ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
کبھی کبھی تو یہ الجھن کچھ سوچنے ہی نہیں دیتی کہ پاکستان کے کون سے مسئلے
کو کالم کا موضوع بنایا جائے۔ ہمارے کچھ مسائل تو مستقل نوعیت کے ہیں۔ جیسے
سیاسی عدم استحکام ، قانون و انصاف کی زبوں حالی، امن و امان کی خرابی،
سرکاری عمال کی ناقص کارکردگی اور سیاستدانوں کی باہمی رسہ کشی۔ پاکستان کی
تیسری نسل اب یہ تماشے دیکھ رہی ہے۔ اور لگتا نہیں کہ چوتھی نسل ان سے
محروم رہے گی۔ ان دائمی مسائل میں فرقہ واریت، عدم برداشت اور علاقائی
تعصبات کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں جو دوسرے مسائل درپیش ہیں ان میں
تعلیم و صحت جیسے سماجی شعبوں کی نا گفتہ بہ حالت نمایاں ہے۔ اس کے ساتھ
ساتھ ہماری معیشت بھی مسلسل نیچے کی طرف لڑھک رہی ہے۔ ہم قرض لے لے کر
گزارا کرتے ہیں۔ یہ قرضے خیرات نہیں ہوتے۔ نہ ہی قرض حسنہ ہوتے ہیں۔ عالمی
ساہوکار سود بھی لیتے ہیں اور من مانی شرائط بھی منواتے ہیں۔ معاشی تجزیہ
کاروں کا خیال ہے کہ ان عالمی ساہوکاروں کے چنگل میں پھنس جانے والے ممالک
مشکل ہی سے نکل پاتے ہیں اور ا ن کی اقتصادی حالت بہتر ہونے کے بجائے خراب
تر ہو تی چلی جاتی ہے۔ ہم نت نئے مسائل پیدا کر لینے کی بھی خاصی مہارت
رکھتے ہیں۔ لہذا ایسے دن کم کم ہی نصیب ہوتے ہیں جب ملک میں چاروں طرف سکون
ہو، تمام ادارے اپنے اپنے کام میں لگے ہوں ا ورعوام کو دو وقت کی روٹی مل
رہی ہو۔مسائل کو سیاست کی آنکھ سے دیکھنا اگرچہ کوئی ایسی ناروا بات نہیں
لیکن میں اکثر وبیشتر اس سے شعوری طور پر گریز کرتی ہوں۔ جماعتی سیاست کو
بیچ میں لانے سے تعصب انگڑائی لیتا ہے اور قاری کو بھی یہ گمان گزرتا ہے
جیسے حقائق کے بجائے کسی کی تحسین یا کسی پر تنقید مقصود ہے۔ سو پارٹی
سیاست ایک طرف رکھتے ہوئے، کم از کم دو پیمانے ایسے ہیں جن سے کسی بھی
مسئلے کا حقیقی چہرہ واضح ہو جاتا ہے۔ ایک زمینی حقائق، یعنی جو کچھ ہم
اپنے چاروں طرف دیکھتے ہیں یا جو کچھ خود ہم پر بیت رہی ہوتی ہے اور دوسرے
مصدقہ اعداد و شمار جو خود حکومتی اداروں یا معتبر عالمی ایجنسیوں کے ذریعے
سامنے آتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا، ہمارے ہاں مسائل کی کمی نہیں، پھر یہ بھی ہے کہ ہر
شخص کے نزدیک مسئلے کی نوعیت یا شدت الگ ہے۔ لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے
جیسے آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ آدم خور قسم کی مہنگائی ہے جس نے غریب کو
فاقہ کشی پر مجبور کر دیا ہے اور متوسط طبقے کی کمر بھی توڑ کر رکھ دی ہے۔
آج آپ کسی بھی طرف رخ کریں یہ مسئلہ منہ پھاڑے سامنے کھڑا نظر آتا ہے۔
دیکھتے دیکھتے اشیائے ضرورت کی قیمتیں حقیقی معنوں میں آسمان سے باتیں کرنے
لگی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایسا کرونا کی وجہ سے ہوا۔ یقینا کرونا کے برے
اثرات پڑے ہیں اور ساری دنیا کی معیشت اس وبا سے متاثر ہوئی ہے لیکن ہمارے
ہاں تو مہنگائی کا سیلاب کرونا سے بہت پہلے 2019 میں ہی دستک دینے لگا تھا۔
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت گرانے کے بعد پتہ نہیں کیا ہوا کہ ہم
سنبھل نہیں سکے۔ کرونا تو اس سال فروری مارچ میں آیا لیکن 2019 کے اعداد و
شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 10.6 فی صدتک پہنچ چکی تھی
جو پچھلے دس برس میں سب سے بلند تھی۔ 2018 میں یہ شرح 5.8 فی صد، 2017 میں
9 4. فیصد، 2016 میں 3.77 فیصد اور 2015 میں 2.53 فیصد تھی۔ صرف دو برس میں
مہنگائی یا افراط زر کی شرح 4.9 فیصد سے 10.6 فیصد پر آجانا، تعجب کی بات
ہے۔ اب ذرا پاس پڑوس کے کچھ ممالک پر بھی نظر ڈال لیجئے۔ 2019 میں بھارت
