نتیش کمار: آخری جنگ ہے مری خود سے، اور پھر آپ ہار جاؤں گا

نتیش کمار اپنی عمر کے 69 ویں پڑاو میں 31سالہ نوجوان تیجسوی یادو کے سامنے اپنے بقاء کی آخری جنگ لڑ رہے ہیں ۔ تیجسوی یادو کی پیدائش سے 12 سال قبل ہرنوت حلقۂ انتخاب سےنتیش کمار نے 1977 میں اپنا پہلا انتخاب لڑا تھا ۔ ایمرجنسی کے بعد منعقد ہونے والے اس انتخاب میں بہار کے اندر مکمل انقلاب کا نعرہ گونج رہا تھا ۔ جئے پرکاش نارائن کی قیادت میں اٹھنے والی لہر کے سبب متحدہ بہار کی 313 نشستوں میں سے 214پر جنتا دل کو کامیابی ملی تھی مگر نتیش کمار کو شکست فاش سے دوچار ہوگئے ۔ یہ سانحہ اس نتیش کمار کے ساتھ ہوا تھا جو آگے چل کر مرکزی وزیر اور تین مرتبہ بہار وزیر اعلیٰ بنا۔ نتیش کمار نے ہار نہیں مانی اور 1980 میں قسمت آزمائی کی مگر پھر سے ہار گئے اور مایوس ہوکر ٹھیکیداری کے بارے میں سوچنے لگے لیکن وہ جو کہا جاتا ہے کہ ’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ ظالم لگی ہوئی‘ کی مصداق انہوں 1985میں پھر سے پانسا پھینکا اور کامیاب ہوگئے ۔ اسی کے ساتھ کامیابی کا ایک سفر شروع ہوگیا لیکن وہ بھول گئے کہ ہر سفر کی ایک انتہا ہوتی جہاں پہنچ کر وہ ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے تیجسوی کو یاد دلانا پڑ رہا ہے کہ اب آپ تھک گئے ہیں ۔ بہار کی سیاست آپ کے بس کی بات نہیں ۔ یعنی اب سبکدوش ہوکر آرام کرنے کا وقت آگیا ہے۔

رکن اسمبلی کی حیثیت سے آرزو مند نتیش کمار نےاپنی پہلی مدت کار مکمل کرنے سے قبل 1989 میں ایوان پارلیمان کا انتخاب لڑا اور لگاتار 6 مرتبہ کامیابی درج کرائی مگر2004 کے بعد وہ اس سے کنارہ کش ہوگئے ۔ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے بھی نتیش کمار کا پہلا تجربہ خوشگوار نہیں تھا ۔2000 کے صوبائی انتخاب میں جب کسی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی تو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنی کابینہ کے وزیر زراعت کو وزیر اعلیٰ بناکر بہار روانہ کردیا۔ اٹل کی پہلی حکومتجس طرح 13دن بعدٹل گئی تھی اسی طرح نتیش بھی 7دن بعد ناکام ہوکر لوٹ گئے۔ نومبر 2005 میں وہ دوسری بار وزیر اعلیٰ بنے اور بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی مگر 2014 کے قومی انتخاب سے قبل این ڈی اے سے الگ ہوگئے اور پارلیمانی انتخاب میں بری طرح ناکام رہے ۔ اس کی ذمہ داری قبول کرکے انہوں نے مئی 2014 میں استعفیٰ دے دیا مگر اسمبلی انتخاب سے قبل اپنے قدیم حریف لالو پرشاد یادو سے ہاتھ ملا کرعظیم اتحاد میں شامل ہو گئے۔انتخاب جیتنے کی خاطر اپنے نامزد کردہ نتن رام مانجھی کو ہٹا کر فروری 2015 میں پھر سے وزیر اعلیٰ بن گئے ۔ اکتوبر کے اندر انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے دو سال بعد نتیش نے پھر سے پلٹی مار کر مودی کا دامن تھا م لیا ۔ این ڈی اے میں شامل ہو کر وہ ابھی تک وزیر اعلیٰ بنے ہوئے ہیں لیکن شاید اب ان کی مہلتِ عمل ختم ہوا چاہتی ہے۔

