نہ رہے بانس نہ بجے بانسری

دو آدمی سڑک پر سائیکل چلا رہے تھے کہ آمنے سامنے آنے پر ایک دوسرے سے ہلکا ساٹکرا گئے۔ابتدائی طور پر ہلکی پھلکی سی بحث ہوئی مگر جلد ہی بات ہاتھا پائی تک جا پہنچی چنانچہ نتیجے میں دونوں اپنے گھر جانے کی بجائے تھانے پہنچ گئے۔اگر اس واقعہ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دونوں سائیکل کے ٹکرانے سے زخمی نہیں ہوئے تھے بلکہ تکرار کے بعد لڑائی کی وجہ سے زخمی حالت میں تھانے پہنچے۔کسی دانا نے کیا خوب کہا ہے”کوئی شخص کسی انسان کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا وہ شخص اپنی نادانی سے خود کو نقصان پہنچاتا ہے“۔ہماری روزمرہ زندگی کے اندر بالکل اس طرح ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایک معمولی بات بڑھتے بڑھتے تلخی کی آخری حدود تک پہنچ جاتی ہے یا پھر کبھی عام سی بات بھی اس وجہ سے بری لگتی ہے کہ بات کہنے والا ناپسندیدہ شخص ہوتا ہے۔ایک قول کے مطابق”آپ دنیا سے اپنے ناپسندیدہ افراد کو نکال نہیں سکتے البتہ اُن کے ساتھ نبھا کر کے اپنی زندگی خوشگوار کر سکتے ہو“۔جب کسی پر یہ حقیقت منکشف ہو جائے تو وہ ناممکن چٹان سے کیوں ٹکرائے گا؟۔سوال یہ ہے کہ وہ ممکن کے راستے پر کیوں نہ چلے؟۔اپوزیشن پچھلے ایک سال سے نہایت سمجھداری سے وقت گزار رہی تھی۔معاملات پر بات چیت بھی چل رہی تھی،عوام کو دکھانے کے لیے ہلکی پھلکی موسیقی کا تڑکہ بھی لگا ہوا تھا،بیان بازی کا بھی شور تھا اُور حکومت وقت کو ہر مشکل موڑ پر اپوزیشن کی جانب سے عارضی سہارا بھی مل جاتا تھا۔مگرپھر اچانک صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیااُور نون لیگ کے سربراہ شہباز شریف کی جگہ نوز شریف نے سنبھالی اُور ایک اندھا فائر کر دیا۔جن افرادکو ڈرانے کے لیے یہ ہوائی فائرنگ کی گئی تھی انہوں نے جواب میں سیدھا فائر کھول دیا جو نشانے پر لگا جس کے نتیجے میں بے صبری کا طوفان بد تمیزی اُٹھ کھڑا ہوا،جلد بازی میں غلط فیصلے کیے گئے جن کے خمیازے میں نوز شریف،مریم صفدر اُور چالیس کے قریب نون لیگی لوگوں پر غداری کا مقدمہ درج ہو گیا۔ہم بچپن سے سنتے ہیں کہ انتظار بھی مسئلے کا ایک حل ہے۔مطلب یہ کہ مال،کھال یا آل کی موجودہ پریشانیوں سے جو ڈر گیا وہ مر گیا۔جس نے اچھے وقت کا نتظار کیا وہ امر ہو گیا۔حال کی محرومیوں سے گھبرا کر غلط فیصلے کرنا، دراصل مزید مشکلات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔پبلی ایس ایک لاطینی مصنف تھا اُس کا ایک قول ہے”عقل مند آدمی مستقبل کی اس طرح حفاظت کرتا ہے جیسے کہ وہ حال ہو“۔”The wise man guards againt the future as if it were the present“۔مگر افسوس صد افسوس کہ ہماری سیاسی قیادت اس سوچ کی حامل نہیں اُورجس طرح کا معاملہ ان دنوں ہمارے تین دفعہ کے سابق وزیر اعظم نوز شریف کے ساتھ ہو رہا ہے وہ سراسر اُن کی اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔میڈیا کی طرف سے پی ٹی آئی کی حکومت پر مسلسل تنقید ہو رہی ہے کہ جس طرح نواز شریف کی تقریروں پر پابندی نہیں لگانا چاہیے تھا اسیطرح غداری کا مقدمہ بھی درج نہیں ہونا چاہیے تھا۔مگرمعاملات کو سلجھانے کی طرف لے کر چلنا صرف حکومتوں کا کام نہیں ہوتا بلکہ اپوزیشن کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلے اُور سیاسی دشمنی میں اتنا آگے نہ چلی جائے کہ جہاں اُس کاملکی مفادات اُور سلامتی کے ساتھ براہ راست ٹکراؤ ہونا شروع ہو جائے۔حد کا خیال رکھنا بہت ضروری عمل ہے مگر یہاں تو اپوزیشن کی جانب سے ملکی رازوں کی لوٹ سیل لگنے لگی تھی اُورحساس موضوعات کو ٹی وی پر زیر بحث لایا جارہا تھا۔پاکستان جو کئی دہائیوں کی خون ریزی،افراتفری اُور سیاسی اُتار چڑھاؤ کے تاریک ادوار کے بعد اب اپنی ترقی و خوشحالی کے خواب دیکھ رہا ہے اُو ر اس خواب کی تعبیر کے لیے موجودہ حکومتFATFکے سلسلے میں ضروری بلز منظور بھی کروا چکی ہے۔اُمید ہے کہ ان اقدامات کے بعد جلد ہی پاکستان گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ میں آجائے گا جو یقیناً ایک خوش آئند بات ہوگی۔اس وقت ساری دنیا پاکستانی معیشت کی تعریف کر رہی ہے۔ ملک ٹیک آف کی پوزیشن میں ہے مگر سیاسی لوگ ملک دشمنوں کی بات کررہے ہیں نیز سلامتی کے اداروں کی تذلیل بھی کر رہے ہیں یہ قطعاً مناسب عمل نہیں ہے۔سیاسی اختلافات اپنی جگہ پر مگر اقتدار کی ہوس میں ملک دشمنی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یاد رہے اگر پاکستان سلامت ے تو اگلی باری کسی کی بھی ہو سکتی ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے اب تک غداران وطن اُور مفاد پرست ٹولے کے خلاف کبھی بھی کوئی فیصلہ کُن قدم نہیں اُٹھایا گیا۔جب چاہا،جس نے چاہا اُورجو چاہا،وہ کیا گیا۔ملک کو لُوٹاگیا،عوام سے جھوٹ بولاگیا،اداروں کو تباہ کیا گیا،سرکاری ملازموں کو ذاتی ملازم بنایا گیا اُور ہمیشہ جھوٹ کو سچ بنا کر دکھایاگیا۔مگر اب وہ وقت نہیں رہا، نگاہ بے نور نہیں رہی اُور عوامی شعو ربیدار ہے، لہذا اب حساب دینا ہو گا۔حکومتی اداروں کو چاہیے کہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں اُوراب انہیں کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر عملی اُور ٹھوس اقدامات اُٹھانے ہوں گے تاکہ”نہ رہے بانس نہ بجے بانسری“۔
 

Imran Amin
About the Author: Imran Amin Read More Articles by Imran Amin: 50 Articles with 30756 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.