ڈاکٹر غلام شبیر رانا
جنوبی ایشیاکے وسیع علاقوں میں بولی جانے والی اُردو زبان کاشمار دنیاکی
بڑی زبانوں میں ہوتاہے ۔یہی وہ زبان ہے جس کی علمی ،ادبی تہذیبی و ثقافتی
ثروت کا پوری دنیامیں اعتراف کیا جاتاہے ۔ اردو اور قدیم دکنی زبان کا ادبی
سرمایہ اس خطے کے باشندوں کے لیے ہر اعتبار سے لائق صد افتخار ہے ۔
اُنیسویں صدی عیسوی میں دہلی اور لکھنو میں زبان دانی پر توجہ دی جانے لگی
۔وہ زبان جس نے ہر عہد میں زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کو
پروان چڑھانے کی مقدور بھر کوشش کی اس کے قواعد اور وضاحتی لسانیات پر
سائنسی انداز فکر کو ملحوظ رکھتے ہوئے توجہ دینے کی اشدضرورت ہے ۔ اردو اور
دکنی زبان کے مطالعہ کے لیے ان زبانوں کی توضیحی لسانیات کو پیش نظر ر کھنا
اس لیے ضروری ہے کہ یہی وہ زادِ راہ ہے جو روشنی کے سفر میں منزل کی جانب
رواں دواں رہنے کا حوصلہ عطا کرتاہے ۔ عصری زبانوں کے علم پر کامل دسترس
رکھنے والے دانش وروں نے اُردو اور دکنی دونوں زبانوں کو ایک ہی نخل تناور
کے اثمار قرار دیا جاتاہے ۔ پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے میں سرکاری
سرپرستی حاصل ہونے کے باعث ہندی زبان کو ترقی کے فراواں مواقع میسر آئے۔
رفتہ رفتہ حالات نے ایسا رخ اختیار کر لیاکہ اردو اور دکنی زبان کی لسانیات
کے بارے میں مثبت شعور و آ گہی عنقا ہونے لگا۔ اردو اور دکنی کے آغاز و
ارتقا پر پروفیسر نصیر الدین ہاشمی نے اپنی معرکہ آرا تحقیقی کتاب ’ دکن
میں اُردو ‘ ( 1923) میں ان زبانوں کے بارے میں واضح موقف اختیار کیا۔
لسانیا ت کی تعلیم عالمی کلاسیک کے وسیع مطالعہ اورزندگی کے تجربات و
مشاہدات کے بارے میں معروضی اور قطعی اندازِ فکر اپنانے کا متقاضی ہے ۔
لسانیات کی اسی شمع کو حافظ محمود خان شیرانی( 1880-1946) ،وحید الدین سلیم
(1869-1927) اور پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی ( 1955 1866- (نے فروزاں رکھا
اُس کی ضو فشانیوں کا سلسلہ ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور ( 1905-1962)کی
کاوشوں سے جاری رہا۔ ڈاکٹر سید محی الدین قادری نے اپنی اہم تحقیقی کتاب ’
ہندوستانی لسانیات ‘ (1929) میں اس خطے کی اہم زبانوں کے ارتقا پر روشنی
ڈالی ۔ لسانیات پر تحقیق کا یہ سلسلہ عبدالستار صدیقی ،عبدالقادر سروری
،مسعود حسین خان ،شوکت سبز واری ، مولوی عبدالحق اور ڈاکٹر ابواللیث صدیقی
کی مساعی سے جاری رہا۔ معاصر ادب کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد عصری لسانیات
میں افعال کے بارے میں عام فہم اور اطلاقی نوعیت کی باتیں تخلیق ادب کو
مقاصدکی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریاکر دیتی ہیں۔تجزیاتی لسانیات
