آغا شورش کاشمیری کی یاد میں
(Muhammad Aslam Lodhi, Lahore)
آغا شورش کاشمیری 14اگست 1917ء کو امرتسر
شہر میں پیدا ہوئے ۔جہاں ان کے والدین کشمیر سے ہجرت کرکے قیام پذیر ہوئے
تھے ۔آپ کا اصل نام عبدلکریم تھا لیکن آپ نے شہرت آغا شورش کاشمیری کے نام
سے پائی ۔سات سال کی عمر میں والدہ کا انتقال ہوگیا ابھی یتیمی کا صدمہ کم
نہ ہوا تھا کہ والد نظام الدین بھی چل بسے ۔ آپ کے دادا جن کا،
لاہورانارکلی بازار ایبک روڈ پر باقر خانی اور کلچوں کا تندور تھا، انہوں
نے آپ کو دیوسماج ہائی سکول لاہور میں حصول تعلیم کے لیے داخل کروا دیا۔اسی
سکول سے آپ نے میٹرک کا امتحان 1932ء میں پاس کیا۔ بعدکے دو اڑھائی سال
بیکاری میں گزرے لیکن اس عرصہ کے دوران آپ باقاعدگی سے پنجاب پبلک لائبریری
جاتے رہے ،وہاں آپ کا زیادہ وقت کتابوں کے مطالعے میں ہی گزرا۔ایک جگہ آپ
خود لکھتے ہیں کہ وہ ابتداء ہی سے زمیندار اخبار کے مستقل قاری رہے ۔یہی وہ
اخبار تھا جس نے آپ کی ذہنی تربیت اور نشو و نما کی ۔ابھی آپ چھٹی جماعت
میں تھے کہ سائمن کمیشن ہندوستان آیا ۔اس کے خلاف لاہور ریلوے اسٹیشن پر
زبردست احتجاج ہوا ۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس سے کتنے ہی لوگ زخمی ہوئے
۔یہی واقعہ ان کی سیاست میں دلچسپی اور انگریز حکومت سے شدید نفرت کا باعث
بنا ۔ زمیندار اخبار کا مطالعہ اور مولانا ظفرعلی خاں سے مراسم ہونے کے
باعث گھر کا ماحول سیاسی تھا ۔آغا صاحب نے مولانا ظفر علی خان کی جماعت
مجلس اتحاد ملت پارٹی میں شمولیت اختیار کی ۔ اسی زمانے میں 1935-36ء میں
مسجد شہید گنج کا واقعہ رونما ہوا ۔جب اس سلسلے میں جلسوں کا آغاز ہوا
توآغا صاحب نے اپنی پہلی تقریر اسی حوالے سے منعقدہ جلسے میں کی ۔ جولائی
1935ء میں شاہی مسجد لاہور میں ایک دھواں دھار تقریرکرکے خود کو منوایا۔
ایک دو برس بعد آپ کی تقریر میں وہ تمام لوازم جمع ہوگئے جو ایک اچھے خطیب
میں ضروری ہوتے ہیں ۔مسجد شہید گنج کے واقعہ کے بعد قید و بند کی صعوبتیں
برداشت کیں ۔حقیقت میں آغا صاحب کی زندگی کا بڑا حصہ قید و بند کی صعوبتوں
سے بھرا پڑا ہے ۔جیل میں ایسے مظالم برداشت کیے جن کا ذکر الفاظ میں نہیں
کیا جاسکتا ۔ہرطرح کی مارپیٹ تو معمول کی بات تھی ایک مرتبہ ان کی پیٹھ
پرابلتا ہوا دودھ ڈال دیا گیا جس سے پوری کمر جل گئی۔ تقسیم ہندوستان تک آپ
کے ساتھ اس قسم کے واقعات پیش آتے رہے ۔ذیابیطس کا مرض بھی آپ کو جیل ہی
میں لاحق ہوا۔لیکن انہوں نے انگریز حکومت کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکے ۔ 1939ء
سے 1944ء تک کا عرصہ قید میں گزرا ۔جب رہا ہوئے تو انہوں نے کسی سیاسی
پارٹی میں شرکت تو نہ کی لیکن نظریہ پاکستان اور اسلام کے بہترین سفیر قرار
پائے۔قیام پاکستان کے بعد 1952ء میں قادیانیوں کے خلاف تحریک میں بڑھ چڑھ
کے حصہ لیا جس کی پاداش میں ایک بار پھر گرفتار ہوئے لیکن ضمانت پر رہا
ہوگئے۔آغا صاحب کی شخصیت کا یہ خاصا ہے کہ وہ جعلی مشائخ ،بے کردارصحافیوں
، جعلی دانشوروں اور انگریزوں کے پٹھووں کے خلاف ننگی تلوار ثابت ہوئے ۔وہ
فن خطابت کے ماہر ،شعلہ بیان مقرر تھے ان کی جرات ، راست گفتاری اور جوش
اور حرارت ایمانی کی بنا پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔انہوں نے صحافتی زندگی
کا آغاز زمیندار اخبار سے کیا ۔بعد ازاں تاجور نجیب آبادی کے رسالے "شاہکار"
کے ایڈیٹر ہوگئے ۔روزنامہ سیاست ، الہلال سے ہوتے ہوئے آپ نے اپنا رسالہ
ہفت روزہ "چٹان " کا اجرا ء یکم جنوری 1949ء لاہور سے کیا۔آپ اداریے ،
شذرات ، کالم اور مضامین بھی مختلف ناموں سے لکھتے رہے ۔پہلے الفت تخلص
اختیا رکیا ۔بعد ازاں شورش کے نام سے مشہور ہوئے ۔آغا شورش نے نعت ، غزل
اور نظم میں بھی طبع آزمائی کی لیکن اصل میدان ہنگامی اور سیاسی شاعری ہی
رہا ۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی ادارت میں شائع ہونے والا " چٹان" بیک
وقت سیاسی ، تہذیبی اور اصلاحی رسالہ بھی تھا ۔یہ رسالہ معاشرتی برائیوں کا
زبردست نقاد تھا اور اس روش کی بدولت یہ رسالہ کئی مرتبہ بند بھی ہوا لیکن
ان کی آواز کو دبایا نہ جا سکا۔ چٹان جب دوبارہ چھپنا شروع ہوتا تو ایک نئی
آب و تاب لیے منظر عام پر آتا۔اسکی مقبولیت میں کبھی کمی واقع نہ ہوئی۔ادب
وصحافت کا یہ عظیم شاہ سوار 25اکتوبر 1975ء کو دنیائے فانی سے رخصت ہوا
اورسعدی پارک میانی صاحب قبرستان لاہور میں دفن ہوا ۔ آپ کی اہم تصانیف میں
بوئے گل نالہ دل دود چراغ محفل ، پس دیوار زنداں اور موت سے واپسی شامل ہیں
۔یہ تینوں کتابیں آغا صاحب کی خود نوشت سوانح ہیں ۔جبکہ ان کے علاو ہ مزید
بائیس کتب بھی آپ کی تصانیف میں شامل ہیں جو آپ کی شخصیت ،خطابت،ذہانت ،
صحافت اور سیاست کی آئینہ دار ہیں ۔ان کو ہم سے بچھڑے پینتالیس سال ہوچلے
ہیں لیکن آج بھی ان کا نام اہل علم و دانش کے ذہنوں میں پہلے کی طرح زندہ و
تابندہ ہے ۔ راقم کو بھی کچھ عرصہ جناب مقبول انورداؤدی کے توسط سے ان
زیرنگیں کام کرنے کا موقعہ بھی میسر آیا ۔ |
|