شنید ہے کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے قائد کا
پارلیمانی کیرئیر قریباََ اختتام پزیر ہوچکا ۔ سابق وزیراعظم نے جو ’’نیا
بیانیہ‘‘ اپنایا ، اس کے تابوت پر آخری کیلیں ، انہی کی جماعت کے رہنما
ٹھونک رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کی وطن واپسی کس صورت ہوگی ، اس پر یقینا یہ
ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جب تک وہ خود نہ چاہیں ، ان کی واپسی کا کوئی امکان
نہیں ، اس پر بھی کوئی دو رائے نہیں کہ میاں صاحب، کلثوم نواز صاحبہ کی
بیماری کے باوجود،جس طرح واپس آئے تھے، تلخ تجربے کے بعد رسک دوبارہ لینے
کے لئے تیار نہیں ۔ مملکت میں اُن کے واپسی کے لئے سیاسی ماحول قطعی سازگار
نہیں ، اگر پارلیمنٹ میں’ شومئی قسمت ‘ ان کے جماعت کی دوتہائی اکثریت ، گر
آ بھی جاتی ہے تو آئینی ترمیم کرکے ہی وہ پارلیمانی سیاست میں کوئی کردار
ادا کرسکتے ہیں ، تاہم موجودہ حالات میں حکومتی منصوبہ بندی، انہیں کمزور
کرنے پر ٹھیک ٹھاک کام کررہی ہے۔
پی ڈی ایم کی سمت کا حقیقی تعین ماہ جنوری میں ہوگا ، تاہم یہ بھی تصور کر
لیا جائے کہ پی ڈی ایم کامیاب ہوجاتی ہے، تو بھی نواز شریف کوپارلیمانی
سیاست میں آنے کا سہل وجلد راستہ ملنے کے کوئی امکان نہیں ۔میاں صاحب جو
سوالات اٹھا رہے ہیں ، یا اپنی تقاریر سے ہٹ کر جو’ کچھ ‘ ثابت کرنا چاہتے
ہیں، تو ان کی یہ مشق فضول قرار دی جا رہی ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے
رہنما ؤں کے بے موقع سوالات اٹھا نے و بیانات دینے پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ
ان کی جماعت مفاہمت کی سیاست سے خود کو مزید دور کرتی جا رہی ہے۔ حکومتی
وزرا ء انہیں مشتعل کرتے ہیں اور جس طرح خود پر کی جانے والی تنقید یا
الزامات کا رخ ریاستی اداروں کی جانب موڑ دیتے ہیں ، اُس پر تمام سیاسی
جماعتوں کو غور فکر کی ضرورت ہے۔ حکومتی وزرا ء و اراکین کھل کر حزب
اختلافات کے بیانات کو ریاستی اداروں سے نتھی کررہے ہیں ، جو وقتی طور پر
تو انہیں فائدہ دے رہا ہوگا ، لیکن عملی طور پر خدا نخواستہ یہ بڑے نقصان
کا سبب بن سکتا ہے۔ اپوزیشن میں اختلافات یا پی ڈی ایم کو ناکام بنانے کے
جو سیاسی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں ، یہ پی ٹی آئی کا حق ہے کہ وہ اپنے
خلاف محاذ کو کس طرح کمزور کرسکتے ہیں ، لیکن بدقسمتی سے اپوزیشن کے بیانات
اتنے افراتفری پیدا نہیں کررہے ، جتنا حکومتی اراکین کی بے محل تکرار۔
میاں نواز شریف شاید اس اَمر کو سمجھ چکے ہیں کہ وطن واپسی کا انہیں کوئی
پارلیمانی فائدہ نہیں مل سکے گا ، کیونکہ ایک طویل طریق کار اپنانے کے لئے
ان کی جماعت کو بھاری اکثریت حاصل کرنا ہوگی ، ان کے لئے یہ دشوار گذار
مرحلہ طے کرنا حقیقی معنوں میں بڑا کٹھن ہے ، اگریہ سمجھا جائے کہ
پارلیمانی سیاست میں نہ آنے پر، ان کے خاندان کے کسی بھی’ فرد‘ کے سر پر
اقتدار کا ہما بیٹھا دیا جائے، تو بظاہر ساتھ کھڑے غیر فطری اتحادی ، انہیں
یہ موقع دینے کے لئے تیار نہیں۔یہی صورتحال دیگر جماعتوں کے ساتھ بھی ہوگی
کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) ان کے لئے کھلا میدان نہیں چھوڑ سکتی ۔ تاحال ایک
نکاتی ایجنڈا ، عمران خان کو گرانا ہی ہے ، لیکن مستقبل کے لئے اپوزیشن میں
