحت کی کہ :’ اس میں سبھی مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل
رہے۔ بہت سی ہندو خواتین اس میں اول روز سے شریک رہیں۔'
رعنا ایوب ٹائم کے اندر بلقیس بانو کی تصویر کشی کچھ اس طرح سے کی ہے کہ :
'میں نے جب پہلی بار بلقیس سے ملاقات کی تو وہ نوجوان احتجاجی خواتین کے
درمیان میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان خواتین نے ہاتھوں میں جو پلے کارڈز اٹھا
رکھے تھے ان پر انقلابی اشعار درج تھے۔ایک ہاتھ میں تسبیح اور دوسرے ہاتھ
میں قومی پرچم اٹھائے 82 سالہ بلقیس بھارت کے پسماندہ طبقوں کی ایک آواز بن
گئی ہیں، جو ٹھٹھرتی سردی میں بھی صبح کے آٹھ بجے سے نیم شب تک احتجاج میں
شامل ہوتی تھیں‘‘۔ رعنا لکھتی ہیں ’’رخصت لیتے وقت دبنگ دادی نے مجھ سے کہا
کہ میں یہاں رگوں میں خون کی گردش بند ہونے تک برسر احتجاج رہوں گی تاکہ
ملک کے بچے اور دنیا کے لیے انصاف و مساوات کی پر سکون فضا قائم ہوسکے۔‘
عدل و امن کے اس عظیم جذبہ کی قدر دانی کرتے ہوئے ٹائم جریدے نے انہیں دنیا
کی ۱۰۰ بااثر شخصیات میں شامل کیا ہے۔
پرچم و تسبیح کا یہ حسین امتزاج ہی دراصل اس عزت افزائی کی شاہ کلید ہے۔
ارشادِ ربانی ہے ’’۰۰۰یہ باتیں ہیں جن کی تم لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے، ہر
اُس شخص کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو جو کوئی اللہ سے ڈرتے
ہوئے کام کرے گا اللہ اُس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے
گا ، اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو‘‘۔
کس کے وہم و گمان میں یہ بات تھی کہ جس تحریک پر سرکار کی سرپرستی میں دہلی
پولس کے ذریعہ فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے کا بے بنیاد الزام لگایا جارہا ہے
اسے ایک مؤقر عالمی جریدے سے تائید و حمایت حاصل ہوجائے گی ؟ لیکن مذکورہ
آیت کا اختتامی حصہ یہ ہے کہ :’’ جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی
ہے اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر
کر رکھی ہے۔‘‘ یہی بات رسول اکرم ﷺنے بھی ارشاد فرمائی کہ : ’’جو استغفار
کا اہتمام کرے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے مصیبت سے باہر نکلنے کا راستہ بنا
دیتے ہیں، ہر فکر سے نجات عطا فرماتے ہیں، اور ایسے طریقہ پر رزق عطا کرتے
ہیں، جس کا آدمی کو گمان بھی نہ ہو‘‘۔
ارشادربانی ہے کہ :’’آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات دن کا ہیر
پھیر،۰۰۰۰‘‘ میں ’’ عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں‘‘۔ یہاں عام طور پر دن رات
کے ہیر پھیر ان واقعات کوشامل نہیں کیا جاتا کہ جو گردشِ زمانہ سے رونما
ہوتے رہتے ہیں ۔ اس تناظر میں یہ آیت دیکھیں : ’’کہو! خدایا! مُلک کے
مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جس سےچاہے، چھین لے جسے چاہے‘‘، اس آیت
سے معلوم ہوتا ہے کہ نریندر مودی کا پہلی اور دوسری مرتبہ وزیر اعظم بن
جانا بھی اذنِ خداوندی کے تحت ہے۔ اس کے بعد فرمایا ’’(جسے چاہے) عزت بخشے
اور جس کو چاہے، ذلیل کر دے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اقتدار کے ملتے ہی عزت
کا مل جانا ‘‘ لازم نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی مرضی ہے کہ اگر وہ چاہے تو عزت
بھی دے یا اقتدار کے باوجود ذلیل کردے۔ نیز کسی ایسے کو عزت سے نواز دے جو
اقتدار سے محروم ہے۔اس کی ایک مثال حال میں ٹائم میگزین کے ذریعہ سامنے
آئی ۔ نریندر مودی کو ٹائم میگزین ۱۰۰ بااثر ترین شخصیات میں شامل کرلیا ۔
مودی کا بااثر قرار دیتے ہوئے جو تعارف کرایا گیا ہے اسے پڑھ کر ان کے
بھکتوں نے سوچا ہوگا کہ اگر ٹائم کی یہ نظر کرم نہ کرتا تو اچھا تھا۔ جریدے
نے یہ لکھ کر کے :’’جمہوریتمیں اہمیت ان لوگوں کے حقوق کی ہے، جنھوں نے
جیتنے والوں کو ووٹ نہیں دیا۔ نریندر مودی نے ان تمام باتوں کو تشویش کے
دائرے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ ان کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی
نے حکمران اشرافیہ کے علاوہ تکثیریت کو بھیمسترد کیا، خاص طور پر مسلمانوں
کو ہدف بنا کر۔ وبا ان کے لیے مخالف آوازوں کا گلا گھونٹنے کا بہانہ بن گئی
اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت مزید تاریکی کیگہرائیوں میں چلی گئی۔‘‘
مودی جی کو لگنے والے یہ زخم کیا کم تھے کہ ٹائم نے شاہین باغ کی دبنگ دادی
بلقیس کو اس میں شامل کرکے زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا۔ یہ دیکھ کر آیت
کا گلا حصہ ’’بھلائی تیرے اختیار میں ہے ‘‘ یاد آتا ہے کہ رب کائنات نے
ایک بے اقتدار ۸۲ سالہ خاتون کے ذریعہ دنیا کے نہایت متکبرحکمراں کو خوار
کردیا ۔دبنگ دادی کی پذیرائی کے لیے اس سے بہتر وقت کون سا ہوسکتا تھا کہ
جب دہلی کی پولس شاہین باغ پر فسادات کا الزام لگا رہی ہے ۔ یہ بہتان
گھڑاجارہا ہے کہ مظاہرین کو روپیہ دے کر لایا جاتا تھا۔ فی الحال احتجاج
کرنے والوں کو ہراساں کرنے کے لیے بے بنیاد الزمات کے تحت گرفتار کیا جارہا
ہےپر فرمانِ خداوندی ہے:’’ بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے ‘‘۔ آگے
فرمایا:’’(وہ) رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں‘‘ بی
جے پی نے دہلی انتخاب میں عام آدمی پارٹی کے دن کو رات میں بدلنے کی خاطر
شاہین باغ کو استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن اپنے منہ پر کالک پوت لی ۔
شاہین باغ کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی تو ٹائم نے اس میں جان ڈال دی۔ کیا
یہی بات آگے نہیں کہی گئی ہے کہ :’’(وہ) جاندار میں سے بے جان کو نکالتا
ہے اور بے جان میں سے جاندار کو‘‘ دبنگ دادی کی عزت افزائی پکار پکار کر
کہہ رہی ہے:’’ اور جسے چاہتا ہے، بے حساب رزق دیتا ہے ‘‘۔بلقیس بانو اور
شاہین باغ تحریک کی بے مثال عالمی پذیرائی پر علامہ اقبال کے یہ اشعار صادق
آتے ہیں ؎
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھُونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
کی محمّدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
|