16 اکتوبر کا دن وطن عزیز کی تاریخ
کا اہم ترین دن ہے, یہ وہ دن ہے جب طوفان باد و باراں سے نکلی ہوئی کشتی کا
رخ ایک اور طوفان کی جانب موڑ دیا گیا۔ ایک ایسا سانحہ جو آج تک ایک معمہ
بنا ہوا ہے, اور شاید قیامت تک جس کا سراغ نہ لگایا جا سکے۔
16 اکتوبر 1951 کو کمپنی باغ راولپنڈی میں یہ عجیب و غریب سانحہ پیش آیا,
تحریک پاکستان کے عظیم راہنما, ریاست کرنال کے نواب, جناح کے دست راست, ملک
کے پہلے وزیر اعظم قائد ملت خان لیاقت علی خان کو دوران جلسہ فائرنگ سے قتل
کر دیا گیا۔ اس واقعے کو عجیب و غریب اس لیے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس واقعے سے
جڑی جزئیات واقعی عجیب و غریب ہیں۔ سید اکبر نامی ایک افغان باشندہ وزیر
اعظم کے نزدیک ترین خفیہ پولیس اہلکاروں کے لیے مختص کیے گئے حصے میں تقریر
سننے کے لیے بیٹھا ہوتا ہے۔ اور مستزاد یہ کہ مسلح بھی ہوتا ہے۔ اور جونہی
وزیر اعظم ڈائس پر آ کر عوام کو مخاطب کرتے ہیں۔ وہ شخص اٹھتا ہے, اطمینان
سے دو فائر کرتا ہے۔۔۔وزیر اعظم نیچے گرتے ہیں, اور ساتھ ہی سٹیج پر موجود
انچارج پولیس ایس پی نجف خان اس شخص کو شوٹ کرنے کا حکم دے دیتے ہیں, اور
محض چند سیکنڈ میں ہی پولیس انسپکٹر شاہ محمود اطمینان سے 5 گولیاں اکبر کے
سینے میں پیوست کر کے اس کا قصہ تمام کر دیتے ہیں۔ حالانکہ بعد کی
انکوائریز میں یہ بات ثابت ہو چکی کہ اسے سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ لوگوں
نے زندہ پکڑ لیا تھا, اور ویسے بھی اتنے بڑے مجمعے سے بھاگ کر وہ کہاں جا
سکتا تھا؟ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اتنے پروفیشنل لوگوں میں ایک غیر ملکی
شخص مسلح حالت میں سی آئی ڈی اہلکاروں کے بیچ میں سٹیج کے اتنا قریب بیٹھ
جائے کہ جہاں سے وہ آسانی سے وزیر اعظم پاکستان کو ایک معمولی پسٹل سے
نشانہ بنا سکے, کیا یہ عجیب نہیں کہ اتنے بڑے جلسے میں فرسٹ ایڈ یا طبی
امداد کا نام و نشان تک نہ تھا کہ جس سے وزیر اعظم کو فوری طور پر ابتدائی
طبی امداد دی جا سکتی, اور وہ کئی گھنٹوں بعد ہسپتال پہنچنے سے پہلے شاید
جانبر ہو سکتے۔ 50 ہزار نفوس سے زیادہ کے مجمعے میں کوئی ایک ایمبولینس تک
موجود نہ تھی, ملک کے وزیر اعظم کو ایک وزیر کی ذاتی گاڑی میں ڈال کر
ہسپتال منتقل کیا گیا۔ اور جب پہلا فائر ہوا تو گراؤنڈ کے چاروں طرف اچانک
اندھا دھند ہوائی فائرنگ ہونے لگی۔ جس سے 50 ہزار کے مجمعے میں ایسی بھگدڑ
مچی کہ زخمی وزیر اعظم کو ہسپتال پہنچاتے تک کافی وقت لگ گیا۔
پھر یہ سلسلہ ہائے عجائب و غرائب صرف یہی تک محدود نہیں رہتے, ملک کے سب سے
بڑے عہدے دار کے قتل کی انکوائری میں بھی سنجیدگی کا اندازہ لگائیے کہ وزیر
اعظم پاکستان کے قتل کی نہ تو ایف آئی آر درج ہوئی اور نہ باقاعدہ تفتیش
چلی, نہ ہی چالان پیش ہوا, اور نہ مقدمہ چلا۔ جسٹس منیر اور اختر حسین پر
مشتمل ایک جوڈیشل انکوائری ضرور ہوئی مگر اس انکوائری کا مقصد لیاقت علی
خان کے قاتلوں کا تعین کرنے کی بجائے قتل سے متعلقہ انتظامی غفلت کا جائزہ
