خاندانی نواب تھے ہندوستان میں سینکڑوں ایکڑ زرعی اراضی
کے مالک ، روپئے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی دنیا کی ہر آسائش ان کے گھر موجود
تھی۔ پھر بھی پاکستان کے لئے قائداعظم کے ساتھ مل کر دن رات محنت کی ،
پاکستان بنا تو پہلے وزیراعظم منتخب ہوئے ، وہ ساری آسائشیں چھوٹ گئیں جن
میں پل کر جوان ہوئے تھےوزیراعظم بننے کے بعد بھی بعض اوقات پیوند لگی
شیروانی زیب تن کی ہوتی ۔
ایک دن دفتر میں کام کررہے تھے سٹاف میں سے کسی صاحب نے ایک فائل آپ کے
سامنے رکھی ، آپ نے موٹے شیشوں والی عینک سے جھانک کر دیکھا اور پوچھا " یہ
کیا ہے؟ " جواب ملا " سر یہ آپ کے خاندان کی ہندوستان میں رہ جانے والی
جائیداد کا قانونی دعوی ہے، یہ دعوی دائر کرنے کے بعد آپ کو پاکستان میں
سینکڑوں ایکڑ زرعی اراضی الاٹ ہوجائےگی " ۔
لیاقت علی خان رحمہ اللہ نے غصے سے فائل ہٹائی اور فرمایا" مہاجر کیمپ جاو
، اورجب پاکستان کی خاطر ہندوستان سے آنے والا آخری مہاجر بھی آباد ہوجائے
تو پھر یہ فائل میرے پاس لے آنا "۔ میں نے آج صبح جب یہ واقعہ پڑھا تو میرے
دل میں اس عظیم نواب زادے کے لئے عقیدت و محبت کے جذبات مزید بڑھ گئےاور بے
اختیار دل سے دعائیں نکلیں اور پھر مجھے یاد آیا یہ تو ایک چھوٹے سے ملک کے
حکمران تھے ہماری تاریخ میں ایک ایسا شخص بھی گزرا ہے جو بائیس لاکھ مربع
میل کا تنہا اور ایسا طاقتور ترین حکمران تھا کہ اس وقت کی سپر طاقتیں ان
کا نام سن کر کانپتی تھیں اور ان کے دربار میں عالم اسلام کے سب سے بہترین
سپہ سالار سیف اللہ خالد بن ولید بھی ہاتھ بندھوا کر پیش ہوتے ہیں اور ان
کے حکم پہ خود کو معزول کرلیتے ہیں ۔
لیکن ان کی سادگی، درویشی اور انصاف پسندی کا یہ عالم ہے کہ خطبہ دینےکے
لئے ممبر پہ چڑھ چکے ہیں اور ایسے میں ریاست کا ایک کمزور سا شخص محاسبہ
کرتاہے کہ " اے امیر ہر شخص کو ایک ایک چادر ملی ہے آپ کے پاس یہ دوسری
چادر کہاں سےآگئی ؟" خلیفہ وقت ممبر سے اتر آتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ "میرا
لباس بہت پرانا اور بوسیدہ ہوچکاتھا ، میرے بیٹے عبداللہ نے اپنے حصے کی
چادر بھی مجھے دے دی تاکہ میرا لباس مکمل ہوسکے"۔ سوال کرنے والا جب مطمئن
ہوا تب ممبر پہ چڑھے اور خطبہ مکمل کیا۔
ہمارا ہر نیا آنے والا حکمران بڑے بڑے دعوے کرتا ہے ، اور اپوزیشن ہمیشہ
ایسے جھوٹے خوابوں سے بہلاتی پھسلاتی ہے جو اقتدار ملتے ہی ہوا ہوجاتے ہیں
۔ بدقسمتی سے پاکستان کو قائداعظم اور خان لیاقت علی خان کے بعد جو بھی
حکمران ملا وہ مکاری جھوٹ اور اقرباء پروری کا ماہر اور ملک لوٹنے میں ایک
سے بڑھ کر ایک ثابت ہوا ہے ۔
پچھلی تین دہائیوں سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے تنگ آئی عوام نے تحریک
انصاف سے جوکچھ ذیادہ ہی توقعات وابستہ کر لی تھیں خدا کا شکر ہے کہ عمران
خان نے بڑی جلدی قوم کی امنگوں پہ پانی پھیرتے ہوئے اپنے سابقہ پیشروؤں کے
قدموں پہ چلنے کی روائت کو زندہ رکھا ،پاکستان کو ریاست مدینہ میں بدلنے کے
دعویدار خان کے اکثر ساتھی سابقہ حکومتوں کی لوٹ مار میں بھی شامل تھے اور