کاتقاضا ہے کہ اردو اور دکنی زبان کا مطالعہ کرتے وقت ان زبانوں کے افعال
کا تقابلی جائزہ بھی لیا جائے ۔
فعل امر
امراپنی نوعیت کے ا عتبار سے مادۂ فعل ہی ہے اورمضارع سے اس کی گہری مشابہت
ہے ۔جہا ں تک امر کے صیغوں کا تعلق ہے سوائے حاضر کے امر کے باقی تما م
صیغے وہی ہیں جو مضارع کے ہیں ۔ امر کے معنی حکم یا فرمان کے ہیں لیکن
قواعد کی اصطلاح میں افعال کی وہ سب صورتیں جن میں حکم ،فرمان ،التجا ،عرض
تمنا ،استدعا ،مدعا اور طلب کے معنی ہوں انھیں امر سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
امر کی منفی صورت نہی کہلاتی ہے۔
مضارع کے بعد دوسرا فعل جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے مادہ ٔ فعل ہے وہ امر
ہے ۔اس کی مضارع سے مشابہت قابل توجہ ہے ۔یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں کہ
سوائے حاضر کے صیغوں کے امر کے باقی تمام صیغے وہی ہیں جو مضارع کے ہیں ۔
جہاں تک ساخت کا تعلق ہے امر کی سب سے سادہ شکل وہی ہے جوسادہ فعل کی ہے
یعنی فعل میں سے علامت مصدر ہٹا دی جائے مثلاً:
اردو : واحد حاضر(مذکر ،مونث ) کی صورت میں آنا سے آ ،پڑھنا سے پڑھ ،چلنا
سے چل،مارنا سے مار وغیرہ۔صیغہ غائب میں واحد کے لیے مادہ فعل کے لیے بعد
’’ے ‘‘ کااضافہ ہوتا ہے ۔وہ آئے ،وہ پڑھے ،وہ چلے ۔صیغہ جمع کی صورت میں’’
ں ‘‘ کا مزید اضافہ کرنا ضروری ہے جیسے وہ آئیں ،وہ پڑھیں ،وہ چلیں ۔یہ امر
قابل ذکر ہے کہ امر کا فاعل اکثر محذوف ہوتاہے ،اس کا سبب یہ ہے کہ مخاطب
جسے یہ حکم دینا مقصود ہے وہ سامنے موجود ہوتا ہے۔ اس میں حکم یا فرمائش
ہوتی ہے جیسے احسن ! یہاں آؤ ۔سلطان !کھانا کھالو۔
دکنی زبان میں بھی امر کے لیے یہی اصول مستعمل ہیں ۔ اسم مصدر بالعموم امر
یا مضارع کی کیفیت ظاہر کرنے کے لیے بھی مستعمل ہے ۔ دکنی اور اُردو میں اس
کی وضاحت درج ذیل مثالوں سے ہو گی:
اُردو اوردکنی زبان میں امر کے لیے استعما ل ہونے والے الفاظ میں فرق بہت
کم ہے اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
اُردو:پہنچ، سمجھ، دے،کر ،دیکھ،پھینک،کہہ،لاؤ،جا،جی،دے،بھیج،کر،آ۔
دکنی : اچھ،سمج،دے ،کر ،دیکھ،سٹ ،کہہ،بِسلا،جا،جی ،دے،بھیج،کر ،آ۔
کھا : سوجی سگن کے شکر نرگن کے پانی میں پکا کر کھانا ۔ ( معراج العاشقین )
بیس: اس پچھانت میں بیسنا۔ ( معراج العاشقین )
آؤ اِک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر ؔ کو خدا یاد نہیں
( ساغر ؔصدیقی )
چراغ ِ طُور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اُٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
( ساغر ؔصدیقی )
وہ جِن کے ہوتے ہیں خورشید آ ستینوں میں
کہیں سے اُن کو بُلاؤ بڑا اندھیرا ہے
( ساغر ؔصدیقی )
فرازِ عرش سے ٹُوٹا ہوا کوئی تارا
کہیں سے ڈُھونڈ کے لاؤ بڑا اندھیر ا ہے
