امریکا پاکستان تعلقات کی نئی جہت

افغان ٹریجڈی کا اختتام گو کہ غیر یقینی کا کا شکار ہے، تاہم یہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس برس اگست میں امریکی فوج کے انخلاءکا آغاز ہوگا، جس کے تحت ڈیڈ لائن تک مکمل انخلاءیقینی بنانے کے لیے اقدامات شروع کردیے گئے ہیں۔ اسلام آباد سے شائع ہونے والے انگریزی ہفت روزہ پلس کے مطابق امریکی انتظامیہ میں صدر سے لے کر دفترِ خارجہ تک حکام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان میں کامیابی کے لیے پاکستان کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ صدر اوباما نے افغان اسٹرٹیجی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ماضی میں ہم اکثر پاکستان سے اپنے تعلقات کا محدود قرار دیتے تھے۔ وہ دن اب ختم ہوچکے ہیں۔ اب ہم نے آگے بڑھتے ہوئے پاکستان سے اپنے تعلقات کی بنیاد باہمی مفادات، باہمی احترام اور باہمی اعتماد پر استوار کی ہے۔“

امریکی وزیر خارجہ رابرٹ گیٹس نے اوباما کی خواہشات کو ان الفاظ میں بیان کیا ”امریکا پاکستان سے طویل المدت، اسٹرٹیجک پارٹنر شپ قائم کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ یہ پارٹنر شپ ایک جمہوری پاکستان سے ہوگی جس کی بنیاد ایک دوسرے کے مفادات کو تحفظ اور ان کے احترام پر مبنی ہوگی۔ یہ تعلقات مستقبل میں بھی ہر سطح پر قائم رہیں گے۔ سیکورٹی تعاون اور اقتصادی ترقی کے لیے بھرپور مدد فراہم کی جائے گی۔“
یہ بیانات انتہائی بامقصد ہیں تاہم اگر ماضی ایک رہنمائی کرتا ہے اور موجودہ علاقائی ترقیات کوئی اشارہ ہیں تو باہمی تعلقات کے ممکنات اوباما اور گیٹس کے بیان کردہ مقاصد سے بہت دور ہیں۔

بھارت سے امریکی تعلقات اور مستقبل کے لیے اس کے عزائم کا پاکستان سے موازنہ کیا جائے تو ایک سنجیدہ فرق نظر آتا ہے۔ صدر بش کے 2005ءمیں دورہ_¿ پاکستان کے موقع پر تعلقات کی بہتری کے لیے ایک معاہدہ پر دستخط کیے گئے تھے۔ پچھلے پانچ برسوں کے دوران اس معاہدے کے کوئی نتائج سامنے نہیں آئے۔

وقت آگیا ہے کہ پاکستان امریکا سے اُس کی اسٹرٹیجک تشویش اور وعدوں پر مبنی منصوبوں مثلاً دو طرفہ سرمایہ کاری معاہدہ (بی آئی ٹی)، مواقعوں کا زون (آر او زیڈ) سے متعلق دریافت کرے۔ انڈین امریکا ماڈل ایک اچھی مسابقت ہے۔ 18 جولائی 2005ءکو بھارتی وزیرِاعظم کے دورہ_¿ واشنگٹن کے دوران دونوں سربراہوں نے ایک گلوبل پارٹنر شپ کے قیام پر رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے آٹھ اہم اقدامات کے انعقاد کا اعلان کیا تھا۔

وہائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز میں ان اقدامات کی رینج اور اسکوپ کی وضاحت کی گئی تھی۔
-1اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں پہلے اقدام (این ایس ایس پی) کے تحت یہ طے کیا گیا کہ دونوں ممالک تجارت، خلائی سائنس، سول نیوکلیئر انرجی اور دُہرے استعمال کی ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔

-2امریکا بھارت اکنامک ڈائیلاگ تجارت، مالیات، ماحولیات اور کامرس کا احاطہ کریں گے۔ اس ڈائیلاگ میں ایک نیا سی ای او فورم، ٹاپ امریکی اور بھارت سی ای اوز پر مشتمل ایک ایڈوائزری گروپ شامل ہوگا، تاکہ نجی شعبے میں توانائی کی ضروریات دیکھنے کے علاوہ یہ رہنمائی فراہم کی جاسکے گی کہ دو طرفہ اقتصادی تعلقات کو کس طرح گہرائی دے سکتی ہے۔