آج بھی دھڑا دھڑ ملک کو نوچ کھسوٹ رہے ہیں اور خود عمران خان کا یہ حال ہے
کہ یو ٹرن خان کے نام سے شہرت پکڑ چکے ہیں ، جو کہتے ہیں ہمیشہ اس کے برعکس
ہوتا ہے تصور کیجئے جس ملک کا وزیراعظم اور اس کی کابینہ خود تسلیم کرے کہ
مہنگائی بہت ذیادہ وہاں کی رعایا کا کیا حال ہوگا؟ ۔
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی مثالیں دینے والا عمران خان کاش کبھی اپنے محل
سے نکل کر عام آدمی کی مشکلات کو سمجھے اور خلوص دل سے ان کی مشکلات کم
کرنے کی کوشش کرے ، مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ، ضروریات
زندگی پوری کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے اوپر سے بجلی کے بلوں نے چیخیں نکلوا
دی ہیں ، میرے ایک دوست کا کہنا ہے " عوام گالیاں نواز اور زردای کو بھی
دیتے تھے مگر جو نفرت اور بد دعائیں ہمارے موجودہ حکمرانوں کے حصے میں آنے
والی ہیں اس کی دوسری مثال شائد نہ مل سکے" ۔ میرا ایک اور دوست کہتا ہے "
عوام اگر اس نااہل اور سفاک ٹولے کو برداشت کررہی ہے تو اس کی واحد وجہ یہ
ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں حکومت کی کرسی کو ہمارا ایک مقدس ادارہ سہارا دئیے
ہوئے ہے جس سے بہرحال اتنے برے حالات کے باوجود بھی ہم لوگ محبت کرتے ہیں
یا ڈرتے ہیں " ۔
قائداعظم رحمہ اللہ کو قومی وسائل کا اس قدر احساس تھا کہ فالتو لائٹس تک
بند کروا دیتے تھے اور آج اس ملک کے ساتھ جو کچھ مقتدر طبقہ کررہا ہے بس
اللہ رحم کرے ، پروٹوکول کے نام پہ اربوں روپے چولہے میں جھونکے جارہے ہیں
، ملک مال مفت ہے اور حکمرانوں کے دل بے رحم سو لوٹے چلے جارہے ہیں ، ہوس
کی ایک ایسی آگ ہے جو بجھنے کی نہیں ، عوام مریں یا جئیں کسے پرواہ ہے۔
اکتوبر کا مہینہ پاکستانی سیاست میں ہمیشہ اہم کردار ادا کرتا رہا ہے ،
پہلا مارشل لاء بھی اسی ماہ کی یادگار ہے، اب پھر عرصے بعد اپوزیشن اتحاد
اسی اکتوبر میں سرگرم ہوا ہے ، اپوزیشن کا کہنا ہے" حکومت کے دن گنے جاچکے
ہیں، عوام کو جلد ریلیف ملےگا"۔
مگر میں سوچ رہا ہوں عمران خان کی حکومت واقعی ناکام ہوچکی ہے ، لوگ سخت
پریشان ہیں ایسی مہنگائی اور پریشانیاں پہلے کبھی نہیں دیکھیں، مگر یہ
حکومت چلی بھی گئی تو کیا ہوگا ؟ ۔
پھر وہی زرداری یا نواز، ملک تو پھر بھی ایسے ہی لٹے گا ، رعایا بھی ایسے
ہی روئےگی ، تو فائدہ کسے ہوگا ، جمہوریت کا پھل کون کھائےگا؟ ، کیا پہلے
ضروریات زندگی سستی اور غریبوں کی پہنچ میں تھیں جو اب حکومت گرتے ہی
دوبارہ ویسی ہوجائیں گی؟ کیا پہلی حکومتوں میں بےروزگاری نہیں تھی جو پھر
ان کے آنے سے ختم ہوجائےگی؟ کیا پہلی حکومتوں میں غریب کا بچہ اچھی اور
معیاری تعلیم حاصل کررہا تھا جو اب حکومت بدلتے ہی دوبارہ اسے وہی سہولیات
ملنا شروع ہوجائیں گی؟ یہ کچھ سوالات ہیں جن کا جواب ہر شخص کو ضرور جاننا
چاہئے ۔
پتہ نہیں ہمیں کب سمجھ آئے گی کہ ہمارا اچھا مستقبل زرداری، نواز یا عمران
خان سے وابستہ نہیں ۔ بلکہ ہمارا مستقبل کیسا ہوگا اس کا فیصلہ ہمارا
باشعور ووٹ کرے گا ۔ کسی نکمے نااہل اور بد کردار کو ووٹ دے کر ریاست مدینہ
کے خواب دیکھنا پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے ؟ |