اُردو زبان اور دکنی زبان میں مصدر کا استعمال

 ڈاکٹر غلام شبیر رانا
لسانیات اور گرامر میں اسما کی نوعیت اور اہمیت و افادیت کو زیر بحث لاتے وقت یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بناوٹ کے اعتبار سے اسم کی تین اقسام ہیں۔یہ قسمیں جامد ،مشتق اور مصدر ہیں۔ذیل میں اسم کی ان اقسام کی وضاحت پیش کی جا رہی ہے :
۱۔ اسم جامد : ایسا اسم جو اپنے وجود میں آنے پر کسی دوسرے لفظ کا زیر بار نہ ہواور نہ ہی کوئی اور لفظ اس سے ثمر بار ہو سکے ۔اسم جامد تنہا ہوتاہے او رکسی دوسرے اسم کا ساتھ بھی اِسے گوارا نہیں ۔نہ تو یہ کسی اسم سے نکلتاہے اور نہ ہی کوئی دوسار اسم سے نکل سکتاہے ۔مثلاًفوسل،چٹان،وائرس،نمک،کھنڈر،چٹان وغیرہ۔
۲۔مشتق: یہ کسی دوسرے کلمے سے نکلتے ہیں مثلاً:پڑھنے والا ( اسم فاعل) جب کہ پڑھاہوا مشتق ہے ۔
۳۔ دکنی زبان اور اردو زبان کی گرامر کے عمیق مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بہت سے الفا ظ کے سوتے مصادر ہی سے پھوٹتے ہیں۔ مثلاً لکھنا مصدر سے لکھا،لکھو،ہم لکھیں گے ،وہ لکھتے ہیں ،تم نہیں لکھتے۔ دیکھنامصدر سے دیکھا،دیکھو ،ہم دیکھیں گے ،وہ دیکھتے ہیں۔وہ نہیں دیکھتے وغیرہ۔ فیض احمد فیضؔ کی یہ نظم مستقبل کے بارے میں یہی درس دیتی ہے کہ ہوائے جور و ستم کے مہیب بگولوں میں رُخ ِ وفا کع فروزاں رکھنا وقت کا اہم ترین تقاضاہے :
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دِن کہ جِس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
رُوئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہلِ حَکم کے سر اُوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب اَرضِ خداکے کعبے سے
سب بُت اُٹھوائے جائیں گے
ہم اَہلِ صفا مَردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اُچھالے جائیں گے
سب تخت گِرائے جائیں گے
بس نام رہے گااﷲ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اُٹھے گا اناالحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں او ر تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق ِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
مصادر جہاں زندگی کی تاب و تواں کے مظہر ہی وہاں زمانی حدود کو یہ خاطر میں نہیں لاتے ۔کسی بھی کام کے وقو ع پزیز ہونے کا احوال تو مصاد رمیں مذکور ہوتاہے مگر حدودِ وقت کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔جیسے ابھی فیض احمد فیض ؔکی نظم ’ہم دیکھیں گے ‘‘ کا حوالہ دیا گیاہے مگر یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ ایسے مناظر دیکھنے کا وقت کب آ ئے گا جب بجلی کڑکے گی ،تاج گرائے جائیں گے اور تخت اُچھالے جائیں گے ؟سلطانی ٔ جمہور کا دور کب آئے گا؟مصدر کی یہی پہچان ہے جس کا بیان اس نظم کا امتیازی وصف ہے ۔
مصدر کے چند استعمالات
ڈاکٹرمولوی عبدالحق (1870-1961)نے مصدر کو ایک فعلی اسم سے تعبیر کیا ہے اپنی کتاب ’ قواعد اردو ‘میں فعل کی مصدری صورت کو زیر بحث لاتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے
’’جس میں کام کا ہونا بلا تعین وقت کے ہو ۔اس کے آخر میں ہمیشہ ’نا‘ ہوتا ہے جیسے ہونا ،کرنا کھانا ۔حقیقت میں یہ ایک قسم کافعلی اسم ہے جوتجریدی طورپر فعل کے کام یا حالت کو بتاتا ہے اورزمانہ اور تعدادسے بری ہوتا ہے ۔‘‘ (1)
مولوی عبدالحق کی مرتب کی ہوئی ’’ قواعد اردو‘‘ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مصدر بالعموم اسم کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔بادی النظر میں مصدر کو جن صورتوں میں استعمال کیا جاتا ہے وہ قارئین کی دلچسپی کا مرکز ہیں ۔
(۱) فاعل کے طور پر
مصدر کو فاعل کے طور پر استعمال کر کے اظہار و ابلاغ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے جیسے اُردو میں : کھیلنا ،ناگوار نہیں گزرتا ،پڑھنا،ناگوارگزرتاہے ۔
اسی طر ح دکنی میں : کھیلن بُرا نئیں لگدا،پڑن بُرا لگدا اے ۔
(۲)۔مفعول کے طور پر
مصدر کو بہ طور مفعول استعمال کر کے بات واضح کی جا سکتی ہے جیسے اُرد ومیں : وہ کھیلنا پسند کرتا ہے اور دکنی میں : وو کھیلن پسند کرتا ہے۔
(۳)۔ ضرورت اور مجبوری کے معنوں میں مصدر کا استعمال
تخلیق فن کے لمحوں میں ایک تخلیق کار جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو توہ وہ نا گزیر حالات ،سخت ضرورت اور مجبوری کو ظاہر کرنے کی غرض سے مصدر پر انحصار کرتا ہے جیسے، ہم سب کو ایک روز مرنا ہے ۔اسی طرح یہ انہی معنوں میں اور ایسی فاعلی حالت میں ’’پڑنا ‘‘ کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے جیسے، آخر مجھے وہاں جانا پڑا ۔بعض اوقات مجبوری کے معنوں میں مصدر کے ساتھ ’’ہو گا ‘‘ استعمال ہے جیسے اُرد ومیں : تمھیں سکول جانا ہوگا۔ دکنی میں: تُج کو مکتب جاون ہوسی ۔
(۴)حر ف اضافت ’’کا ‘‘ کے ساتھ
حرف اضافت ’’کا ‘‘ کے ساتھ نفی کی صورت میں فعل کے معنی دیتا ہے جیسے ،میں نہیں جانے کا ۔غور کیا جائے تو اس میں عزم اور یقین پایا جاتا ہے ۔ایک اور قابل ِ توجہ بات یہ ہے کہ یہاں موجود حرف ِ اضافت ’’کا‘‘مونث کی صورت میں ’’کی‘‘ اور جمع کے صیغے میں ’’کے ‘‘ ہوجاتا ہے ۔دکنی میں اس کی
مثال نہیں مِلی ۔
(۵)۔ ’’کو ‘‘ کے ساتھ مصدر کا استعمال
’’کو‘‘ کے ساتھ مصدر کا استعمال جب کہ فعل ’’ہے ‘‘ میں’ تھا‘ یا ’تھے‘ ہوں تو یہ ایسے ہر کام کوظاہر کرتا ہے جو فی الفور وقو ع پذیر ہو نے والا ہے جیسے اُردو میں : وہ جانے کو ہے ،ہم کچھ کہنے کو تھے ۔دکنی میں: اوہ جاون کو اَہے ۔
(۶)۔بعض اوقات ایک فعل کا دوسرے فعل کے ساتھ ایک ہی وقت میں واقع ہونا ظاہر کرتا ہے جیسے اُس کا نظر بھر کے دیکھنا تھا کہ وہ غش کھا کر گِر پڑا ۔
(۷)۔ بعض اوقات جب مصدر کے بعد کوئی حر ف ربط آ جائے تو علامت مصدر ’’نا ‘‘حذف ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ یائے مجہول (ے) لے لیتی ہے۔ جیسے اُردو میں :
اس کے کہنے سے ان کے بہکانے میں آ گیا ۔دکنی میں :اُنھ کے بہکاون میں آ گیا ۔
مصدر بہ طور امر
امر کی صورت میں مصدر کا استعمال عام ہے لیکن اس میں معمولی امر کی نسبت کسی قدر زوراورتاکید پائی جاتی ہے ۔جیسے ، بُھول نہ جانا کل ضرور آنا ۔(یہ استعمال یا تو بے تکلفی کے انداز میں ہوتا ہے یاملازمین کے ساتھ تاکیدی روّیہ اپناتے ہوئے اسے اپنایا جاتا ہے ۔ معاصرین ،بزرگوں اور عمائدین کے ساتھ اس قسم کا انداز گفتگو مستعمل نہیں ۔) دکنی میں مثال : کل آونا ۔امر کی کیفیت اردواور دکنی میں بالعموم یکساں رہتی ہے ۔ یہاں اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں :
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور جو مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
( غالب ؔ )
داد و فر یاد جا بہ جا کرئیے
شاید اُس کے بھی دِل میں جا کرئیے
( میر تقی میر ؔ )

