ریت سے بُت نہ بنا اے مرے اچھے فن کار
ایک لمحے کو ٹھہر،میں تجھے پتھر لا دوں
میں ترے سامنے انبار لگا دوں لیکن
کون سے رنگ کاپتھر ترے کام آئے گا؟؟؟؟
پتھر کا فیصلہ تو تب ہو جب سنگ تراش اپنے فن سے عشق کرتا ہو اُور اپنے کام
کو عبادت سمجھ کر کرے۔یہاں تو سب بہروپیئے بیٹھے ہیں جن کے دن کسی رُوپ میں
اُور شامیں رنگ و نور میں بسر ہوتی ہیں۔مادیت پرستی نے اس مٹی سے بنے مادھو
کو اپنی گرفت میں اس قدر شدت سے دبوچا ہوا ہے کہ اب صحیح اُور غلط کا فیصلہ
کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔قدرت کی عطا کردہ نعمتوں اُور انسانی ذہن کی
انجینئرنگ نے ابن آدم کے لیے سہولیات کا ہجوم تولگا دیا ہے مگراس سہولیات
کی فراوانی نے حقیقی انسانی جذبوں کو بد ترین شکست وریخت کا شکار کر دیا
ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جس کی بنیادبری ہو وہ نیکیوں کا اثر قبول نہیں
کرتا اُورنااہل کی تربیت کرنا ایسا ہی ہے جیسے گنبد پر اخروٹ رکھنا۔کسی
سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہبرے لوہے سے کوئی عمدہ تلوار کیسے بنا سکتا
ہے؟۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہسکھانے پڑھانے سے کوئی بد اصل کبھی انسان
نہیں بن سکتا۔پاکستانی اپوزیشن کا ایجنڈا، کوئٹہ جلسے میں بے نقاب ہو گیا
اُور ثابت ہو گیا کہ اپوزیشن کی سیاسی قیادت غیر ملکی سوچ اُور دشمن کی
زبان کی ترجمانی کر رہی ہے۔پی ڈی ایم کے کوئٹہ جلسے میں سی پیک،افواج
پاکستان اُور ملکی سالمیت پر خوفناک حملے کیے گئے۔عظیم اسلامی سکالر اُور
مذہبی رہنماء مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کے صاحب زادے اویس نورانی نے
بقائمی ہوش و حواس ملک کی تقسیم کی بات کر ڈالی۔ ایک ایسی بات جو خود
بلوچستان کے عوام کی سوچ کی نفی کرتی ہے جناب اویس نورانی نے بھرے مجمع میں
کہہ دی’’ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان آزاد ریاست ہو‘‘۔ مزے کی بات یہ ہے کہ
اُن کی جماعت کے پاس پاکستان کی کسی بھی اسمبلی میں ایک بھی سیٹ نہیں ہے
نیز بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے دشمن کی زبان بولتے
ہوئے کہا’’سی پیک سے بلوچستان میں کوئی بہتری نہیں آئے گی نیز گوادر کے
معاہدے کو ختم کرنا چاہیے کیونکہ اُس میں93 فیصد چین اُور صرف 7فیصد
پاکستان ہے ،اُن کے بقول گوادر سے بھی بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں ملے
گا‘‘۔قارئین یہ بات یاد رکھیں کہ عبدالمالک بلوچ جس وقت وزیر اعلیٰ
بلوچستان تھے میاں نواز شریف وزیر اعظم کے منصب پر فائز تھے۔اس جلسے میں یہ
بھی کہا گیا کہ ہم افغانستان بارڈر پر لگائی گئی باڑ اکھاڑ دیں گے کیونکہ
ہم رہتے پاکستان میں ہیں مگر ہماری زمینیں افغانستان میں ہیں۔افسوس کی بات