نتیش کمار نے اپنی 43 سالہ سیاسی زندگی میں اپنی ایک سنجیدہ رہنما کی شبیہ بنائی تھی لیکن آج کل ان کے حالیہ بیانات کو سن کر ایسا لگتا ہے کہ وہ ذہنی توازن کھوتے جارہے ہیں ۔ مثلاً کبھی تو وہ 10 لاکھ نوکری کا مذاق اڑاتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ اس کے لیے روپیہ کہاں سے آئے گا ؟ اور پھر ان کی حلیف جماعت بی جے پی کے 19 لاکھ ملازمتوں کا وعدہ سن کر خاموش ہوجاتے ہیں ۔ بہار میں صنعتوں کی غیر موجودگی کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ساحل سمندر سے دوری کے سبب سرمایہ کاری نہیں ہوتی اور کبھی کہہ دیتے ہیں بہار کی زرخیز زمین پر کار خانے لگانا درست نہیں ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ بہار کا نوجوان ملازمت کے لیے پریشان ہے ایسی منطق کوئی مجنون شخص ہی پیش کرسکتا ہے۔ اس کےردعمل میں لوگ ان کے سامنے ’ نتیش کمار چور ہے یا تیجسوی یادو زندہ باد کا نعرہ لگانے لگتے ہیں‘ تو انہیں نظر انداز کردینے کے بجائے بھڑک کر کہہ دیتے ہیں مجھے ووٹ نہیں دینا ہے تو مت دو یا نصیحت کرتے ہیں کہ اپنے والدین سے پوچھو کہ کیا (لالو کے زمانے میں) اسکول تھا ، سڑک اور بجلی تھی؟ لوگ تعلیم ، صحت اور روزگار پر سوال کرتے ہیں تو بگڑ کر لالو یادو پر ذاتی حملہ کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں’ کچھ لوگوں کے گھروں میں آٹھ تا نو بچے ہیں۔ ان لوگوں کو بیٹی کی پیدائش پر اعتقاد نہیں ہے۔ کئی بیٹیاں پیدا ہونے کے بعد ایک بیٹا پیدا ہوا‘۔ یہ غیر اخلاقی بدزبانی تو آتش کے اس شعر کی مصداق ہے ؎
لگے مُنہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا

ماضی میں اعتدال پسند اور پرسکون نظر آنے والے نتیش کمار حالیہ دنوں میں تیجسوییادو کی انتخابیجلسوں میں عوام کا جم غفیر دیکھ کر بوکھلا ہٹ کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس کے جواب میں دوسری طرف تیجسوییادواسے اپنے حریف کی جسمانی اور ذہنی تھکن پر محمول کررہے ہیں۔ تیجسوی کے مطابق کثیرالعیال والی بات وزیراعظم نریندر مودی پر بھی لاگو ہوتی ہے کیونکہ ان کے بھی6 بھائی بہن ہیں۔ تیجسوی نے یہ الزام بھی لگایا کہ یادو خاندان کے کندھے پر بندوق رکھ کر نتیش کمار دراصل وزیراعظم کو نشانہ بنارہے ہیں جن کی6 بھائی بہن ہیں۔ تیجسوی کے مطابق وزیر اعلیٰ کےاس بیان سے عام خواتین اور خاص طور پر ان کی والدہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ اسی کے ساتھ وزارت اعلیٰ کی کرسی کے دعویدار نے اپنے ٹوئیٹ میں یہ بھی لکھا کہ نتیش جی کی جانب سے استعمال کئے جانے والے خراب الفاظ بھی ان کے لئے دعا اور آشیرواد ہیں۔ یہ بالکل درست تبصرہ ہے کیونکہ اس طرح کی بدزبانی سے وزیر اعلیٰ کی رہی سہی عزت بھی خاک میں مل رہی ہے اور اس کا اہتمام خودان کی جانب سے ہورہاہے ۔ ایسے میں سونیا گاندھی کا یہ بیان درست معلوم ہوتا کہ :’’ بہار کی اس یر غمال حکومت کے خلاف ، اگلی نسل ،ایک نئے بہار کی تعمیر کےلئےتیار ہے ۔یہ تبدیلی کی بیار ہے۔ کیونکہ تبدیلی جوش ہے ،توانائی ہے،نئی سوچ ہے اور طاقت ہے۔ اب بہار میں ایک نئی عبارت لکھنے کا وقت آگیا ہے‘‘۔

