مودی جی: یہ کہاں آگئے ہم تیرے ساتھ چلتے چلتے

ملک معاشی بحران دن بہ دن گہرا ہوتا جارہا ہے ۔ جمعرات 15؍ اکتوبر کوممبئی شیئر بازار یعنی سینسیکس میں 1,066 کی گراوٹ آئی ۔ اس خطرناک علامت کےقومی معیشت پر سنگین اثرات پڑ سکتے ہیں ۔ یہ خبر ایک ایسے وقت میں آئی جب عالمی معاشی ادارہ آئی ایم ایف نے اپنا دو سال کا اندازہ یعنی’آؤٹ لک‘ جاری کرچکا ہے۔ اس کے مطابق فی کس مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے معاملے میں بنگلہ دیش ممکنہ طور پر رواں مالی سال میں انڈیا کو پیچھے چھوڑ دے گا ۔ یہی وہی بنگلا دیش ہے جہاں سے ہندوستان میں در اندازی کرنے والے مبینہ لوگوں کو وزیر داخلہ نے حقارت سے دیمک کہا تھا اور این آر سی تیار کرنے کے بعد انہیں ملک سے نکالنے کا عزم کیا تھا۔ یہ لوگ حقیقت کی دنیا میں نہیں بلکہ امیت شاہ تصور میں بستے ہیں اور ان سے ملک کے بھولے بھالے عوام کو ڈرا کر وہ اپنی سیاسی روٹیاں سینکنا چاہتے ہیں ۔اس رپورٹ کے بعد ہندوستان کے بجائے بنگلا دیش سرحد پر چوکسی بڑھا دے گا تاکہ سرحدی علاقہ سے لوگ بھاگ کر دوسری طرف نہ نکل جائیں۔ تازہپیشنگوئی یہ کہ بنگلہ دیش کی فی کس جی ڈی پی میں 2020 میں4 فیصد اضافے کا امکان ہے جس کے تحت یہ 1888 امریکی ڈالر ہو سکتی ہے جبکہ ہندوستان کی فی کس جی ڈی پی1877 ڈالر کی سطح پر آ سکتی ہے جو پچھلے4 برس میں کمترین ہے۔

امیت شاہ ماضی میں کھوئے ہوئے جبکہ ہندوستان مختلف شعبہ جات میں ہندوستان سے پسماندہ تھا لیکن وہ نہیں جانتے کہ اب حالات بدل چکے ہیں ۔ امیت شاہ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہاں کے لوگ روزگار کے لیے یہاں آتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وطن عزیز میں بیروزگاری کی شرح 8 فیصد ہے جبکہ بنگلا دیش میں یہ صرف 4فیصد ہے۔ بنگلا دیش کی نہ صرف معیشت کی رفتار تیز تر ہے بلکہ وہاں خواتین میں تعلیم کی شرح بھی ہند وستان سے بہتر ہے یعنی ہمارے یہاں یہ 65 فیصد ہے تو وہاں 71 فیصدی ۔ اوسط عمر وہاں ہندوستان سے 3سال زیادہ یعنی 72پر ہے۔ امن و امان کی بہترحالت کی گواہی اس کی عالمی فہرست میں ہے دنگا فساد میں ہندوستان 139 ویں مقام پر ہے اور بنگلا دیش کا نمبر 97 ہے۔ سماجی عدم رواداری ہندوستان میں 7.2 ہے جبکہ بنگلا دیش میں 9.5 ہے حالانکہ بنگلا دیش میں ۱۱ فیصد ہندو آبادی ہے ایسے میں کون پاگل ہندو اپنا ملک چھوڑ کر ہندوستان آنے کی غلطی کرے گا؟