ملایا رب کہیں اس صید افگن سر بسر کیں کو
کہ افشاں کیجئے خوں اپنے سے اس کے دامن دیں کو
( میر تقی میر ؔ )


دکنی میں ’ جے ‘ کو ’ نون غنہ ‘ سے ملا دیا جاتا ہے :
اپن گردن اُوپر نا خون لیجیں
ہے یہ مطلب پِدر سوں دُور کیجیں
( محمد امین )
پچھیں سونگا اپن اس کر کہ لیجیں
سمجھ کر دِل بہتر یو کام کیجیں
( محمد امین )
مولانا سیّد فضل الحسن حسرت موہانی ( 1875-1951)کے کلام میں مصدر کاامر کے طور پر استعمال پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لو ہا منوا لیتاہے :
دیکھنا بھی تو اُنھیں دُور سے دیکھا کرنا
شیوۂ عشق نہیں حُسن کو رُسوا کرنا
اِک نظر بھی تری کافی تھی پئے راحت ِ جاں
کچھ بھی دُشوار نہ تھا مجھ کو شکیبا کرنا
اُن کو یاں وعدے پہ آ لینے دے اے اَبرِ بہار
جِس قدرچاہنا پھر بعد میں برسا کرنا
شام ہو یا کہ سحر یاد اُنھیں کی رکھنی
دِن ہو یا رات ہمیں ذِکر اُنھیں کا کرنا
صوم زاہد کو مبارک رہے عابد کو صلٰوۃ
عاصیوں کو تری رحمت پہ بھروسا کرنا
عاشقو حُسن ِ جفا کار کا شکوہ ہے گُناہ
تم خبردار خبردار نہ ایسا کرنا
کچھ سمجھ میں نہیں آ تا کہ یہ کیا ہے حسرتؔ
اُن سے مِل کر بھی نہ اظہار ِ تمنا کرنا
مصدر کی تذکیر و تانیث
جہاں تک مصدر کی تذکیر و تانیث کاتعلق ہے یہ اس اسم کے لحاظ سے ہوتی ہے جس سے اس کا تعلق ہے ۔ جیسے : بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی۔دکنی میں مثال : بات سوچنی ۔ لیکن جب اسم اور مصدر کے درمیان ’’کا‘‘واقع ہوتا ہے تو مصدر ہمیشہ مذکر ہو گا جیسے خط کا لکھنا ،نظم کا پڑھنا۔ ’کا ‘ ،’کے ‘ ،’کی‘ دکنی میں استعمال نہیں ہوتے ان کے بجائے ’ کوں ‘ کا استعمال عام ہے جیسے ’ خط کوں لکھن۔‘ قلی قطب شاہ نے کہا تھا:
تمارے مُکھ کے کعبہ کوں جِن طواف کرے
نہیں ہے حاجت اسے جاونے کو تا بہ حجاز
اُردو اور دکنی مصادر
اگلے صفحہ پر اردو اوردکنی مصادر کی ایک فہرست الف بائی ترتیب سے شامل کی گئی ہے۔اس میں اردو مصادرکے ساتھ ان کے ہم معنی دکنی مصادر بھی شامل کیے گئے ہیں ۔ان مصادر میں پائے جانے والے واضح فرق ،املا کے فرق اور صوتی فرق کی نشان دہی بھی کر دی گئی ہے ۔اس امر کی مقدور بھر کوشش کی گئی ہے کہ امالے (Dipthongs)،(Alliteration) اورمتنفس صوتیے (Phonemes) پیشِ نظر رہیں ۔مصادر اور مشتقات کے حوالے سے اِن د وزبانوں کی لفظیات (Diction) سے متعلق امور کی تفہیم کے سلسلے میں ان مصادر کا مطالعہ بہت اہم ہے ان تمام مصادر میں کام کے کرنے ،ہونے اور سہنے کو زمانے کے کسی قسم کے ناتے کے بغیر سمجھا جا سکتاہے۔ مصدر کی علامت ’ نا ‘ کو جب ساقط کر دیا جاتا ہے تو مادہ ٔ مصدر اور فعل امر باقی رہ جاتا ہے ۔ یہ
ایک مسلمہ صداقت ہے کہ اصلِ اشتقاق مصدر ہے یاامر ۔ عربی زبان کے لفظ مصدر کا مطلب جائے صدور ہے ۔ لسانی اعتبار سے مصدر کو جائے صدور ِ افعال کی حیثیت سے محوری حیثیت حاصل ہے ۔مصدر کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر مصدر کو اصلِ اشتقاق قرار دیا جاتا ہے ۔ اردواور دکنی مصادر کے بارے میں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اُردو زبان میں تو محض دو امالے ( au ,ai ) مستعمل ہیں جب کہ دکنی کا معاملہ اس سے مختلف ہے ،دکنی زبان جو امالے استعمال کیے جاتے ہیں اُن میں ui,oi,oe,ae,ai شامل ہیں۔ مصادر کے اشتقاق کے حوالے سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دکنی زبان کے متنفس صوتیے اردو زبان سے مختلف ہیں۔دکنی زبان کے وہ متنفس صوتیے جن سے اُردو زبان نا آ شنا ہیان میں لھ، نھ، رھ،دھ، یھ اور مھ شامل ہیں۔ (2)
اردو اور دکنی مصادر کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ دکنی کے کچھ صوتیے (Phonemes)ایسے ہیں جواردو میں عنقا ہیں ۔یہ صوتیے دکنی کی الگ پہچان سمجھے جاتے ہیں ۔ ان متنفس آوازوں کا دکنی میں اس قدر استعمال کیا جاتا ہے کہ ان سے دکنی کو الگ آ ہنگ ملا ہے ۔ یہ صوتیے درج ذیل ہیں :
لھ (lh)،نھ (nh)،رھ (rh)،وھ (wh)،یھ(jh)،مھ(mh)
مصادر کے عمیق مطالعہ سے یہ آ گہی ملتی ہے کہ اردوزبان میں جو امالے (Dipthongs)مستعمل ہیں ان میں (au)اور (ai)قابلِ ذکر ہیں ۔دکنی میں ان کے علاوہ کچھ اور امالے بھی مستعمل ہیں جن میں (ui)،(oi)،(oe)،(ae)،(ai)شامل ہیں۔دکنی مصادر کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے دکنی میں دو مصوتوں کا تلفظ ایک امالہ کے مانند کیا جاتا ہے جیسے :(V+i) وغیرہ ۔
مندرجہ بالا فہرست میں اردو اور دکنی مصادر میں آ ہنگ ،املا ،امالہ اور صوت میں پائے جانے والے فرق کی جانب اشارہ کر دیا گیا ہے ۔

