بالاکوٹ نام نہاد سرجیکل سٹرائیکس کی ناکامی ، جنگی
طیاروں کو مارگرانے، پائلٹس کی گرفتاری ، لداخ میں شرمناک شکست کے باوجود
بھارتی چیف آف ائر سٹاف اور جرنیل چین اور پاکستان کے ساتھ بیک وقت لڑنے کے
لیے تیار ہونے کے غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے میں کوئی شرم محسوس نہیں
کرتے۔اسی لئے دہلی کے حکمران اپنی دفاعی کمزوریوں کو ذہن میں رکھنے کی جناب
متوجہ نہیں ہو رہے ہیں۔بھارت کے چیف آف ایئر اسٹاف ایئر چیف مارشل آر کے
ایس بھادوریہ نے گزشتہ روزایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ بھارت دو
محاذوں پر جنگ کے لیے تیار ہے۔’’ہم تیار ہیں اور چین کا سامنا کرنے کے لیے
بہترین پوزیشن پر ہیں اور ان کے پاس ہم پر برتری حاصل کرنے کا کوئی موقع
نہیں ہے‘‘۔بھارت کو شمالی اور مغربی سرحد پردنیا کی دو طاقتور ایٹمی طاقتوں
کا سامنا ہے۔ انہیں اس بارے میں معلوم بھی ہے جس کا وہ اعتراف بھی کرتے ہیں،
’’ہم باخبر ہیں کہ وہ دونوں قریبی تعاون کر رہے ہیں اور سنجیدہ خطرہ موجود
ہے لیکن اب تک کوئی ایسا اشارہ نہیں ہے کہ وہ دونوں محاذ پر جنگ کے لیے
تیاری کر رہے ہوں‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ بھارتی میڈیا نے گزشتہ روز خفیہ اداروں سے منسوب یہ بھی
پروپگنڈہ کیا کہ آزاد کشمیر میں پاکستان میزائل سسٹم نصب کر رہا ہے۔ یہ بھی
کہا گیا کہ چین، آزاد کشمیر میں ائربیس کا استعمال کر سکتاہے اور چینی
لبریشن آرمی آزادکشمیر میں موجود ہے۔ بھارتی میڈیا کا یہ دعویٰ مضحکہ خیز
ہے کہ مظفر آبادمیں میزائل سسٹم نصب کرنے کے لئے تمام تیاریاں مکمل کی جا
رہی ہیں اورمیزائل سسٹم کاکنٹرول چینی لبریشن آرمی کے پاس رہے گا تا کہ وہ
جب چاہئے اسے استعمال کرسکے۔مظفر آباد میں میزائل سسٹم کی تنصیب کے الزمات
مظفر آباد کو جارحیت کا نشانہ بنانے کے لئے بھی عائد کئے جا سکتے ہیں۔
بھارت نے آزاد کشمیر کی آبادی کو گولہ باری اور فائرنگ کا نشانہ بنانا روز
مرہ کا معمول بنا رکھا ہے۔ اس کی شہری آبادی کے خلاف جنگی جارحیت جاری
ہے۔دہلی اس جارحیت میں شاید توسیع کی منصوبندی کر رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ
بھارتی خفیہ اداروں سے منسوب یہ پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ اسکردو ائربیس
سمیت چینی لبریشن آرمی میرپوراورمظفرآباد کی ائربیسوں کابھی استعمال کرے گی
اوراس سلسلے میں دونوں ممالک کے مابین بات چیت مکمل ہوگئی ہے۔بھارتی میڈیا
کی یہ رپورٹیں آرمی چیف کے 6اکتوبر کے دورہ گلگت اور اسکردو کا موازنہ بھی
اسی تناسب میں کر رہی ہیں۔اس دورہ میں آرمی چیف کو آپریشنل تیاریوں کے بارے
میں بریفنگ دی گئی ۔گلگت بلتستان کا وزیراعظم عمران خان کا مجوزہ دورہ بھی
اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ تک دعویٰ کیا گیا ہے کہ