آئی ایم ایف کا پہلے اندازہ تھا کہ ہندوستان رواں مالی سال کے پہلے نصف میں 5.2 فیصدنیچے اترے گا لیکن تازہ تخمینے کے مطابق یہ گراوٹ دوگنا یعنی 10.3 فیصد ہوگی۔ اس طرح مودی جی کی معاشی مہارت نے آئی ایم ایف کو بھی شرمندہ کردیا ۔ مودی راج کی اس معاشی گراوٹ نے 1947 سے اب تک کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں ۔ وہ اکثرڈینگ مارتے ہیں کہ اتنے سالوں میں انہوں نے پہلی بار یہ کارنامہ کیا ہے لیکن اب تو ملک کی عوام کہہ رہی جناب والا آپ نے تو وہ کردیا جس کا تصور محال تھا۔ ویسے آئی ایم ایف ہنوز 22 - 2021 کے لیے پر امید ہے کہ ہندوستان میں ترقی کی شرح 8فیصدہوجائے گی لیکن بعید نہیں کہ سیتارامن اس اندازے کوبھی غلط ثابت کردیں اور اس میں تبدیلی کی ضرورت پیش آجائے کیونکہ جس ملک کے وزیر اعظم کو مور کو دانہ کھلانے کی فرصت میسر ہو اور جو اپنی فرصت کے ایام سیر و تفریح کی خاطراپنے ذاتی مصرف کے لیے اس تنگی میں 8400کروڈ کا ہوائی جہاز خریدنے کا حوصلہ رکھتا ہو اس سے بھلا اور کس چیز کی توقع کی جائے؟

آئی ایم کے اندازے میں اس سال ہندوستان کا شمار جنوبی ایشیا کے تین غریب ترینممالک میں کیا گیا ہے اور اس کی فی کس جی ڈی پی صرف پاکستان اور نیپال سےبہتر ہونے کا امکان ظاہر کیا گیاہے جبکہ بنگلہ دیش، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ جیسے ممالک نے بھی ہندوستان کو پیچھے چھوڑ دیاہے۔ ایسے میں بے ساختہ لال قلعہ کی فصیل سے بیچا جانے والا میں پانچ ٹریلین ڈالراکانومی کا خواب نیند اڑا دیتا ہے۔ حکومت کے پاس سنگین صورتحال میں موردِ الزام ٹھہرانے کے لیے کورونا کا بہانہ ضرور موجود ہے لیکن وہ تو ایک عالمی وبا ہے ۔ جنوبی ایشیا کے آگے نکلنے والے سارے ممالک بھی اس سے متاثر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ قومی ذرائع ابلاغ کو ابھی تک اس جانب توجہ دینے کی فرصت نہیں ملی ۔ ویسے اگر سوشیل میڈیا کے دباو کی وجہ سے وہ متوجہ بھی ہوجائے تو مودی کی قوم پرست حکومت کے خلاف کسی بین الاقوامی سازش کا سراغ لگا لیں گے لیکن اس بار یہ کام آسان نہیں ہوگا کیونکہ سرکاری گھر بھیدی یہ اعتراف کرچکے ہیں جون میں ختم ہونے والی سہ ماہیکےاندر ملک کی معیشت میں تشویش ناک مندیکا شکارہوئی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق قومی معیشت میں اس دوران 23.9 فیصد کی کمی واقع ہوگئی جو اب تک کے بدترینصورتحال ہے ۔ کسی ملک کی شرحِ نمو میں اگرمسلسل دو سہ ماہیوں تک کمی واقع ہوتواسے 'ریسیشن' یعنی معاشی بحران کی حالت قرار دیا جاتا ہےچونکہ معاشی ماہرین کا اندازہ اگلی سہ ماہی میں بہتری کی جانب اشارہ نہیں کرتا اس لیے معاشی بحران کا سنگین خطرہ منڈلا رہا ہے ۔ اس سے قبل یہ صورتحال 1980 میں رونما ہوئی تھی ۔ پچھلے 74سالوں میں ایسا صرف 4مرتبہ ہوا ہے ۔ ایسے میں تانشق کے اشتہار پر ہنگامہ مچانے والے آئی ٹی سیل کو تواس بابت سانپ سونگھ جانا عین توقع کے مطابق ہے مگر ناقدین ٹویٹ کرکے پوچھ رہے ہیں :’ ہندوستان کا بنگلہ دیش سے پیچھے رہ جانا، کیایہی وہ ’اچھے دن‘ ہیں جن کا وعدہ کیا گیا ہے؟‘