فعل کی تعریف
جملے لکھتے وقت فعل کو اسی قدر اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے جس قدر اسم کو۔ در اصل فعل اپنی نوعیت کے اعتبار سے عمل کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیتا ہے ۔جہاں تک اصطلاح ’ عمل‘ کا تعلق ہے اس کا وسیع تر معانی میں میں استعمال اظہار و ابلاغ کے تقاضوں کے عین مطابق ہے ۔معنوی اصطلاح ’ عمل‘ اورقواعدی اصطلاح ’ فعل‘ میں مطابقت کے معجز نام اثر سے دِل کی بات لبوں پر لانے اور اسے صفحۂ قرطاس پر منتقل کر کے اپنے مافی اضمیر کا موثر انداز میں اظہار کیا جا سکتا ہے ۔فعل عمل جہاں کی نشان دہی کرتا ہے مثلاً ’ احسن پڑھ رہا ہے ‘ وہیں یہ حالت کی ترجمانی پر بھی قادر ہے جیسے ’ احسن سوتا ہے ‘ ۔یہ فعل ہی جو اس عالمِ آ ب و گِل میں فطرت کے جملہ مظاہر کے پیہم رواں دواں رہنے سے آ گاہ کرتا ہے ۔
ریت سے بُت نہ بنا اے میرے اچھے فن کار
ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لادوں
( احمد ندیم قاسمی )
سینہ ٔ سنگ سے دریا نہیں بہتے دیکھے
کون کہتا ہے کہ ہیں درد سے عاری پتھر
( سید جعفر طاہر )
تحریر یاتقریرکا ہر جملہ جزوی یا کُلی طور پر کسی نہ کسی کیفیت کی ترجمانی کرتا ہے اور جملے کو اس نوعیت کی ترجمانی کے لیے جو مواد درکار ہوتاہے وہ اسم فراہم کرتا ہے ۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ یہ فعل ہی ہے جو درپیش صورتِ حال کو زِیست کی تاب و تواں،تابندگی ،بو قلمونی ،تنوع اور دھنک رنگ منظر نامے
سے متمتع کر کے منفرد آ ہنگ عطا کرتا ہے ۔اس سے یہ حقیقت کُھل کر سامنے آجاتی ہے کہ جملے میں سوز و ساز زندگی کے حیات بخش عناصرکے تمام سوتے فعل ہی سے پُھوٹتے ہیں۔اسم کے مانند فعل معنوی قسم بھی ہے لیکن ’ فعل ‘ کو قواعدی اصطلاح کی حیثیت حاصل رہی ہے جب کہ ’عمل ’ کوفعل کے متوازی معنوں
میں دیکھا جاتا ہے ۔اُردو اور دکنی زبان میں فعل کا استعمال با لعموم جملوں کے آخر میں کیا جاتا ہے ۔جب کوئی استدعا کی جائے یا دبنگ لہجے میں کوئی بات کی جائے تو فعل شروع میں بھی مستعمل ہے مثلاً :
’’ جا ! تیرا اﷲ نگہبان۔‘‘ ’’ ہے کوئی مائی کا لال ؟ ‘‘ ’’ کرتا ملک الموت تقاضاکوئی دِن اور‘‘
فعل کو چونکہ خارجی دنیا کے ترجمان کی حیثیت حاصل ہیاس لیے فعل وقت کی جلوہ نمائی پرقادر ہے ۔سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں اورگردشِ ایام کے بارے میں حقیقی شعور سے سے متمتع کرنے کی غرض سے فعل مخصوس نوعیت کے صرفیوں پر انحصار کرتا ہے اوروقت کی ترجمانی فعل کا زمانہ بن کراپنی پہچان کراتی ہے ۔زمانہ جو جنس کے مانند معنوی اصطلاح بھی ہے لیکن جب اسے فعل کے حوالے سے موضوع بحث بنایا جائے تو تو اسے خالص قواعدی اصطلاح سمجھنا چاہیے ۔اگر اس قواعدی اصطلاح سے امتیاز کی ضرورت محسوس ہوتو اہلِ نظر کو اقتضائے وقت کے مطابق اس کی متوازی معنوی اصطلاح ‘’ وقت ‘ کو مرکزِ نگاہ بنانا ہو گا ۔ اُردو اور دکنی میں واحد حاضر کی صورت میں ضروری اظہاریے کو اکثرفعل کی سادہ صورت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسی کو فعل کی جڑ کہاجاتا ہے جیسے ’ چاہ ‘ ، ’ بول‘ وغیرہ ۔فعل کی اسی جر کے ساتھ نا،نے ،نی ،ن ،لگا کر مصدر کی تشکیل ممکن ہے ۔یہاں مصدر اورفعل کے فرق کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے ۔مصدر میں کسی کام یاحرکت کا بیان ہوتا ہے لیکن اِس میں زمانے کا وجود عنقا ہے مثلاًتوڑنا /بھاننا ۔ان مصادر میں حرکت کا تصور تو یقیناً موجود ہے مگر زمانہ غائب ہے ۔فعل کے بارے میں گرامر کے ممتاز ماہرین کے خیالات قابل غور ہیں :
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی :
’ ’ فعل ایک ایسا کلمہ ہے جو اکیلا اپنے معنی دے ۔اس میں کسی کام یا شے کا کرنا یا ہونا یا نہ کرنا یا نہ ہونا اور ازمنہ ثلاثہ یعنی ماضی ،حال اوراستقبال میں ایک زمانہ پایا جاتا ہے ۔‘‘ (3)
ڈاکٹر مولوی عبدالحق :
’’ فعل وہ ہے جس سے کسی شے کا ہونا یا کرنا ظاہر ہوتا ہے جیسے تماشا شروع ہوا ،اُس نے خط لکھا ،ریل چلی ۔‘‘ (4)
مولوی فتح محمدخان جالندھری :
’’ جو اکیلا اپنے معنی دیتا ہے اوراس میں منجملہ ازمنہ ثلاثہ کے ایک زمانہ بھی پایا جاتا ہے اس کو فعل کہتے ہیں ۔‘‘ (5 )
ڈاکٹر عصمت جاوید :
’’ایسے الفاط جِن سے یا تو کام کا تصور وابستہ ہوتا ہے یا پِھرجو اِسم کی موجودگی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ وقت نما علامتیں جُڑی ہوتی ہیں اُنھیں فعل کہتے ہیں ۔‘‘ (6)
شیو پرشاد راجا :
’’فعل کے معنی کام اور وہ اُس کا نام ہے جو بِنامدد دوسرے لفظ کے اپنے معنی بتلا دیتا ہے اور ماضی ،حال اور مستقبل اِن تینوں زمانوں میں سے کوئی زمانہ پایا جاتا ہے ۔‘‘ (7)
رُتھ لیلیٰ شمٹ (Ruth Laila Schmidt ):
,, Urdu verbs have four parts : the Root ,Imperfective Particle,Perfective Particle,and Infinitives.These are eleborated with auxiliaries and suffixes into complex system of verb tense aspect.The basic form of a verb determines its aspect, whereas the auxiliary(or the futuretense,the future suffix)determines the tense.,,(8)
جان شیکسپئیر ( John Shakespear):
,, A verb is a word which of itself may constitute a sentence and without whic, expressed orunderstood,no sentence can be complete. In the and Hindustani,the Arabic term action is commonly used to designate this part of speech ,which admitsof various subdivisions.,(9)
محترمہ ڈاکٹر حبیب ضیا:
’’ فعل اس کلمہ کو کہتے ہیں جس سے کسی کام کاکرنا ،ہونا یا سہنا سمجھا جائے اور اس میں زمانہ پایا جائے ۔ہر فعل کے لیے ضروری ہے کہ اس کاکوئی فاعل ہو اس لیے جس سے فعل صادر ہوتا ہے اس کو فاعل کہتے ہیں ۔
ہلیاالشکر لے شہ جاگے تے اپنی
چلیا عسکر لے شہ جاگے تے اپنی
( ابن نشاطی ؔ) (10)
معانی کے لحاظ سے فعل کی قسمیں : معانی کے لحاظ سے فعل کی تین اقسام ہیں :
۱۔ فعل لاز م
۲۔ فعل متعدی
۳۔ فعل ناقص
بادی النظر میں واحد حاضر کے لیے ضروری لفظ کی سادہ صورت ہی فعل قرار پاتی ہے جیسے ’ چاہ ‘ ، ’ بول ‘ وغیرہ ۔
نمبر شمار
دکنی زبان
اُردو زبان
1
میرا کہنا
مُجھے کہنا
2
ہِلنے جُلنے باج
ہِلے جُلے بغیر
3