چینی لبریشن آرمی کے اہلکار مظفرآبادمیں میزائل سسٹم نصب کرنے اوراس
کاکنٹرول اپنے پاس رکھنے کے لئے پہلے ہی پہنچ گئے ہیں۔بھارتی وزارت دفاع
آزاد کشمیرمیں چینی لبریشن آرمی کی موجودگی پرتشویش کااظہارکررہی ہے کہ چین
کواس سلسلے میں وضاحت کرنی چا ہئے کہ ان کی فوج آزاد کشمیر میں کس حیثیت سے
موجودہے۔
بھارت آزاد کشمیر میں مختلف ترقیاتی منصوبوں میں کام کرنے والے چینی
انجینئرز کو فوجی اہلکار قرار دے کر گمراہ کن مہم چلا رہا ہے۔بھارتی چیف آف
ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت نے پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی دفاع کو بریفنگ میں
بھی ایسا ہی بیان دیا کہ بھارت چین اور پاکستان کے ساتھ بیک وقت لڑنے کے
لئے تیار ہے اور اس سلسلے میں پہلے ہی تمام اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔’’ چین
بھارت کومختلف بہانوں سے اُکھسانے کی کوشش کررہاہے تا ہم چین کے ان حربوں
کوکسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے‘‘۔یہ اشتعال انگیز بیان بازی
ہے۔ جس پردفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے بروقت جواب دیاکہ ’’اس
طرح کے اشتعال انگیز بیانات آر ایس ایس۔بی جے پی کے انتہا پسند نظریئے اور
بالادستی کی سوچ سے مغلوب ذہنیت کا عکس ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ حیرت
انگیز بات ہے کہ بھارت کے سینئر سیاسی و عسکری رہنما خطے سمیت خود بھارت کے
امن کو داؤ پر لگاتے ہوئے پاکستان کے خلاف مسلسل اشتعال انگیز بیانات جاری
کر رہے ہیں۔ زاہد حفیظ چوہدری نے کہا ’’بھارتی چیف کو اس طرح کی شیخی
بگھارتے وقت اپنی دفاعی کمزوریوں کو نہیں بھولنا چاہیے جو دنیا کے سامنے
بری طرح عیاں ہوچکی ہے‘‘۔بھارتی دفاعی صلاحیت پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے
رواں برس چین کے ساتھ شمالی سرحد پر کئی مہینوں تک جاری رہنے والی جھڑپوں
کا حوالہ دیا اور کہا کہ بھارت کا دفاع پہلے بالاکوٹ کے ناکام اقدام اور
حال ہی میں لداخ میں بے نقاب ہوا۔اس دوران بھارت کے مرکزی وزیر برائے
اقلیتی امور مختار عباس نقوی لداخ کے دورہ پر ہیں۔ وہ لداخ کو ’فخر
ہندوستان‘ قرار دے رہے ہیں۔لداخ کو بھارت نے اپنی یونین ٹیریٹری یا کالونی
بنا دیا ہے۔جب کہ لداخ تاریخی اعتبار سے کشمیر کا ہی حصہ ہے۔بھارتی وزیر
لداخ خودمختار پہاڑی ترقیاتی کونسل لیہہ کے انتخابات کے سلسلے میں شکوٹ
یوکما، شکوٹ شما، شکوٹ گوگما، پھیانگ، چشکو، پھیانگ تھانگانک میں مہم چلا
رہے ہیں۔آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد تجارت، زراعت، روزگار، ثقافت، زمین اور
جائیداد وغیرہ کیلئے لیہہ اور کرگل کے لوگوں کے حقوق چھین لئے گئے ہیں۔ ا ب
انہیں کوئی آئینی تحفظ نہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 3اکتوبر کو
ریاست ہماچل پردیش اور لداخ کے درمیان اٹل بہاری واجپائی کے نام سے منسوب