یہ ہے نواز شریف اُور مریم صفدر نے اپنی تقاریر میں ان باتوں کی نفی نہیں
کی بلکہ مریم صفدر نے پچھلے جلسوں کی طرح اس بار بھی سلیکٹڈ اُور سلیکٹرز
کی گردان جاری رکھی اُور ساتھ میں جنرل(ر) ؑعاصم سلیم باجوہ کا بھی تذکرہ
کرتی رہیں ۔نواز شریف نے اپنی تقریر میں فوجی سربراہ کی ذات،سروس اُور نیت
کو خصوصی طور پر ہدف بنایا اُور مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم عمران خان،چیف آف
آرمی سٹاف اُور ڈی جی آئی ایس آئی فوری طور پر استعفیٰ دیں۔نواز شریف کی
زہر آلودہ تقریر میں انتقام کی بُو نمایاں تھی وہ الیکشن میں دھاندلی،کارگل
آپریشن اُور پرویز مشرف کے ٹرائل کے کیسز اوپن کرکے فوج کے آفیسرز کا
انتقامی ٹرائل کرنا چاہتے ہیں۔اس بات میں اب کوئی شک نہیں رہ گیا کہ
اپوزیشن کی سیاسی قیادت دہشت گرد تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی کی زبان بولنا
شروع ہو گئی ہے جس کا ہدف ہمیشہ سے پاکستان کے سلامتی کے ادارے رہے
ہیں۔دشمن قوتوں کی بھرپور کوششوں کے باوجودپاکستانی افواج نے قیام پاکستان
سے لے کر آج تک اپنے فرائض عمدگی سے سرانجام دئیے۔اپنے فرائض کی ادائیگی کے
دوران پاک افواج نے اپنے افسروں اُور جوانوں کی بے پناہ جانی قربانیاں بھی
دی۔افواج پاکستان کے اس شاندار کردار کی وجہ سے پوری پاکستانی قوم اپنی
سپاہ سے پیار کرتی ہے کیونکہ عوام جانتے ہیں کہ ہر مشکل گھڑی میں پاکستانی
فوج نے اپنے ہم وطن بھائیوں کی مدد اُور حفاظت کی ہے۔اپوزیشن کے اس قومی
سلامتی کے خلاف انداز گفتگو سے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت بھی خطرے میں آسکتی
ہے ۔ سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ اس جلسے کی سیکیورٹی کے تمام تر انتظامات
پاکستان کی فوج کر رہی تھی اُور اس جلسے میں سب سے زیادہ بُرے القابات سے
بھی پاک فوج کونوازاگیا۔ اپوزیشن کی باتیں سن کر یقین ہو گیا ہے کہ بھیڑیے
کا بچہ بھیڑیا ہی بنتا ہے چاہے انسانوں میں پل کر بڑا ہو ۔اب پاکستانی قوم
کو سوچنا ہے کہ وقتی مہنگائی کا رونا روتے ہوئے اپنے ملک کو تقسیم کرواکر
دشمنوں کے ہاتھ میں گروی رکھوانا ہے یا دشمن کے ایجنڈے پر کام کرنے والے
منافق اُور لالچی سیاست دانوں کو تخت دار پر لٹکانا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ
سیاست میں سیاسی اختلافات ہوتے ہیں مگر ملک کی سلامتی اُور افواج کو کبھی
کمزور کرنے کی بات نہیں کی جاتی ۔کوئٹہ کے جلسے سے واضح ہو گیا ہے کہ
اپوزیشن کا اصل ہدف عمران خان نہیں یا جمہوریت کا کہیں گم ہونانہیں بلکہ
پاکستانی فوج کو کمزور کرنا ہے دوسری طرف اپوزیشن کی ایک جماعتپی پی پی نے
اب تک سمجھدار انداز سیاست اپنایا ہوا ہے۔بلاول کو داد دینا ہو گی کہ اُس
نے حکومت وقت پر تو تنقید کی مگر پاکستان کی تقسیم اُور افواج پر کوئی بات
نہیں کی۔ویل ڈن بلاول زرداری
|