‚ِھگنا
بِھیگنا
4

’ُنگنا
سُونگھنا
5
تھڑنا
ٹِھٹھرنا
فعل کی تشکیل
فعل مصدر سے علامت مصدر ہٹانے اور بعض تغیرات لانے سے حاصل ہوتاہے ۔اگر مادے کے تصور سے بات کی جائے تو مادہ ٔ فعل اوراس پر اضافات سے فعل کی تشکیل ہوتی ہے ۔ فعل کی تشکیل کو درج ذیل صورتو ں میں دیکھا جا سکتاہے :
۱۔افعال مفرد ۲۔افعال مرکب
۱۔افعال مفرد : ایسے افعال جو صرف ایک لفظ پرمشتمل ہوں ،افعال مفرد کہلاتے ہیں۔مثلاًرونا،سوئے،دھوئیں وغیرہ۔
۲ ۔ افعال مرکب
الف ۔ امدادی افعال : دوسرے افعال کی مدد سے جو مرکب افعال بنتے ہیں انھیں امدادی افعال کہتے ہیں ۔
ب۔ مرکب افعال :افعال کو اسما یا صفات کے ساتھ ترتیب دینے سے مرکب افعال بنائے جاتے ہیں ۔
1 ۔امدادی افعال سے مرکب افعال بنانا
الف۔ ’’ہو ‘‘ : ایک امدادی فعل ہے اس سے بہت سے مرکب افعال بنتے ہیں مثلاً آیا ہونا ،منایا ہونا۔
دکنی میں اس کی مثال اس طر ح ہے :
جدھاں تھے تن کے چشمے میں جیا جل دھار ہو آ یا
تدھاں تھے عشق منج دل کے برک کا بار ہو آیا


( غواصیؔ)
ب ۔ ’’دینا ‘‘ اور ’’ لینا ‘‘ : سے بھی مرکب افعال بنتے ہیں مثلاً مل دینا ،نکال دینا،چھین لینا ۔ اردو اور دکنی میں ’ لینا ‘ سے امدادی فعل کی مثال :
سمج کر دیک توں دنیا کے شیوے