باہمی اعتماد کا فقدان عیاں نظر آتا ہے۔ بالخصوص پی ایم ایل (ن) میں
اختلافات کی نوعیت بڑھتی و سنگین ہوتی جارہی ہے، جو ان کے لئے ناقابل
برداشت جھٹکا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
یہاں دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ ماضی میں سننے میں آتا تھا کہ انکل سام کی
منظوری کے بغیر کوئی سیاسی جماعت حکومت سازی نہیں کرسکتی ، اس حوالے سے کئی
تاریخی حوالے موجود ہیں ، تاہم اب یہ سننا قریباََ ختم ہوچکا کہ’’ امریکا ،
اپنی مرضی کی حکومت بنانا چاہتا ہے‘‘۔ شاید اس بیانیہ کو سرد خانے میں ڈال
دیا گیا ہے یا پھر سیاسی جماعتوں کے ناتواں وجود میں اتنی قوت آچکی ہے کہ
حکومت بنانے کے لئے امریکا کی خوشنودی کو زندان میں ڈال چکے ،کیونکہ امریکا
مخالف جماعتوں کی جانب سے بھی اس قسم کی الزام تراشیاں سامنے نہیں آئی ، اس
لئے شایدیہ کہا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز میں حکومت سازی کا معاملہ اب داخلی
ہوچکا اور سیاسی جماعتوں کی ترجیحات بھی تبدیل ہوچکی ہیں ۔
سیاست اور ذاتی مفادات وطن عزیز سے بڑھ کر نہیں ہونے چاہیں ، قومی سیاست ہو
یا علاقائی (صوبائی)تمام اکائیوں کو وطن کی سلامتی کو مقدم رکھنا ضروری ہے
۔ ماضی میں جو غلطیاں کی جاتی رہی ہیں ، سب کو اس سے سبق حاصل کرنے کی
ضرورت ہے ۔میاں نواز شریف اور مریم نواز کی سیاسی زندگی کی لائن ، ان کی
جارحانہ بیانات کے رحم و کرم پر ہے ۔ بظاہر پاکستان مسلم لیگ (ن) جارحانہ
نظر آرہی ہے لیکن ان کے مفاہمتی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، جس
کی ایک شکل ثنا اﷲ زہری و محسن داوڑ کو تینوں جلسوں بالخصوص کوئٹہ جلسہ میں
نظر انداز کرنا ہے۔اس عمل سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ،مفاہمت کے راستے کے لئے
پس پردہ ممکنات کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے۔ ورنہ پی ٹی ایم کو اپنے جلسوں
میں تقریر کرنے سے نہیں روکتے۔پشتون تحفظ موومنٹ کے سخت گیر اراکین اسمبلی
، اپنے تند و تیز بیانات و ریاست مخالف پالیسی کی وجہ سے کسی بھی سیاسی
جماعت کے خطرہ قرار دیئے جاتے ہیں، آل پارٹیز کانفرنس میں پی ٹی ایم کی
شرکت کی حد تک تو معاملہ کنٹرول میں رہا، لیکن جلسوں میں پی ٹی ایم کے
ریاست مخالف نعرے لگنے پر پی ڈی ایم کا سفر وقت سے پہلے ختم ہو سکتا ہے ،
شایدیہی وجہ ہے کہ ریاست مخالف بیانیہ میں سیاسی مفادات کے حصوؒ ل کا عنصر
نمایاں جھلکتا نظر آتا ہے اور پی ٹی ایم کو احتجاجی جلسوں سے دور رکھا
جارہا ہے۔
نواز شریف بشمول پی ڈی ایم کو ریاست مخالف بیاینے پر نظر ثانی کرنے کی
ضرورت ہے ، کیونکہ ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کی میڈیا منجمنٹ مضبوط ہے ،
وہ اُن کے ہر بیانیہ کو اپنے گردن سے اُتار کر ریاستی اداروں کو آگے کرنے
کی کوشش کرتی نظر آتی ہے اور اب تک اپنی اس حکمت عملی میں کامیابی سے عمل
پیرا ہیں۔میاں نواز شریف کو سیاسی طور پر خود کو زندہ رکھنا ہے، تو انہیں
جذبات سے مغلوب بیانات سے گریز کی راہ اختیار کرنا ہوگی ، وگر ان کے مقابلے
میں پی ٹی ایم موجود ہے ، انہیں اگر سب کچھ جلد لیپٹنا ہے تو پھر پی ٹی ایم
کو موقع دے دیں ، اس لئے مشورہ دیا جارہا ہے کہ باؤ جی ریٹائرہوجائیں ْ؟۔
|