( ساغر صدیقی)
دکنی میں بھی علامت مصدر گر ا کر فعل امر بنایا جاتا ہے :
خدایا معانی ؔ کی امید بر لیا
کی جیوں سانت کے میہوں تھے جگ سب اکھایا
(محمد قلی قطب شاہ )
کہ احمد جنیدی پہ کر یو ں کرم
دھرے نانوں لب پر محمد ﷺجَرم
( احمد جنیدی ؔ)
امر کے استعمال کی مختلف صورتیں
امر کے استعمال کی چند صورتیں درج ذیل ہیں :
۱۔ اردو اور دکنی میں امر با لعموم حکم اور ممانعت کے لیے استعمال ہوتا ہے
۔
طاقت نہیں دُوری کی اب توں بیگی آ مِل رے پیا
تُج بِن منجے جینا بہوت ہوتا ہے مشکل رے پیا
( وجہی ؔ)
بسنت آیا پُھل یا پُھول لالا
سکھی لیا اب صراحی ہور پیالہ
( عبداﷲ قطب شاہ )
سکھی آ مِل کہ تل تل ذو ق کر لیں
دنیا میں کوئی نیں آیا دوبارا
( عبداﷲ قطب شاہ )
اے سروِ گُل بدن تُو ذرا ٹُک چمن میں آ
جیوں گُل شفگتہ ہو کو مر ی انجمن میں آ
( تانا شاہ )
۲۔امتناعی صورت میں امر کے ساتھ ’ نہ ‘ اور ’ مت ‘ ،’ نا ‘ یا نہیں کا
استعما ل ہوتا ہے جیسے ڈرو نہیں ۔
اے دِل نہ ہو تُو ں غافل اب ہوش دار باد
عشق ِ خدا لے دے کر نا کر بِچار باد
(سلطانؔ)
تُو یوں کر کہ خصلت یو تُج آئے نا
کہ تُو خوش اچھے ہور کے بھائے نا
( فیروز ؔ)
۳۔غائب اور متکلم کے صیغے صرف مشاورت اور اجازت کے لیے آتے ہیں ۔
دوستو بارگہ ِ قتل سجاتے جاؤ
قرض ہے رشتہ ٔ جاں قرض چُکاتے جاؤ
( محسن بھوپالی )
مجھے مٹا دے مری انا کو قتل نہ کر
کہ بے ضرر ہی سہی بے ضمیر ہم بھی نہیں
(محسن نقوی )
مجھے مارناں مار کے گھال دے
ولے آج اکھر مار نیکال دے
( نظامیؔ)
۴۔ادب ،تعظیم اور حفظ ِ مراتب کے لیے امرکی کئی صورتیں ہیں جیسے
جائیو،آئیو،کھائیو،جیو۔
۵۔ حالیہ نا تمام کے بعد (رہ ) کے آنے سے مدامی صورت پیدا ہوتی ہے جیسے
جیتا رہ ،کھاتا رہ،پھولتا رہ ،پھلتا رہ۔
۶۔ امر کے بعدبعض اوقات ’ نہ ‘ لگا دیا جاتاہے ۔اس سے نفی کے بجائے تاکید
اور اثبات مراد ہے جیسے آؤ نہ ہم بھی چلیں ،بیٹھو نہ ۔
دوآرت سبدجس کوت میں نہ ہوئے
دو آرت سبد باج ریجھے نہ کوئے
( نظامیؔ )
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سَیر کریں کوہِ طُور کی
(غالبؔ)
۶۔ فعل نہی
: اس میں کسی کام کے روکا جاتا ہے جیسے مت جاؤ ،نہ کرو۔
خزاں کے سیکڑوں منظر ہیں اے فریب ِ خیال
طلوعِ صبح ِ بہاراں کا اعتبار نہ کر
(سید عابد علی عابد ؔ )
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالاہے
ابھی فریب نہ کھاؤ بڑا اندھیرا ہے
( ساغرؔ صدیقی )
مجھے خود اپنی نگاہوں پہ اعتماد نہیں
میرے قریب نہ آؤ بڑا اندھیرا ہے
( ساغرؔ صدیقی )
نہ گنواؤ ناوک ِ نیم کش دِلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
جوبچے ہیں سنگ سمیٹ لو تنِ داغ داغ لُٹا دیا
(فیض احمدفیض ؔ )
ابھی نظر میں ٹھہر دھیان سے اُتر کے نہ جا
اِس ایک آن میں سب کچھ تباہ کر کے نہ جا