کہ چھن میں دیوے چھن میں چھین لیوے
(ابن نشاطی)
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چِھین لے مجھ سے حافظہ میرا
مصدر سے علامت مصدر ہٹانے اور بعض تغیرات لانے سے فعل حاصل ہوتا ہے ۔اگر مادے کے تصور کو پیش نظر رکھا جائے تویہ امر واضح ہے کہ مادہ ٔ فعل اور اس پر اضافہ کرنے سے فعل کی تشکیل ممکن ہے ۔ ََ،،، ََََ فعل کی تعریف أ__------طااردو r فعل فعل فعل ک اردو زبان کی گرامر کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اُردو جملے لکھتے وقت فعل کو اسی قدر اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے جس قدر اسم کو۔اپنی نوعیت کے اعتبار سے فعل در اصل عمل کی ترجمانی فریضہ انجام دیتا ہے ۔ جہاں تک اصطلاح’عمل‘ کا تعلق ہے اس کا وسیع تر معانی میں استعمال اظہار و ابلاغ کے تقاضوں کے عین مطابق ہے ۔یہ لا ئحہ عمل اختیار کرنے سے معنوی اصطلاح ’عمل‘اور قواعدی اصطلاح ’فعل‘میں مطابقت کے امکانات پیدا کر کے ابلاغ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔یہاں یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ’فعل‘ جہاں ’عمل‘ کی نشان دہی کرتا ہے جیسے ’احسن پڑھ رہا ہے ‘ وہیں یہ حالت کی ترجمانی پر بھی قادر ہے جیسے ’احسن سوتا ہے ‘اور اسی کی معجز نما گرہ کشائی سے کارِ جہاں کے پیہم رواں دوا ں رہنے کا بھی علم ہوتا ہے جیسے ’بادل گرجتے ہیں۔‘گرامر کے مطالعہ سے اِس بات کا ایقان ہوجاتا ہے کہ تحریر کا ہر جملہ جزوی یا کُلی طور پر کسی نہ کسی کیفیت کی ترجمانی کرتا ہے ۔جملہ اس نوعیت کی ترجمانی کے لیے اسم سے موادحاصل کرتا ہے لیکن یہ فعل ہی ہے جوصورت ِ حال کو زیست کی تابندگی ،بو قلمونی ،دھنک رنگ منظر نامے اورتاب و تواں سے آ شنا کر کے اسے منفر دآہنگ عطا کرتا ہے ۔قرائن سے معلوم ہو تا ہے کہ جملے میں سوز و سازِ زندگی کے سبھی حیات بخش عناصر کے سوتے فعل ہی سے پُھوٹتے ہیں ۔اسم کے مانند فعل معنوی قسم بھی ہے لیکن یہ بات ہمیشہ پیشِ نظر رکھی جائے کہ’ فعل‘ کو قواعد ی اصطلاح کی حیثیت حاصل ہے جب کہ ’عمل‘کو فعل کی متوازی معنوی اصطلاح کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔اردو زبان میں فعل کا استعمال جملوں کے آخر میں کیا جاتا ہے ۔ اردو کے صر ف انہی جملوں میں فعل کو ابتدا میں استعمال کیا جاتا ہے جن میں استدعا، فرمان (جا ،کھا ،گا)یا دبنگ لہجے کااظہار ہو جیسے ’ہے کوئی مائی کا لال؟‘ اردو زبان کی گرامر کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اُردو جملے لکھتے وقت فعل کو اسی قدر اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے جس قدر اسم کو۔اپنی نوعیت کے اعتبار سے فعل در اصل عمل کی ترجمانی فریضہ انجام دیتا ہے ۔ جہاں تک اصطلاح’عمل‘ کا تعلق ہے اس کا وسیع تر معانی میں استعمال اظہار و ابلاغ کے تقاضوں کے عین مطابق ہے ۔یہ لا ئحہ عمل اختیار کرنے سے معنوی اصطلاح ’عمل‘اور قواعدی اصطلاح ’فعل‘میں مطابقت کے امکانات پیدا کر کے ابلاغ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔یہاں یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ’فعل‘ جہاں ’عمل‘ کی نشان دہی کرتا ہے جیسے ’احسن پڑھ رہا ہے ‘ اردو زبان کی گرامر کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اُردو جملے لکھتے وقت فعل کو اسی قدر اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے جس قدر اسم کو۔اپنی نوعیت کے اعتبار سے فعل در اصل عمل کی ترجمانی فریضہ انجام دیتا ہے ۔ جہاں تک اصطلاح’عمل‘ کا تعلق ہے اس کا وسیع تر معانی میں استعمال اظہار و ابلاغ کے تقاضوں کے عین مطابق ہے ۔یہ لا ئحہ عمل اختیار کرنے سے معنوی اصطلاح ’عمل‘اور قواعدی اصطلاح ’فعل‘میں مطابقت کے امکانات پیدا کر کے ابلاغ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔یہاں یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ’فعل‘ جہاں ’عمل‘ کی نشان دہی کرتا ہے جیسے ’احسن پڑھ رہا ہے اردو زبان کی گرامر کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اُردو جملے لکھتے وقت فعل کو اسی قدر اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے جس قدر اسم کو۔اپنی نوعیت کے اعتبار سے فعل در اصل عمل کی ترجمانی فریضہ انجام دیتا ہے ۔ جہاں تک اصطلاح’عمل‘ کا تعلق ہے اس کا وسیع تر معانی میں استعمال اظہار و ابلاغ کے تقاضوں کے عین مطابق ہے ۔یہ لا ئحہ عمل اختیار کرنے سے معنوی اصطلاح ’عمل‘اور قواعدی اصطلاح ’فعل‘میں مطابقت کے امکانات پیدا کر کے ابلاغ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔یہاں یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ’فعل‘ جہاں ’عمل‘ کی نشان دہی کرتا ہے جیسے ’احسن پڑھ رہا ہے ‘وہیں یہ حالت کی ترجمانی پر بھی قادر ہے جیسے ’احسن سوتا ہے ‘اور اسی کی معجز نما گرہ کشائی سے کارِ جہاں کے پیہم رواں دوا ں رہنے کا بھی علم ہوتا ہے جیسے ’بادل گرجتے ہیں۔‘گرامر کے مطالعہ سے اِس بات کا ایقان ہوجاتا ہے کہ تحریر کا ہر جملہ جزوی یا کُلی طور پر کسی نہ کسی کیفیت کی ترجمانی کرتا ہے ۔جملہ اس نوعیت کی ترجمانی کے لیے اسم سے موادحاصل کرتا ہے لیکن یہ فعل ہی ہے جوصورت ِ حال کو زیست کی تابندگی ،بو قلمونی ،دھنک رنگ منظر نامے اورتاب و تواں سے آ شنا کر کے اسے منفر دآہنگ عطا کرتا ہے ۔قرائن سے معلوم ہو تا ہے کہ جملے میں سوز و سازِ زندگی کے سبھی حیات بخش عناصر کے سوتے فعل ہی سے پُھوٹتے ہیں ۔اسم کے مانند فعل معنوی قسم بھی ہے لیکن یہ بات ہمیشہ پیشِ نظر رکھی جائے کہ’ فعل‘ کو قواعد ی اصطلاح کی حیثیت حاصل ہے جب کہ ’عمل‘کو فعل کی متوازی معنوی اصطلاح کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔اردو زبان میں فعل کا استعمال جملوں کے آخر میں کیا جاتا ہے ۔ اردو کے صر ف انہی جملوں میں فعل کو ابتدا میں استعمال کیا جاتا ہے جن میں استدعا، فرمان (جا ،کھا ،گا)یا دبنگ لہجے کااظہار ہو جیسے ’ہے کوئی مائی کا لال؟‘ فعل کو چونکہ خارجی دنیا کے ترجمان کی حیثیت حاصل ہے اس لیے فعل وقت کی جلوہ نمائی پر بھی قادر ہے ۔سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے بارے میں حقیقی شعور سے متمتع کرنے کی غرض سے فعل مخصوص نوعیت کے صرفیوں پر انحصار کرتا ہے ۔یوں وقت کی ترجمانی ’فعل‘کا زمانہ بن کراپنی پہچان کراتی ہے ۔زمانہ جو جنس کے مانند معنوی اصطلاح بھی ہے لیکن جب فعل کے حوالے سے اسے زیر بحث لایا جائے اسے خالص قواعدی اصطلاح سمجھنا چاہیے ۔اگر اس قواعدی اصطلاح سے امتیاز کی ضرورت محسوس ہو تو اہلِ نظر کو اقتضائے وقت کے مطابق اس کی متوازی معنوی اصطلاح ’وقت‘کو مرکز ِنگاہ بنانا ہو گا ۔اس طرح خلط مبحث سے بچا جا سکتا ہے ۔ واحد حاضر کی صورت میں ضروری اظہاریے کو فعل کی سادہ صورت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔دکنی زبان میں اِسی کو فعل کی جڑ کہا جاتا ہے جیسے چاہ،بول وغیرہ۔اسی جڑ کے ساتھ نا ،نے ،نی ،ن ،لگانے سے مصدر کی تشکیل ممکن ہے فعل کا تصور قائم کرنے کے لیے درج ذیل بنیادر سے علامت مصدر ہٹانے اور بعض تغیرات لانے سے حاصل ہوتاہے ۔اگر مادے کے تصور سے بات کی جائے تو مادہ ٔ فعل اوراس پر اضافات سے فعل کی تشکیل ہوتی ہے ۔ ہلیا لشکر لے شہ جاگے تے اپنی چلیا کر لے شہ جاگے تے اپنی (ابن نشاطی : پھول بن : صف
الف ۔ امدادی افعال
جب کسی فعل کی تشکیل دوسرے فعل یااس کے جزو کی مرہونِ منت ہو اوراس کے مفہوم میں وسعت ،قوت اور حسن پیدا کرکے اصل فعل کی معاونت کرے تو امدادی فعل کہلاتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں امدادی فعل سے مراد ایسا فعل ہے جس کی گردان اور صیغے دوسرے افعال سے مختلف صیغے بنانے میں معاون ثابت ہوں ۔امدادی فعل کے وسیلے سے فعل کے مطالب اور مفاہیم کی توضیح و تشریح کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔زمانے کی نوعیت ، طور اورحالت کے بارے میں بھی امدادی افعال حقائق کی گرہ کشائی کرتے ہیں ۔ دوسرے افعال کی مدد سے جو مرکب افعال بنتے ہیں انھیں امدادی افعال کہتے ہیں ۔
ب۔ مرکب افعال: افعال کو اسما یا صفات کے ساتھ ترتیب دینے سے مرکب افعال بنائے جاتے ہیں ۔بعض اوقات مرکب افعال میں دیگر زبانوں سے تراجم کر لیے جاتے ہیں جیسے فارسی سے کثیر تعداد میں افعال دکنی اور اردو میں داخل ہوئے۔ دکنی شاعری میں فارسی محاورات کے تراجم بھی کیے گئے ۔ذیل میں ولیؔ کی شاعری اور دکنی سے اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں :
محاورات
مفہوم
مثال
دل بستن
دل باندھنا
g ولی ؔ جن نے نہ باندھیا دِل کوں اپنے نو نہالاں سے
خوش آمدن
خوش آنا
c نہ جاؤں صحنِ گلشن میں کہ خوش آتا نہیں مجھ کو
دم زدن
دم مارنا
a بھبھوتی مُکھ پہ لیا دم مارتی ہے خاک ساری کا
شیوہ گرفتن
شیوہ لینا
U لیا ہے اس سبب دِل نے مرے شیوہ گدائی کا
روا داشتن
روا رکھنا
W رکھتا ہے کیوں جفا کو مجھ پر روا اے ظالم
آب کردن
آب کرنا
= اے ولی ؔ دِل کو آب کرتی ہے
نماز کردن
نماز کرنا
M کرتی ہیں تیری پلکاں مل کر نماز گویا
کم بستن
کمر باندھنا
M آیا جو کمر باندھ کے تو جورو جفا پر
جا کردن
جا کرنا
? گوہر اس کی نظر میں جا نہ کرے
چشم داشتن
چشم رکھنا
A چشم رکھتا ہوں اے سجن کہ پڑھوں
جفا کشیدن
جفا کھینچنا
; سدا عاشقاں کھینچتے ہیں جفا
بتنگ شدن
بتنگ ہونا
M اے دوستاں بتنگ ہوا ہوں میں ہوش سے
پیدا ہونا
جنم لینا
Gنکتہ پیدا ادیک ہوا ۔( ارشاد نامہ )
تاب لانا
سہہ لینا
Cترے حملے کوں ڈونگ رتاب کیوں لائے۔
آزار پانا
دُکھ اُٹھانا
Uولے کس تے نہ کوئی پاتاہے آزار۔ ( پھول بن)
رضالینا
رضامند کرنا
7رضالے بھار آیا۔ ( پھول بن)
+ فعل اور مادہ ٔ فعل
ایسے الفاظ جن کے ساتھ یا تو کام کا تصور وابستہ ہوتا ہے یا پھر جو اسم کی موجودگی کو ظاہر کرتے ہیں اور ان کے ساتھ وقت نما علامات کا انسلاک کیا جاتا ہے ،انھیں فعل کہا جاتا ہے ۔ جیسے ’’ لکھا ہے : فعل ہے ‘‘بادی النظر میں واحد حاضر کے لیے ضروری لفظ کی سادہ صور ت ہی فعل قرارپاتی ہے ۔ اسی کو فعل کی جڑ سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسے چاہ ،بول وغیرہ ۔ فعل کے بنیادی مباحث اور اس کے تصور کی تفہیم کے لیے درج ذیل مباحث کا جاننا ضروری ہے :
الف ۔ فعل کی تعریف اور اس کی اقسام ب۔ مصدر ، مادہ ٔ فعل ، فعل کی اقسام اور مصدر سے فعل کی تشکیل
مادہ ٔ فعل: ہر مصدر میں ایک ’’مادہ ‘‘موجود ہوتا ہے جوعلامت مصدر ’’نا‘‘کے ہٹانے سے حاصل ہوتا ہے اور اس کے سب تغیرات میں بھی موجود رہتا ہے اور ان تغیرات کی علامتیں ہٹانے کے بعد بھی بچ جاتا ہے جیسے چلنا سے ’ چل ‘ مادہ ٔ فعل ہے ۔فعل کی مختلف صورتوں جیسے چلتا ہے ،چلے گا ،چلنے والا
،ان سب میں مادہ ٔ فعل’ چل ‘ مشترک ہے ۔دکنی مصادر اور اُردو مصادر میں مادہ ٔ فعل کے حصول کایہی طریقہ ہے ۔مادہ ٔ فعل بالعموم فعل امر ہی ہوتا ہے مثلاً:
نمبر شمار