وزیر اعظم اپنے وزیر اعلیٰ کی اصلاح کرنے کے بجائے اخلاقی انحطاط میں ان سے دو قدم آگے بڑھ گئے ہیں ۔ مظفر پور کے اندر ایک جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے مودی جی نے کہا بہار کے عوام کو ’جنگل راج کے یوراج ( شہزادے) سے ان کی قدیم روایت کے پیش نظر کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ اس (تیجسوی) کے کام کا جائزہ پرانی کارکردگی کی بنیاد پر لینا چاہیے ۔ اس بابت عوام ان سے بہتر جانتے ہیں۔ اس بیان میں وزیر اعظم نے نتیش کمار کو بھی مات دے دی ۔ حالیہ انتخاب کے اندر نہ تو لالو پرشاد یادو اور نہ ان کی اہلیہ رابڑی دیوی اقتدار کی دعویدار ہیں اس لیے ان کے دور کو یاد کرنا بے محل ہے۔ اس کے علاوہ والدین کی نام نہاد غلطی کے لیے اولاد کو موردِ الزام ٹھہرانا سراسر نا انصافی ہے۔ یہ بات اگردرست ہے تو مودی جی کو ایمرجنسی کے دوران سب سے زیادہ بدنام ہونے والے سنجے گاندھی کی اہلیہ مینکا گاندھی اور ان کے بیٹے ورون گاندھی کو ٹکٹ دے کر رکن پارلیمان نہیں بنانا چاہیے تھا اور مینکا گاندھی کو وزارت سے نوازنا بھی غلط تھا ۔ 1984 میں اٹل بہاری واجپائی کو ہرانے والے مادھو راو سندھیا کو ہرانے والے مادھو راو سندھیا کا بیٹا جیوتر دیتیہ سندھیا کو بی جے پی نے رکن پارلیمان نامز دکیا ہے۔ دراصل اس طرح کی گھٹیا الزام تراشی وہی کرتا ہے جو شکست کے امکان سے بوکھلا گیا ہو۔

وزیر اعظم کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے کانگریس رہنما راہل گاندھی نے بہار کے چمپارن میں انتخابی ریلی کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس نے ملک رائٹ ٹو فوڈ ، کسانوں کا قرض معافیاور نوجوانوں کو روزگار دیا لیکن ایک کمی ر ہ گئی وہ جھوٹ بولنے میں ان (مودی) کا مقابلہ نہیں کرسکی ۔ مودی کے مندر اور جنگل راج کے جواب میں راہل گاندھی نے کورونا کی وجہ سے لگائے گئے لاک ڈاون کے دوران مہاجر مزدوروں کو ہونے والی تکالیف کا تذکرہ کیا ۔ انہوں نے کہا دو کروڑ نوجوانوں کو روزگار دینے کا وعدہ کرنے والوں نے لوگوں کو نوکری سے نکلوا کر بھگا دیا ۔ لاکھوں بہاریمزدور ہزاروں کلومیٹر پیدل چل کر واپس آئے ، پینے کا پانی نہیں تھا ، کھانا نہیں تھا ، ٹرین نہیں ملی ، بس بھی نہیں ملی ، مودی جی نے سب کو پیدل بھگادیا ۔ وہ بولے وزیر اعظم کو لاک ڈاون کرنا تھا تو کرتے ، لیکن دو تین دن کا وقت دیتے تاکہ لوگ ٹرین سے گھر آجائیں ۔ نوٹ بندی کی بغیر انتباہ کے ایک جھٹکے میں لاک ڈاون لگا دیا۔ مودی جی ان مسائل پر نہیں بولتے کیونکہ چند سال قبل انہوں نےچمپارن میں آکر کہا تھاکہ یہ گنے کا علاقہ ہے چینی مل لگواوں اور اگلی بار آؤںگا تو یہاں کی چینی چائے میں ملا کر نوش کروں گا۔ مودی جی تو بڑی آسانی سے اپنا وعدہ بھول گئے لیکن بہار کی عوام کو اچھی طرح یاد ہے۔ امید ہے اس بار بہار کےرائے دہندگان وزیر اعظم کو کڑوی چائے پلا کر ان کا وعدہ یاد دلائیں گے ۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450920 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.