( ساقیؔ فاروقی)
عکس خوشبو ہوں ،بِکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بِکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
(پروینؔ شاکر )
دکنی زبان میں فعل نہی کے لیے یہی طریقہ مستعمل ہے۔ دکنی میں امر سے پہلے ’
نہ ‘ ، ’ نا ‘ ، ’ مت ‘ ، ’ نکو ‘ ، یا ’ نکوں ‘ کے بڑھانے سے فعل نہی بن
جاتا ہے
۔ جیسے :
ع : نہوسی کدھیں پانچ اُنگل سمان
( نظامیؔ)
نہ کر کچ سنچل چک بی چو ندھیر میں
امانت اتاریاں وہ مندھیر میں
(نصرتیؔ)
نہ رووے کدھیں چور کی ماں پُکار
رووے گھال کر مُکھ کوٹھی منجار
( نظامیؔ)
فلک کے دام تے غافل نہ اچھنا
کبھی اِس کام تے غافل نہ اچھنا
( غواصیؔ)
اب نا چُھپوں ،اب نا ڈروں ،ڈرو ں تو کہاں لگ ڈروں
ہمیں غریب نپائیے تیر ے آ ستھی آسا دھروں
(میرا ں جی )
۱ ۔ فعل مستقبل : بالعموم ا یسا باور کر لیا جاتا ہے مستقبل مطلق میں زمانہ
آ ئندہ کا علم تحقیقی نوعیت کا ہوتا ہے ۔ حالانکہ مضارع میں یہ احتمالی اور
شرطی ہوتا ہے اور امر میں یہ امکانی ہوتا ہے ۔ارد میں اس کے لیے علامت
مستقبل ’ گا ‘ ،گے ‘ ، ’ گی ‘ مختلف صورتوں میں مضارع کے بعد آ تی ہے ۔ اس
سے مراد آنے والا زمانہ ہے اورمضارع سے اس کی گہری مشابہت ہے۔جیسے احسن آ
ئے گا ۔اسما جائے گی۔شگفتہ جاگے گی ۔
تم آو ٔ گے تو پھولوں کی برسات کریں گے
موسم کے فرشتے سے میری بات ہوئی ہے
( ساغر ؔصدیقی )
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
(ناصرؔ کاظمی )
دکنی میں مضارع کے بعد’ گے ‘ ، ’گی ‘، ’ گیاں ‘ کااضافہ کر نے سے فعل
مستقبل بنتا ہے۔
ترے دنبال گرد ہو کے اُڑ کر آؤں گی
کرے منج اے پون اس لال کا ہے ٹھار کہاں
(غواصیؔ)
دکنی میں ’ سی ‘ کی صورت میں مستقبل کا صیغہ بھی مستعمل ہے جیسے :
کہا ہے زہر کا تاثیر اس میں
نہ چل سی کچھ مرا تدبیر اس میں
( ولی ؔ دکنی)
کہ میں سیج سُک سنگ ملسی نہ منجہ
کدہیں من کمل پُھول کھلسی نہ منجہ
( احمد دکنی )
۲۔بعض اوقات مصدر پر ’ ہے ‘ کا اضافہ کرنے سے بھی مستقبل کے معانی پیدا کر
لیے جاتے ہیں ۔مثالیں :
اردو : اُسے کل آنا ہے ۔
دکنی : اُنو کل آون ہے ۔
دکنی میں مادہ ٔ فعل کے بعد ’ سی ‘ کا اضافہ کرنے سے بھی مستقبل کے معنی
پیدا ہو جاتے ہیں ۔
اردو : وہ کل آئے گا ۔
دکنی : وو کل آ سی ۔
فعل حال
(الف ) فعل حال کا بنیادی طریقہ اور اور دکنی میں یکساں ہے ۔اس کے اہم نکات
درج ذیل ہیں:
(1)فعل نا تمام اردو اور دکنی دونوں زبانوں میں تکرار سے فعل کا مفہوم ادا
ہوتا ہے ۔جیسے :
اردو : فریب کار نئی ترکیبیں سوچتے ہیں ۔
دکنی : دھتیارے نئی ترکیباں سوچدے آہن ۔
(2)دنیا بھر کی مسلمہ صداقتیں اردو اور دکنی میں با لعموم فعل حال میں
مذکورہیں :
اردو : پیدا کرنے والا سب کو رزق دیتاہے ۔
دکنی : سرجنہار سب کو رزق دیتا اہے ۔