زبان
مصادر
مادہٌفعل
۱
اردو

وڑھنا
اوڑھ
۲
دکنی

اوڑنا
اوڑ
۳
اردو
اُٹھانا
اٹھا
۴
دکنی
اُچانا
اُچا
۵
اردو
اٹکنا
اَٹک
۶
دکنی

َڑکنا
اَڑک
‘ مادہ ٔفعل کی اقسام : اردو گرامر میں مادہ ٔ فعل دو طرح کے ہیں :
(۱)۔ اولین/اصلی مادے (۲(۔ثانوی /وضعی مادے
اولین یااصلی مادے سنسکرت یا پراکرت سے لیے گئے ہیں۔اردو میں قدیم مادوں کی مثال پر وضع کیے گئے ہیں جیساکہ پہلے اس امر کی صراحت کر دی گئی ہے کہ مصدر کی مصدری علامت ’ نا ‘ ہٹانے سے مادہ ٔ فعل باقی رہ جاتا ہے ۔ مادہ ٔ فعل کے آخر میں ’ الف ‘ بڑھانے سے حالیہ تمام جب کہ مادہ ٔ فعل کے آخر میں ’ تا ‘ کااضافہ کرنے سے حالیہ نا تمام بن جاتا ہے ۔ افعال کے تقابلی جائزے کی خاطر یہ امر ناگزیر ہے کہ مادہ ٔ فعل کو زبان کے اسلوب میں حقیقی تناظر میں دیکھا جائے ۔ دکنی اور اردو مصادر کے مادہ ٔ فعل اور افعال میں اس کے مقام کی چند مثالیں درج ذیل ہیں :
زبان
مصادر
مادہٌفعل
حالیہ تمام
حالیہ ناتمام
حاصل مصدر
اردو
اوڑھنا
اوڑھ
اوڑھا
اوڑھتا
اوڑھ
دکنی

اوڑنا
اوڑ
اوڑا
اوڑتا
اوڑ
اردو
اُٹھانا
اُٹھا
اُٹھایا
اُٹھاتا
اُٹھا
دکنی
اُچانا
اُچا
اُچایا
اُچاتا
اُچا
اردو