-3امریکا بھارت انرجی ڈائیلاگ انرجی سیکورٹی کو مستحکم اور مستحکم انرجی مارکیٹوں کو فروغ دےں گے۔ ڈائیلاگ کا مقصد وافر انرجی اور افورڈایبل سپلائز کو یقینی بناتے ہوئے ماحولیاتی مسائل کو نمٹانا ہے۔ اس میں پانچ ورکنگ گروپ شامل ہوں گے تاکہ آئل اینڈ گیس، کول، توانائی میں بچت، نئی اور قابلِ تجدید ٹیکنالوجیز اور سول نیوکلیئر انرجی پر مشتمل اقدامات کے لیے بحث کی جاسکے۔

-4خلائی تعاون میں مشترکہ سرگرمیوں کو یقینی بنایا جائے گا۔ ان اقدامات میں خلاءمیں نیویگیشن اور سول اسپیس کوآپریشن پر امریکا بھارت ورکنگ گروپ کے متعین کردہ میکانزم کے تحت کمرشل اسپیس کے شعبے میں تعاون کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ فوائد میں امریکی انسٹرومنٹس کے ذریعے چاند پر دو بھارت چندرایان I مشن چاند پر بھیجنے اور امریکی خلابازوں کے تربیتی پروگرام میں ایک بھارتی خلاباز کو شامل کرنا ہے۔ دونوں ممالک نے گلوبل پوزیشننگ سسٹم (جی پی ایس) پر تعاون بڑھانے کے لیے تیاری کا اظہار بھی کیا ہے۔

-5امریکا بھارت گلوبل ڈیموکریسی اقدام کا مقصد ترقی پذیر جمہوریتوں کو مدد فراہم کرنا ہے۔ جمہوریت کے لیے اس اقدام سے ایسے معاشروں کو مدد ملے گی جو زیادہ کھلے اور جمہوری بننے کے خواہش مند ہیں۔ دونوں ممالک اقوامِ متحدہ کے ڈیموکریسی فنڈ کو زیادہ امداد فراہم کر کے اس کی حمایت کریں گے تاکہ جمہوری اداروں کی تعمیر اور مخصوص انسانی وسائل کی ترقی میں مدد فراہم کی جاسکے۔

-6امریکا بھارت ڈیزاسٹر رِسپانس اقدام کے ذریعے سونامی کور گروپ کے درمیان تعاون کامیاب بنایا جائے گا، جس کے امریکا و بھارت بانی ارکان ہیں اور گزشتہ دسمبر میں مشترکہ طور پر امدادی اقدامات کیے گئے تھے۔ اس اقدام کے ذریعے بحرِہند کے علاقے میں آفات کی صورت میں امدادی آپریشن کرنے اور ان کی تیاریوں کا موقع ملے گا جب کہ ملٹری ٹو ملٹری پارٹنر شپ قائم ہوسکے گی۔

-7امریکا بھارت ایچ آئی وی/ایڈز پارٹنر شپ کے ذریعے امریکی اور بھارتی کمپنیوں کے درمیان تعاون سے ایک اتحاد اور ان کی حکومتوں کی جانب سے بڑی تعداد میں وسائل متحرک کر کے ایچ آئی وی ایڈز میں مبتلا لوگوں کو بیماری سے بچانے، ان کی دیکھ بھال اور علاج کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

-8امریکا بھارت زرعی اتحاد کے ذریعے اقتصادی، سماجی اور ماحولیاتی فوائد کے حصول کے لیے منفرد طریقے اختیار استعمال کرتے ہوئے تعلیم، تحقیق اور خدمات کو فروغ دیا جائے گا۔ اس اقدام کے ذریعے تعلیمی، تحقیقی پروگرام ترتیب دیے جائیں گے۔

گزشتہ کئی برسوں کے دوران امریکا اور بھارت نے ان اقدامات کے ذریعے بہت سے اہداف حاصل کرلیے ہیں یا حصول کے نزدیک ہیں۔ ان میں سب سے اہم سویلین نیوکلیئر تعاون ہے جس کے ذریعے بھارت کو ایک ایٹمی قوت کی حیثیت عطا کی جاچکی ہے۔ اس کے برخلاف ہماری ایسی ہی درخواست کو مسترد کیا جاچکا ہے۔
پاکستان پر امریکا اور نیٹو کے انحصار میں اضافہ افغانستان میں مقررہ اہداف کے حصول میں کامیابی یقینی بنائے گا۔ ہمیں یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے اور یہ جتا دینا چاہیے کہ پاکستان کا تعاون امریکی تعاون اور امداد سے متناسب ہوگا، جب کہ بھارت سے تعاون ایک پیمانہ ہے۔
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 77858 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More