کِسی کوں عشق بِھیتر ہے جلاتا
کِسی کوں ہِجر بِھیتر ہے رُلاتا
( امینؔ گجراتی )
محبت کی کسی کے سر میں تروار
لگاتا ہے انے ہے ڈالتا مار
( امینؔ گجراتی )
( 3) مستقبل قریب کے لیے اردو اور دکنی دونوں زبانوں میں فعل حال کا
استعمال کیا جاتاہے ۔مثالیں :
اردو : میں ابھی آتا ہوں ۔
دکنی : میں ابھی آوتا ہوں ۔
(4)بعض اوقات بیانیہ میں ایام ِ گزشتہ سے متعلق واقعات کی رودا دبیان کرنے
کے لیے فعل حال کا استعمال کیا جاتا ہے ۔جیسے :
اُردو : ٹیپو سلطان انگریزحکومت سے لڑتا ہے ۔
دکنی: ٹیپو سلطان انگریز راجوٹ سو ں لڑتا اہے ۔
(5)حال بعض اوقات ایسے فعل کے لیے بھی مستعمل ہے جس کا آغازتو گزشتہ زمانے
میں ہوا مگر جو زمانہ حال میں بھی جاری ہے ۔
اردو : میں یہ کتاب پڑھتاہوں ۔
دکنی: میں یہ کتاب پڑتا ہو ں۔
(ب)حال تمام
حال تمام جس کی اگرچہ زمانہ ٔ حال کے لحاظ سے تکمیل ہو چکی ہوتی ہے مگر
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کے علاوہ مزید معانی بھی اس میں پنہاں
ہوتے ہیں۔
(1) حال تمام کبھی ایسی جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں فعل تمام نہیں ہوا اور یہ
امر موزو ں تھا کہ حال مطلق استعمال ہوتا مگر محاورے میں حال تمام ہی تحریر
و تقریر میں مستعمل ہے ۔
اردو : تم یہاں کیسے بیٹھے ہو ؟
دکنی : تمن یہاں کیسے بیٹھے اہو؟
(2)حالیہ تمام بعض اوقات ایسے مواقع پر بھی بولا جاتا ہے جہاں بادی النظر
ماضی تمام کا استعمال بر محل ہے مثلاً :
اردو : دکن میں بڑے بڑے شاعر گزرے ہیں ۔
دکنی : دکن میں بڑے بڑے شاعر گزرے اہن ۔
(3) حال تما م کا استعمال ماضی مطلق کے بجائے بھی کیا جاتا ہے جیسے :
اردو : اُسے کل ہی انعا م ملا ہے ۔
دکنی : اُنو کل ہی انعام ملیا اہے ۔
(4) حال تما م کا استعمال حال حکائی یا ماضی مطلق کے بجائے بھی کیا جاتا ہے
جیسے :
اردو : حدیث میں آ یا ہے ۔
دکنی : حدیث میں آوا اہے ۔
ماضی
ماضی یعنی گزرے ہوئے زمانے کی اقسام درج ذیل ہیں :
ماضی مطلق ،ماضی قریب ،ماضی بعید ،ماضی نا تمام ،ماضی شرطیہ ،ماضی تمنائی
،ماضی احتمالی ۔
1۔ ماضی مطلق : اس میں گزرا ہوا زمانہ وقت کے تعین کے بغیر ظاہر کیا جاتا
ہے ۔دکنی اور اردو میں مصدر کے آخر کی علامت ’ نا ‘ یا ’ ن ‘ گرانے کے
بعدالف (ا) بڑھا دیا جاتا ہے ۔مثلاً :
اردو : ۔ بُوجھا توپیر کی روح ۔،تب چُپ رہا گوشہ نشین ہو کر۔ ،اس نے چکھا
دکنی : بوجیا تو پیر کا روح ۔( معراج العاشقین)، تب چُپ رہیا کونے لگ۔(
ارشاد نامہ ) اُنو چکھیا ۔
دکنی میں ماضی مطلق بناتے وقت با لعموم علامت مصدر گرانے کے بعد ’ یا ‘
بڑھاتے ہیں ۔مثلاً
دکنی: پڑھنا : پڑھیا ،لکھنا : لکھیا ،دیکھنا : دیکھیا ،بولنا : بولیا
،گھڑنا: گھڑیا
اُردو : پڑھنا : پڑ ھا، لکھنا: لکھا، دیکھنا: دیکھا ،بولنا: بولا،گھڑنا:
گھڑا
اس کے علاوہ دکنی میں ماضی مطلق کی جو صورتیں مستعمل ہیں وہ درج ذیل ہیں :
روون لاگا، پُھوٹن لاگا، کرنیں لاگا ،لرزن لاگا ،
اردو اور دکنی میں ماضی مطلق محاورے کے علاوہ بعض دوسرے مقامات پر بھی
مستعمل ہے جیسے :
( i )۔بعض اوقات ماضی مطلق حال کے بجائے استعمال ہوتی ہے جیسے :
اردو : تویہاں کتنا عرصہ رہا ؟
دکنی: تُوں یہاں کتنا عرصہ رہیا؟
(ii)حال تمام کے لیے ماضی مطلق کااستعمال اردو اور دکنی میں عام ہے جیسے :
اردو : اب یہاں کچھ نہیں رکھا۔
دکنی : اب یہاں کُج نہیں راکھا۔
(iii)ماضی مطلق کو حال مطلق کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً:
اردو : اب نہ پایا تو سمجھو کبھی نہ پایا ۔
دکنی : اب نہ پاوا تو سمجھو کبھی نہ پاوا ۔
(iv) ماضی مطلق کو بعض اوقات مستقبل کے بجائے بھی استعما ل کیا جاتا ہے
مثلاً:
اردو : وہ بیٹھا تو میں اُٹھا ۔
دکنی : وو بسلا تو میں اُچا ۔
2 ۔ماضی نا تمام: اس سے یہ تاثر ملتاہے کہ کسی خاص گزشتہ زمانے میں کام
پیہم جاری تھا۔ ’رہ ‘ اور اصل مادّہ کے ساتھ ’ ہو ‘ کی گزرے ہوئے زمانے کی
صورت کا انسلاک کر کے ماضی ناتمام کی تشکیل کی جاتی ہے ۔اس کے اظہار کی
مختلف صورتیں ہیں :
( الف ) اردو : دل دھڑک رہا تھا۔ سورج ڈُوب رہا تھا۔ اپنے آپ پچھتا رہے
تھے۔وہ جامعہ میں پڑھتا تھا ۔مدار ی چابی بھیجتا تھا۔
دکنی : دل دھڑک ر یئے تھا ( کہانی نوسر ہار کی ) ۔ سورج ڈُوب ریچ تھا۔ (
کہانی جادو کا پتھر) اپتے آپ پچھتا رہے تھے ۔( کہانی نوسر ہار کی ) وو
جامعہ میں پڑتا تھا۔گاڑوڑی کُنجی گھالتا تھا۔
(ب) اردو : وہ سبق پڑھتا تھا۔
دکنی: وو سبق پڈھتا تھا َ۔
(ج) اردو : وہ ایک مدت تک سبق پڑھتا رہا ۔
دکنی: وو ایک مدت تک سبق پڑتا رہیا ۔
( د) اردو : وہ مدت تک سبق پڑھا کیا ۔
دکنی : وو مدت تک سبق پڑا کرا۔
افعال احتمالی و شرطیہ:
شکوک و شبہات یا اندیشہ ہائے دُور دراز کی موجودگی ان افعال کی پہچان
ہے۔اردو میں حالیہ تمام کے بعد’ ہو ‘ یا ’ ہو گا ‘ کااضافہ کر کے یہ بنائی
جاتی ہے جب کہ دکنی زبان میں ’ ہووے گا ‘یا’ اچھے گا ‘ کااضافہ کیا جاتا ہے
جیسے:
اردو : وہ نہ مارا ہو گا ۔
دکنی : وو نہ ماریا اچھے گا۔
حال احتمالی :
اردو : وہ آتا ہو گا ۔ وہ آ رہا ہو گا ،شاید و ہ آتا ہو ۔
دکنی: وو آوتا ہووے گا ۔وو آ رہیا ہو گا ،شاید وو آوتا ہووے ۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض اوقات حال احتمالی ماضی کے معنی بھی دیتا
ہے جیسے :
اردو: وہ گھر میں کتابیں پڑھتا ہو گا ۔
دکنی: وو گھر میں کتابیں پڑتا ہووے گا ۔
حال شرطیہ :
اپنی نوعیت کے اعتبار سے حال شرطیہ در اصل مضارع کی صورت پر ہے لیکن مضارع
اور حال شرطیہ میں کچھ فرق کے پہلو نکل آتے ہیں۔ان میں ایک واضح فرق تو یہ
ہے کہ مضارع سے امکانی حالت سے آ گہی ملتی ہے جب کہ حال حقیقی کیفیت کا