ُبلنا
اُبل
اُبلا
اُبلتا
اُبل
دکنی
اُبلن
اُبل
اُبلا
اُبلتا
اُبل
W بادی النظر میں اُردو میں حاصل مصدر اور مادہ دونوں یکساں صورت میں موجود ہیں ۔حاصل مصدر اور مادہ مصدر کے حصول کے لیے علامتِ مصدر کو گرا نا ضروری ہے مثلاً ’ دوڑنا ‘ سے علامت مصدر ’ نا ‘ گرانے سے ’ دوڑ ‘ حاصل ہوا اور ’ کھیلنا ‘ سے علامت مصدر ’ نا ‘ کو ہٹانے سے ’ کھیل ‘ مل گیا ۔ یہ کہنا کہ ہر
مصدرکی علامت ہٹانے سے حاصل مصدر مِلے گا،درست نہیں۔
فعل کی اقسام
فعل مصدر سے علامت مصدر ہٹانے اور بعض تغیرات لانے سے حاصل ہوتا ہے ۔اگر مادے کے تصور سے بات کی جائے تومادۂ فعل اور اس پر اضافات سے نئے افعال بنائے جا سکتے ہیں۔ان میں سے مرکب افعال زیادہ مستعمل ہیں ۔دکنی میں اسما سے فعل کی تشکیل عام تھی جیسے چِتر ( تصویر ) سے چِترانااوردِیپ سے دِیپنا وغیرہ۔
مرکب افعال
مرکب فعل ایسا فعل ہے جو کسی دوسرے فعل اِسم یا صفت سے مربوط ہو۔دوسرے لفظوں میں ایسے افعال جو ایک سے زیادہ الفاظ پر مشتمل ہوں افعال مرکب /مرکب افعال کہلاتے ہیں۔ مرکب افعال کی دو اقسام ہیں مرکب فعل امدادی اور مرکب فعل ارتباطی ۔ان میں سے مرکب فعل امدادی تو امدادی فعل کی مدد سے بنایا جاتا ہے جب کہ مرکب فعل ارتباطی اسم یا صفت کے ربط سے متشکل ہوتا ہے ۔ مثلاً شرو ع کرنا ،ختم کرنا ،دُکھ دینا ،گِر پڑنا وغیرہ ۔ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے مطابق افعال مرکب دو طرح سے بنتے ہیں :
الف ۔ دوسرے افعال کی مدد سے جنھیں امدادی افعال کہتے ہیں ۔
ب ۔ افعال کو اسما ء یا صفات کے ساتھ ترتیب دینے سے ۔
1۔ امدادی افعال سے مرکب افعال بنانا
امدادی افعال سے مرکب افعال کی تیاری گرامر کا اہم موضوع ہے ۔اس کا طریق کار درج ذیل ہے :
الف ۔ ’’ہو ‘‘ ایک امدادی فعل ہے اس سے بہت سے مرکب افعال بنتے ہیں مثلاً آیا ہو نا،منایا ہونا ۔
ب ۔ ’’دینا ‘‘ اور ’’ لینا ‘‘ بھی اسی طرح مرکب افعال ہیں مثلاً مل دینا ،نکال دینا ،ہٹا دینا،بُلا لینا ،رکھ لینا وغیرہ ۔
ج۔ اسی طرح ’’جانا ‘‘ سے ٹوٹ جانا ،بِکھر جانا ،مِل جانا ۔
د۔ ’’ رہنا ‘‘ سے بیٹھ رہنا ،سو رہنا ،لٹکے رہنا ۔
ر۔ ’’پڑنا ‘‘ سے ٹُوٹ پڑنا ، گِر پڑنا ۔
س۔ ’’بیٹھنا ‘‘ سے چڑھ بیٹھنا ،آ بیٹھا،دبا بیٹھا ۔
2۔اسمائے صفات کے ساتھ ترتیب دینے سے مرکب افعال بنانا
بعض اوقات اسمائے صفات کو ترتیب دینے سے بھی مرکب افعال بنتے ہیں مثلاً تیز دوڑنا ۔
قبا کوں پُھول کی تُوں چاک کِیتا
کلی کے پیرہن کوں تنگ کیت ( ابن نشاطی ؔ)
3۔افعال وضعی
یہ ایسے فعل ہوتے ہیں جن کا کلمہ شروع سے برائے معنی فعل ہی کے کام کرتا ہے یا فعل وضعی در اصل فعل کامل کی ایک شکل ہے۔ ایسے افعال جو اپنے معنوں میں کامل ہوں مثلاً آنا ،جانا ،کھانا فعل کامل کہلاتے ہیں۔
4۔ افعال غیر وضعی
ایسے افعال جن کا کلمہ غیر وضعی ہوتا ہے اور جن پر ’’نا ‘‘ کااضافہ کر کے فعل غیر وضعی بنا لیا جاتا ہے جیسے گرم سے گرمانا ،قبول سے قبولنا۔
( الف ) ۔ اقسام فعل : (فاعل کے ذکر یا عدم کے اعتبار سے )
۱۔ فعل معروف
ایسا فعل جس کا فاعل معلوم ہو فعل معروف کہلاتا ہے۔اس کے علاوہ فعل معروف میں فعل کو فاعل کی جنس اور تعدا دکے بارے میں آگہی فراہم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا۔فاعل، مفعول اور حالت کے لحاظ سے فعل کامنظر بدل جاتاہے۔ مثلاً احسن نے ارشد کو پِیٹا۔ طاہرہ نے سیب کھائے ۔نوید نے خط لکھا۔
۲۔ فعل مجہول
ایسا فعل جس کا فاعل معلوم نہیں ہوتالیکن مفعول معلوم ہوتا ہے فعل مجہول کہلاتا ہے جیسے دروازہ کھولا گیا۔وہ ماراگیا۔ وہ پِیٹا گیا۔اردو میں فاعل کا ذکر نہ ہو اورفعل کے بعد ’ جانا ‘ کے صیغے فعل مجہول بناتے ہیں۔
(ب)۔ اقسام فعل : (بہ لحاظ فاعل )
فاعل کے اعتبار سے بھی فعل کی دو قسمیں ہیں :
۱۔ فعل لازم
ایسا فعل جس میں فاعل اور فعل موجود ہوں لیکن مفعول نہ ہو فعل لازم کہلاتا ہے ۔یعنی کام کا اثر صرف کام کرنے والے تک محدود رہتاہے جیسے ریل چلی ،احسن آیا۔
۲۔فعل متعدی
ایسا فعل جس میں فاعل کے ساتھ ساتھ مفعول کو بھی طلب کیا جائے فعل متعدی کہلاتا ہے مثلاً:
ریحانہ نے کپڑے دھوئے ،احسن نے خط لکھا۔
بُھجنگ تِس میں بے طاقتی کا لڑیا ( گلشن عشق)
اُردو میں ایسے افعال متعدی جن کی ماضی مطلق ،ماضی قریب ،ماضی بعید ،ماضی احتمالی کے ساتھ ’’نے ‘‘کا استعمال کیا گیا ہو تو ایسی صورت میں فعل ہر صورت میں مذکر مستعمل ہوتا ہے خواہ فاعل مونث ہی کیوں نہ ہو ،جہاں تک دکنی کا تعلق ہے اس زبان میں مذکر کے لیے مذکر اور مونث کے لیے مونث فعل کااستعمال عام ہے۔جہا ں تک کھڑ ی بولی کا تعلق ہے اس میں فعل متعدی کی تشکیل کرتے وقت مادہ فعل کے آخر میں ’ آ‘ اور دوسرے متعدی افعال میں ’ وا ‘ ملایا جاتاہے ۔دکنی میں فعل متعدی بناتے وقت ’ آ‘ جب کہ متعدی المتعدی میں ’ وا‘ کااضافہ ہوتاہے جیسے :
نمبر شمار
دکنی
اُردو
1
!اُس عورت نے کہی
اُس عورت نے کہا
3
!لڑکی نے پانی پی
!لڑکی نے پانی پیا
4
gاُن پانچاں خواص کوں یک جاگا ملانا۔( معراج العاشقین)
=اِن پانچ خواص کوایک جگہ ملانا۔
5
cخالی کیسے ناویں کھوائے ( ارشاد نامہ )
+خالی کیسے نام کہلائے۔
6
Mسرفراز کوں بھیجا دوں۔( معراج العاشقین)
+سرفرا ز کو بھجوا دوں۔
M (ج) فعل کی قسمیں ( بہ لحاظ زمانہ )
علامات زمانہ (اُردو ) :
حال : ہیں ہوں۔ ( ہے اور اس کے اخوان،ہے)
ماضی : میں تھا ۔ (تھااور اس کے اخوان،تھا،تھے ،تھی )
مستقبل : وہ آئیں گے ۔ ( گا اور اس کے اخوان ،گا ،گی ،گے)
جہا ں تک مستقبل کا تعلق ہے اُردو میں ’ گا‘ فعل مضارع پر متصل ہے جب کہ دکنی میں مستقبل کا ’سی ‘ مادہ ٔ فعل سے متصل ہے جیسے’ بولسی ‘ ، ’کھاسی ‘ ، ’اپرسی ‘ ۔
علامات زمانہ (دکنی) :اہے ،اتھا ،سی
حال :
دھن گن بھری گیانی چنچل اکثر یاں آتی ہے صبح
یک وقت پر نا آئے تو تُمنا بلاتی ہے صبح
(ہاشمیؔ)
ماضی :
وو ایسے وقت شہ مجلس کیا تھا
ارم کا زیب مجلس کوں دیا تھا
(ابن نشاطیؔ )