لینا تھا۔
دوسری طرف قاتل کو مارنے کا حکم دینے والے ایس پی نجف خان کچھ عرصہ معطل
رہنے کے بعد دوبارہ بحال ہو گئے, اور یہی نہیں ان کی پروموشن بھی ہوئی۔
ادھر لیاقت علی خان کے قاتل کو جلسہ گاہ میں 5 گولیوں سے بھون دینے والا
انسپکٹر پولیس شاہ محمد برطرف کر دیا گیا۔ لیکن برطرفی کے بعد وہ اتنا مال
دار ہو گیا کہ اس نے فیصل آباد میں ایک بہت بڑا کپڑے کا کارخانہ لگا لیا۔
حالانکہ وہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والا ایک عام پولیس افسر تھا۔ لیکن
اس سے بھی عجب یہ ہوا کہ اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد ہی گجرات میں کچھ
نامعلوم افراد نے اسے فائرنگ کر کے مار ڈالا۔
اس سے اگلی عجب کتھا یہ ہوئی کہ قتل کی انکوائری کرنے والے ایک ایمان دار
اور فرض شناس پولیس آفیسر اعتزاز الدین جو مشہور شاعر اور ادیب جمیل الدین
عالی کے بڑے بھائی بھی تھے, انکوائری کی مکمل رپورٹس تیار کرنے کے بعد تمام
فائلیں اٹھائے اپنی مکمل رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کرنے ایک خصوصی طیارے کے
ذریعے راولپنڈی سے لاہور جا رہے تھے, کہ جہلم کے ایک پہاڑی علاقے میں ان کے
طیارے کو اچانک آگ لگ گئی, اور وہ اس قتل کی تمام انکوائری رپورٹس سمیت جل
کر راکھ ہو گئے۔
پھر فروری 1958 میں عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو حکم دیا کہ وہ
لیاقت علی کے قتل کے متعلق پولیس کی تفتیشی فائل عدالت کو مہیا کرے۔ لیکن
کئی دن گزرنے کے باوجود فائل مہیا نہ کی جا سکی, تو آخر میں سی آئی ڈی نے
عدالت کو مطلع کیا کہ وہ فائل گم ہو چکی ہے۔ تلاش بسیار کے باوجود اس کا
کوئی پتہ نہیں چل سکا لہٰذا حکومت اسے پیش کرنے سے معذور ہے۔
پھر جائے وقوعہ پر حالات کے اس عجیب و غریب پن کا انداز لگائیں کہ اتنے بڑے
اور اہم جلسے میں' کہ بیگم رعنا لیاقت علی کے بقول؛ اس جلسے میں وزیر اعظم
ملکی تاریخ کے سب سے پہلے انتخابات کا اعلان کرنے والے تھے, ملک کے اہم اور
بڑے انتظامی عہدیداران کی موجودگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اب پنجاب کے شہر
راولپنڈی میں ہونے والے وزیر اعظم کے اتنے بڑے جلسے میں صوبہ سرحد کے وزیر
اعلیٰ تو موجود تھے, لیکن پنجاب کے وزیر اعلیٰ ممتاز دولتانہ موجود نہیں
تھے۔ صوبہ سرحد کے آئی جی پولیس تو موجود تھے, لیکن پنجاب کے آئی جی پولیس
قربان علی خاں اور ڈی آئی جی، سی آئی ڈی انور علی غائب تھے۔ پاکستان مسلم
لیگ کے سیکرٹری جنرل یوسف خٹک راولپنڈی میں ہی موجود تھے مگر جلسہ گاہ میں
نہ آئے۔ خواجہ ناظم الدین نتھیا گلی میں سیر و سیاحت میں مشغول تھے, جب کہ
غلام محمد راولپنڈی میں ہی تھے, لیکن جلسے میں شامل نہ ہوئے۔ سیکرٹری دفاع
سکندر مرزا کو اس وقت وزیر اعظم کے ساتھ ہونا چاھیے تھا, لیکن وہ کراچی میں
ٹینس کھیل رہے تھے۔ اور سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ ان دنوں ہالینڈ چلے گئے۔
یہ تو اس وقت کی باتیں ہیں, اس وقت کے ہمارے اکابرین تقریباً سبھی گزر چکے,