اس موقع پر بعید نہیں کہ وزیر اعظم اپنے من کی بات میں معاشی بحران کا ٹھیکرا کورونا کے سر پھوڑ دیں لیکن ایسا کرنا سراسر فریب کاری ہوگی ۔ قومی معیشت تو کورونا وائرس کی وبا کے پھوٹنے سے قبل ہی مندی کا شکار ہوچکی تھی۔ اس کی ایک علامت پچھلے سال ملک میں بے روزگاری کی شرح 45 سالوں میں سب سے زیادہہونے سے ظاہر ہوئی اور دوسرا ثبوت معاشی نمو کی شرح کاگر کر 4.7 فیصد پر آجانا تھا۔ اس طرح مودی جی نے 7 سالوں کا ریکارڈ تو ڑ دیا تھا ۔اس سے قبل 2013 میں جنوری اور مارچ کے درمیانیہ شرح 4.3 فیصد ہوئی تھی۔ ملک میں پیداوارکی کمی بینکوں پر قرضوں کا بوجھ ْبڑھا تی ہے کیونکہ اگر انسان دو پیسہ منافع نہ کماسکے تو قرض کہاں سے واپس کرے گا؟2019 کی تیسری سہ ماہی کے اعداد و شمار میں ملک کیجی ڈی پی کی شرح میں مسلسل چھٹی بار گراوٹ نظر آ ئی تھی لیکن اس سے بے نیاز مودی سرکار کشمیر اور رام مندر جیسے جذباتی مسائل میں قوم کو الجھائے رہی جبکہ صنعت کے شعبے کی شرح 6.7 فیصد سے کم ہو کر محض نصف فیصد رہ گئیتھی اور زراعت کے شعبے میں اضافے کی شرح 4.9 سے کم ہو کر 2.1 فیصد پر آچکی تھی یہاں تک کہ خدمات کا شعبہ بھی اس سے متاثر ہوکر 7.3 فیصد سے گھٹ کر 6.8 فیصد پر آگیا تھا۔

حکومت کے سامنے اس معاملے میں کئی مسائل ہیں اول تو معیشت کے معاملے میں وزیراعظم کے اندرنہ صلاحیت ہے اور نہ دلچسپی۔ وہ اپنی ساری توجہ تشہیر اور انتخابی جوڑ توڑ پر مرکوز رکھتے ہیں ۔ سنگھ پریوار شدید قحط الرجال کا شکار ہے اس کے باوجودموجودہ حکومت صلاحیت پر وفاداری کو ترجیح دیتی ہے۔ اسےماہرین معاشیات کے فقدان کی وجہ سے تاریخ کے ایم اے شکتی کانت داس کو ریزرو بنک کا گورنر بنانا پڑا۔ یہ رگھورام راجن اورارجت پٹیل جیسے کئی ماہرین کی خدمات کو گنوا چکی ہے ۔ پانی گڑھی جیسے لوگ بڑے ارمانوں سے مودی سرکار پر اعتماد کرکے بیرونِ ملک سے واپس آئے تھے مگر لوٹ گئے ۔ عدم رواداری کے سبب ویرل آچاریہ جیسے نائب گورنر کو استعفیٰ دینا پڑا۔ خود اعتمادی کی کمی کے سبب یہ لوگ تجربہ کرنے سے ڈرتے ہیں ۔ بی جے پی نے بڑے سرمایہ داروں سے اتنی خطیر رقم چندے کے طور پر لے رکھی ہے کہ ان کو ناراض کرنے کا خیال بھی نہیں کرسکتے اور انہیں پتہ ہے کہ یہ سرمایہ دار میڈیا کی مدد سے اس سرکار کو بہ آسانی ٹھکانے لگا سکتے ہیں اس لیے یہ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں اور جرأتمندانہ فیصلوں سے ڈرتے ہیں ۔ اس طرح کی مشکلات میں گرفتار سرکار ملک کے معاشی بحران پر کیونکر قابو پاسکتی ہے؟ اس سوال پر عوام کو آج نہیں تو کل غور کرنا ہی پڑے گا۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2075 Articles with 1281774 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.