مستقبل :
ترے جب کی ات سوز دھر آئیں گیاں
سلامت ترے ٹھار انپڑ آئیں گیاں
(نصرتیؔ)
نہ تھی معلوم تقدیر اُس کے تئیں ہاں
کہ کیا کیا مشکلیں آ گل پڑیں گیاں
( محمد امین دکنی )

فعل کی اشتقاقی صورتیں : بنیاد مادۂ فعل
فعل امر،تمام ،ناتمام، مضارع
کسی بھی فعل کی تین حیثیتیں ہوتی ہیں :
۱۔ جو ختم ہو چکا ہے
۲۔جوشروع ہو چکا ہے اور ختم نہیں ہوا۔
۳۔ جو ابھی شروع نہیں ہوا ۔
دوسرے لفظوں میں ماضی ،حال اور مستقبل ۔
زمانہ ماضی ،حال اور مستقبل کی بھی اپنی اقسام ہیں ۔
جہا ں تک مادۂ فعل کاتعلق ہے اُردو زبان اور قدیم دکنی زبان کے مصادرنے اس کی ثروت میں قابل قدر اضافہ کیا ہے ۔ قدیم دکنی زبان نے مقامی بولیوں سے بھر پور استفادہ کیا ۔ بیش ترہند آریائی زبانوں کے مانند قدیم دکنی زبان میں سنسکرت مادّے کثرت سے مِلتے ہیں۔ اس کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:

نمبر شمار

لفاظ
زبان
*دکنی / اُردو میں مثال
1
گھٹ
سنسکرت گھٹ
™عقل کاجس گھٹ منے پورا چھے گا گھٹا( کلیات شاہی )۔ اس کا وزن گھٹ رہاہے ۔(اردو)
2
پینا
پا
‡حضرت دُودھ پیتے( معراج العاشقین)۔آنسو پیتی تھی کھا کے قسمیں (اردو)
3
چُھٹ
سنسکرت چُھٹ
قہر تے تُج چُھٹے ( گلشن ِ عشق )،چُھٹتی نہیں ہے منھ سے یہ کافر لگی ہوئی ( اردو)
4
پُھٹ
سنسکرت پُھٹ
uکئی پو پُھٹے ( گلشن عشق)،اُس کے مقدر پُھوٹ گئے ( اُردو )
Ù اردو اور دکنی زبان کے ادیبوں نے مصادر کے مادّہ میں اشتقاقی مادّہ کے بر محل استعما ل کے منفرد تجربے کیے
لفظ ’ جوڑ ‘ جو سنسکرت کے لفظ ’ چُٹ ‘ سے اخذ کیا گیا ہے ۔
تو تو ں کر فکر ایسی جوڑ ( ارشاد نامہ )
اردو اور دکنی زبان کے تخلیق کاروں نے فرعی مادّہ کو اپنے اسلوب میں جگہ دے کر اظہار و ابلاغ کے نئے انداز سامنے لانے کی سعی کی ۔
جو : جو کچھ بھی مانگناہے درِمصطفی ﷺ سے مانگ ، جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں۔
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیش تر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی بیٹھے سب میں جو رُو بہ رُو تو اِشارتوں ہی سے گفتگُو
وہ بیان شوق کا بر ملا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ( حکیم مومن خان مومن ؔ)
بن رُوپ چندا کون جوے۔ ( ارشادنامہ )
بھوگ : سب تو وہی بھوگے خاص ۔ ( ارشادنامہ )
قدیم دکنی زبان کے مصادر کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ دکنی زبان کے متعدد تخلیق کاروں نے ہند آریائی زبانوں کے بجائے پنجابی زبان کے کئی مادّوں کو اپنے اسلوب میں جگہ دی ۔اس کی کچھ مثالیں درج ذیل ہیں :
آکھ : (پنجابی ) کہنا ، گجراتی : آ کھٹن کہنا
دکنی میں مثال: تب آ کھے اُس کی بود۔ ( ارشادنامہ )
اَج آکھا ں وارث شاہ نو ں کتھوں قبراں وِچوں بول
تے اَج کتاب ِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ کھول ( امرتا پریتم )
اُردو ترجمہ: آج کہوں میں وارث شاہ سے کہیں قبر میں سے بول
اور آج کتاب ِ عشق کا کوئی اگلا ورق کھول
آنپڑ ( پنجابی ) : پہنچنا، سنسکرت : آ+ پراپن
دکنی میں مثال : نایھاں انپڑے کچھ سُد بود ۔ ( ارشادنامہ )
سَٹ : پنجانی مطلب ہے ڈال ،رکھ ،پھینک
دکنی : پُن پاپ سَٹ دیجے ۔ ( خوش نامہ )
دِس نیں ( مر ہٹی ) : دکھائی دینا
دکنی : دِسے سپورن ہر ایک دھات ۔ ( ارشادنامہ )
اردو اور دکنی مصادر کی مختلف صورتیں دیکھ کر قاری جہانِ تازہ میں پہنچ جاتاہے ۔مصدر اپنی نوعیت کے اعتبار سے فعل کی ایک معمولی صورت بن کر سامنے آتاہے ۔اس کے ساتھ ’’ نا ‘‘ کی موجودگی بھی سنسکرت کے ’’ ان ‘‘ اور پنجابی زبان میں ’’ نا‘‘ کے بجائے ’’ ناں ‘‘ مستعمل سے جو کہ نہ صرف ا ن زبانوں کی قربت کا مظہر ہے بل کہ سنسکرت کے غیر جنس مفعولی اور فاعلی صورت کے واحد ’ انم ‘ کی تبدیل شدہ صورت سمجھنی چاہیے ۔دکنی اور اردو دونوں زبانوں کے مصادر اور افعال کا تقابلی جائزہ لینے کے بعدیہ بات روز ِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ان دونوں زبانوں میں جو گہرا ربط ہے وہ صدیوں کے تہذیبی و ثقافتی میلانات کا مظہر ہے۔
------------------------------------------
مآخذ
(1) عبدالحق ڈاکٹر مولوی : قواعد اردو ، نئی دلی ،انجمن ترقی ٔ اردو ہند ،سال اشاعت ،2007، ص87۔
(2) سیدہ جعفر ڈاکٹر (مرتب) : مثنوی یوسف زلیخاشاعر شیخ احمد شریف گجراتی ،حیدر آباد دکن ،سال ِاشاعت 1983،ص122۔
(3) ابو اللیث صدیقی ڈاکٹر : جامع القواعد (حصہ صرف )، لاہور،مرکزی اردو بورڈ ،بار اول ،1971، ص379۔
( 4) عبدالحق ڈاکٹر مولوی: قواعد اردو ،انجمن ترقی اردو ہند ،دہلی ،بائیسویں اشاعت ،2007،ص85۔
(5) مولوی فتح محمد خان جالندھری : مصباح القواعد ،حیدر آباد دکن ، ص23۔
(6) عصمت جاوید ڈاکٹر : نئی اُرددو قواعد ، نئی دہلی،ترقی اردو بیورو،سال اشاعت 1981،ص41۔
(7) شیو پرشاد راجا : اُردو گرامر ،الہ آباد ،سال اشاعت 1877،ص35۔
8.Ruth Laila Schmidt: Urdu : An Essential Grammar ,London, Routledge ,2004,Page,87
9.John Shakespear:A Grammar Of The Hindustani Language,London,1848,Page,42
(10) ڈاکٹر حبیب ضیا: دکنی زبان کی قواعدنئی دہلی،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاو ٔ س ،سال اشاعت 2016،ص113۔
 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 679738 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.