مظہر ہوتا ہے ۔مثالیں :
1۔ اردو : آسمان پر بادل برسے تو گرمی بھاگے ۔ ( مضارع )
دکنی : گگن پر ابھا ل برسے تے گرمی نھاسے ۔ ( مضارع )
اردو : آسمان پر بادل برستا ہے تو گرمی بھاگتی ہے ۔ (حال )
دکنی : گگن پر ابھال برستاہے تے گرمی نھاستی اہے ۔ (حال )
2۔ اردو : اگر وہ بلائے تو بے دھڑک حمایت کرے۔ ( مضارع )
دکنی: اگر وو بولائے تے بے درنگ پِیت رکھے ۔ (مضارع)
اردو : اگر وہ بلاتا ہے تو بے دھڑک حمایت کرتا ہے ۔ (حال )
دکنی : اگر وو بولاتا اہے تے بے درنگ پِیت رکھتا اہے ۔ ( حال )
اُردو زبان اور قدیم دکنی زبان کے لسانی مباحث پر توجہ ہر چند کہیں کہ ہے
نہیں ہے ۔اہلِ زبان کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ زبان کے ارتقائی مدارج
اور لسانی گرامر کے اصولوں پر تحقیق کو شعاربنائیں ۔ نہاد ماہرین لسانیات
کے خلط مبحث کا یہ حال ہے کہ اُنھیں برج بھاشا اور ہندی کو ایک ہی نہال کی
شاخیں قرار دینے میں کوئی تامل نہیں ۔ معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوتابل کہ
دُور کی کوڑی لانے والوں نے یہ بے پر کی اُڑائی ہے کہ اُردو زبان کے سوتے
ہندی زبان سے پُھوٹتے ہیں۔اردواور دکنی کے افعال کا تقابلی جائزہ لینے سے
یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ان دونوں زبانوں نے صدیوں کا سفر مِل کر طے کیا
ہے ۔ یہ بات بھی اپنی جگہ توجہ طلب ہے کہ اُردو کا برج بھاشا سے نکلناابھی
قابل قبول نہیں ۔برج بھاشا کو ہندی کہناصداقتوں کی تکذیب اور حقائق کی
تمسیخ کے مترادف ہے۔ ہندی زبان کو دیو ناگر ی رسم الخط میں لکھنے کے سلسلے
کاآغاز نو آبادیاتی دور میں کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کے قیام( 1800ء )کے
بعد ہوا۔بعض ماہرین لسانیات نے ہندی زبان کو اُردو کے ایک نئے رُوپ سے
تعبیر کیاہے جس نے عربی و فارسی سے اپنا دامن بچاتے ہوئے سنسکرت اور بھاشا
سے زیادہ گہرے اثرات قبول کیے ہیں ۔اردو زبان اورقدیم دکنی زبان کی تشکیل
،ارتقا ، معنوی نوعیت،ار تباط اور اثرات کو زیر بحث لاتے ہوئے اس بات پر
توجہ مرکوز رکھی گئی ہے کہ گرامر کے اصولوں پر بھی روشنی ڈالی جائے ۔
ماہرین عمرانیات اور ماہرین علم بشریات نے معاشرتی زندگی میں انسانوں کے
روّیے اور تکلم کے سلسلے کو لسانی ارتقا میں بہت اہم قرار دیا ہے ۔ کسی بھی
زبان کی تشکیل میں اُس زبان کے ذخیرہ ٔ الفاظ کو کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا
جاتاہے ۔لسانیات اور تخیل کی جولانیوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے گرامر اس کے
بارے میں حقائق کی گرہ کشائی کرتی ہے ۔تقابلی لسانیات ایک ایسی کسوٹی ہے جس
کے وسیلے سے مختلف زبانوں کے مشترکہ مآخذ کے متعلق معلومات حاصل ہوتی ہیں ۔ |