میں یہ شرح 7.66 فیصد، بنگلہ دیش میں 5.59 فیصد، مالدیپ میں 4.84 فیصد، سری
لنکامیں 3.53 فیصد، بھوٹان میں 2.73 فیصد، نیپال میں 5.6 فیصد اور چالیس
برس سے خانہ جنگی سے تباہ حال افغانستان میں 2.3 فیصد تھی۔سمندر پار جائیں
تو متحدہ عرب امارات میں مہنگائی کی شرح منفی 1.9 فیصدتھی۔ہمارے ہاں
مہنگائی کے گراف میں کمی آنے کے بجائے 2020 میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2020 میں یہ شرح 14.6 فی صد ہو چکی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ جون 2020 کی قیمتوں میں جولائی 2020 میں پچاس فیصد اضافہ
ہو گیا۔اوپر 2019 کے اعداد و شمار دئیے گئے ہیں۔ ورلڈ بنک کی رپورٹ کے
مطابق اس سال پاکستان سمیت دنیا کے 149 ممالک میں مجموعی طور پر مہنگائی کی
شرح اوسطا 3.8 فیصد تھی جب کہ ہم گیارہ فیصد کو چھو رہے تھے۔
اگر بات صرف کھانے پینے کی اشیائے ضروریہ تک محدود رکھی جائے تو مہنگائی کی
شرح تیس سے چالیس فیصد بڑھ گئی ہے۔ آٹا، چینی، چاول، گھی، دودھ، انڈے،
گوشت، سبزیاں، مہنگائی کی اس سطح کو چھو رہی ہیں جس کا تصور بھی نہیں کیا
جا سکتاتھا۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ دکاندار سے جب کسی چیز کا بھاو یا ریٹ
پوچھا جائے تو وہ کلو کی بجائے پاو میں بتاتا ہے۔ کیونکہ اسے بھی مٹر تین
سو بیس روپے کلو کہتے ہوئے حجاب آتا ہے اور وہ پاو میں نرخ بتا تا ہے۔ ادھر
اعداد و شمار یہ بتا رہے ہیں کہ 24 فیصد سے زائد پاکستانی خط غربت سے نیچے
لڑھک گئے ہیں۔ پوری آبادی کا لگ بھگ ایک چوتھائی حصہ کس حال میں ہے اور کس
طرح زندہ ہے اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ باقی 76 فیصد آبادی میں سے
بھی 40 فیصد کا شمار غربا یا کم آمدنی والے افراد میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد
زیریں متوسط اور متوسط طبقے کی باری آتی ہے جو تیزی سے معدوم ہوتا جا رہا
ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ د و سالوں میں سیلاب کی صورت امڈ آنے والی مہنگائی کے
مقابلے میں سال ہا سال کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین
اور پنشنروں کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ گویا ان کی آمدنی بھی جامد ہو گئی
اور مہنگائی کے سامنے کوئی بند بھی نہ باندھا جا سکا۔اس وقت سرکاری ملازمین
مہنگائی کے خلاف اسلام آباد کی سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔
انسان کو زندہ رہنے کے لئے اگر ہوا اور پانی کے بعد کسی شے کی ضرورت ہے تو
وہ روٹی ہے۔ مفلوک الحال آدمی کو اگر گوشت، سبزی، دال یا کچھ بھی میسر نہیں
تو وہ ایک آدھ روٹی پانی کیساتھ ہی کھا لیتا ہے۔ اب یہ روٹی بھی اس کی پہنچ
سے نکل گئی ہے۔ سنتے ہیں کہ ایوب خان کے دور میں جب آٹا 20 روپیہ من ہو گیا
تو حبیب جالب مرحوم نے ایک پوری انقلابی نظم لکھ ڈالی تھی۔ اب ایک کلو آٹا
ایک سو روپے کو چھو رہا ہے۔ ایک دہاڑی دار مزدور اور محنت کش اپنے کنبے کا
پیٹ کیسے پالے گا؟ان سب چیزوں سے بڑھ کر ایک چیز ہے جس کا نام ہے دوا۔ جب
والدین اپنے بچوں کیلئے روٹی، تعلیم اور دوا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے
پر مجبور ہو جائیں تو سوچ لیجیے کہ معاشرے پر کیا گزر رہی ہے۔ یہی ہے وہ
صورتحال جب گھروں میں نا چاقیاں ہوتی ہیں، مائیں بچوں کو مار کر خود کشیاں
کر لیتی ہیں، باپ پاگل ہو جاتے ہیں، جرائم کا طوفان امڈ آتا ہے اور لوگوں
کے دل و دماغ پریشر ککر بن جاتے ہیں۔
ستم بالائے ستم یہ کہ اس انتہائی سنگین مسئلے پر بیانات کی بھرمار ہے۔
مہنگائی کا ملبہ جانے والوں کے سر تھوپنے پر توانائیاں صرف ہو رہی ہیں۔
عملی قدم ایک بھی نہیں۔ اور مہنگائی ہے کہ راکٹ کی طرح اوپر ہی اوپر جا رہی
ہے۔ اﷲ ہم پر رحم فرمائے۔ آمین۔
|