شاید ہی ان میں سے کوئی باقی ہو, لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ یہ سلسلہ ہائے
عجائب و غرائب آج بھی جوں کا توں جاری ہے۔ ملک کے اتنے بڑے عہدے پر فائز
شخصیت کے قتل کا واقعہ قصہ پارنیہ بنا دیا گیا ہے, نہ اس موضوع پر کوئی
تقریر, نہ کوئی منشور, نہ مطالبہ اور نہ کوئی انفرادی یا اجتماعی سطح پر
کچھ بات, نہ کوئی امید نہ آس۔۔۔ 16 اکتوبر ہر سال آتا ہے, اور خاموشی سے
گزر جاتا ہے۔ سرکاری سطح پر نہ کوئی تقریب, نہ اعزاز, نہ سلامی, خراج تحسین
یا زبانی کلامی ہی سہی کوئی تہنیتی الفاظ۔۔۔۔
صد افسوس کہ ہندوستان کی ریاست کرنال کے 200 گاؤں کی جاگیر ہندوستان میں ہی
چھوڑ کر آنے والا یہ نواب جب پاکستان آیا تو اپنے ہی بنائے ہوئے "لیاقت
نہرو پیکٹ" کے تحت اتنی ہی زمین کہ جو اس کا حق تھا, بدلے میں ایک انچ بھی
لینے سے انکار کر دیا کہ ان لاکھوں لٹے پٹے مہاجروں کا حق سب سے زیادہ ہے۔
وہ جاگیروں اور محلوں میں پلنے والا جب پاکستان کا وزیر اعظم بنا تو اس کے
پاس اپنا نہ کوئی ذاتی گھر موجود تھا, اور نہ زمین کا کوئی ایک مرلہ, نہ
بینک بیلنس۔۔۔ اور پھر اس کے قتل کے بعد اس کی بیوہ اور دو بچے کرائے کے
مکان میں رہے۔ ہائے افسوس کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے اس لاء گریجویٹ کی جب
خون آلود شیروانی اتاری گئی تو نیچے سے ایک بوسیدہ پھٹی پرانی بنیان اور
پیوند زدہ پتلون تھی, جب کہ جوتے بھی مرمت شدہ نکلے, جن میں خستہ حال پرانی
جرابیں اڑسی ہوئی تھیں۔
ہسپتال میں ان کے کپڑے تبدیل کرتے وقت کسی کہنے والے نے کیا خوب کہا ؛
"ہائے اس ملک کا اثاثہ اپنی ایک بیوہ، دو کم سن بچے, چار سگریٹ, اور دو
لائٹروں پر مشتمل جائیداد چھوڑ کر ہم سے رخصت ہوگیا"
خان لیاقت علی خان نے عوام سے خطاب میں ایک بار کہا تھا: ’’میرے پاس نہ
دولت ہے نہ جائیداد، میں اسی میں خوش ہوں کیوں کہ یہی چیزیں انسان کے ایمان
میں خلل ڈالتی ہیں۔ صرف ایک جان میرے پاس ہے اور وہ بھی چار برس سے پاکستان
کے لیے وقف ہے۔ اب میں آپ کو اس محبت اور عقیدت کے بدلے کیا دے سکتا ہوں جو
آپ مجھ سے کرتے ہیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر پاکستان کی حفاظت کے لیے
پاکستان کی بقاء کے لیے قوم کو خون بہانا پڑے تو لیاقت علی کا خون بھی اس
میں شامل ہوگا۔‘اور پھر آخر کار 16 اکتوبر 1951ء کو انہوں نے قوم سے کیا
گیا یہ وعدہ بھی ایفا کردیا۔ آخری وقت میں اُن کی زبان پر یہ الفاظ تھے: ’’
خدا پاکستان کی حفاظت کرے"
صد حیف کہ آج ایک بار پھر اس بے سرو سامان نواب کا یوم شہادت چپکے سے گزر
گیا, جس نے اس ملک پر اپنا سب کچھ قربان کر ڈالا۔ اور جس نے اپنی فہم و
دانش سے اس لٹی پٹی نوزائیدہ مملکت کا ایک حقیقی رخ متعین کر دیا تھا۔ کاش
کہ اس عجب سانحے کے بعد ہمیں کوئی ایسا حقیقی لیڈر مل جاتا جو ملک و قوم سے
محبت اپنے قول و فعل سے ثابت کرتا۔ کاش کہ ہمیں اس درویش صفت شخصیت کی قدر
و قیمت کا احساس ہی ہو جاتا۔
|
|