دنیا کی طویل ترین 9.2کلو میٹر دوطرفہ ہائی وے ٹنل ’’اٹل ٹنل‘‘کا افتتاح
کیا جو ریاست ہماچل پردیش کو براستہ منالی لداخ سے جوڑ رہی ہے۔اس دفاعی
اہمیت کی حامل زیر زمین سرنگ سے منالی کا کیلانگ لیہہ تک 46کلومیٹر اور
چارگھنٹے کی مسافت کم ہو گی ۔بھارت جو مرضی کر لے یہ درست ہے کہ وہ اپنی
کسی بھی مذموم حرکت کے خلاف پاکستانی قوم کے جذبے اور مسلح افواج کی
تیاریوں کو نظر انداز نہ کرسکے گا۔ جنوبی ایشیا کے امن و خوشحالی کی خاطر
بھارت نے تیسری صدی کے چانکیائی بیانیئے کو نہ چھوڑ ا اور اکیسویں صدی کے
خطے کے امن و ترقی کے ماڈل کونہ اپنایا تو یہ اس کے لئے تباہ کن ہو گا۔
جنرل راوت نے یو ایس۔انڈیا اسٹریٹجک پارٹنرشپ فورم کے زیر اہتمام سیمینار
میں خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ پاکستان اور چین کی افواج سے بھارت کو
شمالی اور مغربی سرحد پر مشترکہ کارروائی کا خطرہ ہے۔’’ہماری شمالی سرحد پر
کوئی خطرہ بڑھا تو پاکستان اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے اور ہمیں مغربی سرحد
پر مشکلات پیدا کرے گا‘‘۔مگر ساتھ میں پاکستان کو دھمکی بھی دی کہ اگر
پاکستان نے مس ایڈوینچر کیا تو'بھاری نقصان کا سامنا' کرنا پڑے گا ۔پاکستان
نے بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف کے بیان کی مذمت کی اورکہاکہ اشتعال انگیز
بیانات دینے اور اپنے ہمسائیوں پر الزامات عائد کرنے کے بجائے اپنے کام پر
توجہ دیں۔ بھارت کی سینئر عسکری قیادت کی جانب سے اس طرح کے اشتعال انگیز
بیانات سے بی جے پی۔آر ایس ایس کا رویہ آشکار ہو رہا ہے، جو خطرناک انتہا
پسند نظریات سے بھرپور، بالادستی کے ارادے اور پاکستان کے خلاف پائے جانے
والے جنون کا مجموعہ ہے اور یہ نظریہ بھارتی ریاستی اداروں میں سرایت کرگیا
ہے۔ بھارتی حکومت ہر جغرافیائی سیاسی یا عسکری دھچکے پر غلطیوں سے سبق
سیکھنے کے بجائے بے بنیاد اور اشتعال انگیزی کو مزید ہوا دیتی ہے۔بھارت کی
لداخ اور بالاکوٹ ناکام حملوں سے اس کی دفاعی صلاحیت دنیا کے سامنے شرم ناک
حد تک بے نقاب ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا۔افغانستان میں اعلیٰ قومی مصالحتی
کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ کا دورہ دہلی اورنریندر مودی ، قومی
سلامتی کے مشیر ، وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے ملاقاتیں بھی اسی تناظر میں
ہوئی ہیں۔مگر بھارت ،چین اور پاکستان کے ساتھ دو محازوں پر لڑنے کے کھوکھلے
دعوے کرنے اور متشدد بیانات کے بجائے حقائق کا سامنا کرے۔ ان سے بھارت کو
ذلت کے سوا کچھ نہیں ملا، بھارتی قیادت کو پاکستان مخالف رائے عامہ ہموار
کرنے،توسیع وجارحیت پسندانہ عزائم کے بجائے کشمیر سمیت تصفیہ طلب مسائل کا
پرامن حل نکالنے پر توجہ دینی چاہیے، جن سے وہ راہ فرار اختیار کر رہا ہے۔
|