"نامید نہ ہو ان سے اے رہبرِ فرزانہ" کا نعرہ لگا کر صدی
کے عظیم مفّکر نے صدی کے عظیم راہنما کو وطن واپس آنے کی دعوت دی۔ دعوت
قبول کی گئی اور پھر اس راہنما نے دن رات ایک کر کے مسلمانان ہند کے لیے
ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کیا اور پھر پکار کر کہا کہ آؤ اب اس زمین پہ اپنا
گھر بنانے کے لیے یہاں کی بنیادوں کو مضبوط بناتے ہیں۔بنیادوں پہ کام شروع
ہوا، ایمان، اتحاد اور تنظیم کے مواد کو بنیادوں کی مضبوطی قرار دیا گیا
لیکن جان لیجیے کہ اس وقت جو لوگ اس گھر میں رہنے کے متمنّی تھے وہ سبھی اس
گھر کے سگے نہیں تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو نفرت، بدلہ اور سازش کے
سازوسامان سے لبریز اس گھر کی تعمیر سے پہلے ہی اسکی تباہی کے خواب دیکھ
رہے تھے مگر افسوس اس بات کا ہے اس گھر کے ساتھ کئی ارمان سجائے، اُس وقت
کے معصوم لوگ ان آستینوں کے سانپوں کو پہچان نہ سکے۔ خیر بنیادوں کو مضبوط
بنانے سے پہلے ہی عظیم قائد کی صحت کمزور ہونے لگی اور پھر وہ وقت بھی آیا
کہ خراب ایمبولینس میں اپنی آخری سانسیں لیتا اس گھر کا بانی اسی گھر کے
باسیوں کو کھوٹے سکے قرار دیتے دیتے دم توڑ گیا۔ اسکے بعد سے پھر کسی باسی
نے بنیادوں کی بات نہ کی سب کو فکر تھی کہ بس ایک دو کمرہ بن جائے جس میں
ہم تو آرام کریں۔انہی کمزور ترین بنیادوں پہ تعمیر شروع ہوئی۔ایک کے بعد
ایک ٹھیکیدار آتے گئے کمروں پہ کمرے بنتے گئے، ایک ٹھیکیدار اپنا کمرہ بنا
لیتا اسکو آسائشوں سے بھر لیتا تو دوسرا آکر اسکو رستے سے ہٹا کر اپنا کام
شروع کر دیتا اور باہر کام کرتے مزدور بس کام ہی کرتے رہے۔ کبھی کبھی وہ
لوگ جنہیں گھر کی حفاظت کا کام کرنا تھا وہ جب ٹھیکیداروں کو کمروں میں
آرام کرتے دیکھتے تو گھر کے اندر آجاتے اور پھر انہیں کمروں سے نکال باہر
کرتے مگر پھر باہر سے آنے والے محافظ بھی وہی کرنے لگتے جو پہلے اندر والے
لوگ کرتے آرہے تھے۔ اسی دوران اگر کوئی گھر کی کمزور بنیادوں کی بات کرتا
تو وہ آستین کے سانپ جنہوں نے گھر کے معماروں سے اچھی خاصی دوستی کر رکھی
تھی، اسے فوراً ڈس لیتے۔ کمرے والے معمار مزدورں کے دلاسے کے لیے انہی کی
دی گئی رقم میں سے کچھ کو استعمال کر کے کبھی گھر کا صحن پکا کروا دیتے،
کبھی باہر کا دروازہ ٹھیک کروا دیتے اور خوب داد سمیٹنے کے ساتھ ساتھ بقیہ
رقم بھی سمیٹ کر اپنی تجوریوں کو بھرتے رہتے۔بس اسی طرح اس گھر کا نظام
چلتا جا رہا تھا لیکن کیسے چلتا جا رہا تھا یہ حیرت کی بات ہے۔ پھر وہ وقت
آیا کہ ایک دور اندیش، عظیم مقاصد لیے، ایک معمار اس گھر کی تعمیر کے لیے
منتخب کیا گیا۔ اس نے گھر کی حالت دیکھی تو غصّے سے مجبور وہ پہلے
ٹھیکیداروں کو برا بھلا کہنے لگا۔ یہ بات گھر کے مکینوں کو بہت بری لگی مگر
گھر کے نوجوان اس نئے ٹھیکیدار سے بہت خوش تھے کیونکہ وہ گھر کی بنیادوں کی
بات کر رہا تھا، آخر کئی سال بعد پھر کسی نے بنیادوں کو دیکھنے کی بات کی
تھی۔۔مگر وہ تو اب برباد ہو چکی تھیں اور برباد بنیادوں کا گھر بس کچھ
لمحوں کا گھر ہوتا ہے۔۔۔اب اسے بہت کام کرنا تھا۔ ظاہری دروازوں، کھڑکیوں
کی مرمت کو پس پشت ڈالے وہ ایک ایک دیوار کو دیکھتا رہا۔ ہر دیوار گرنے
والی تھی اور وہ اسے فقط اوپر سے مرمت کرنے والا نہیں تھا۔ اس نے گھر کی ہر
دیوار کو گرا کر انکی بنیادوں کو مضبوط کر کے پھر سے تعمیر کرنے کا عزم کیا
لیکن گھر کو گِرا کر از سّر نو تعمیر کرنا بہت تکلیف دہ اور کٹھن مرحلہ
ہوتا ہے مگر وہ اس کام کا ارادہ کر چکا تھا اور آج بھی، وہ اسی کوشش میں
مصروف عمل ہے۔۔ کوئی شک نہیں کہ اسکے ساتھ کام کرنے والے وہی پرانے کمروں
میں آرام کرنےوالے ٹھیکیداروں کے ساتھ کام کرنے کے عادی ہیں اس لیے مشکلات
بڑھ گئی ہیں۔ آستین کے سانپ اپنے زہر کو اور بھی زہریلہ کر کے بیٹھے ہیں
اور جب جب موقع ملتا ہے وہ وار کر رہے ہیں۔ مگر سب سے بڑی مشکل سب سے بڑا
مسئلہ تو اس گھر کے وہ باسی ہیں جنہیں یہ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ ابھی
دیواریں گر رہی ہیں، اسکے بعد بنیادوں پہ کام ہو گا اور پھر تعمیر از سر نو
ہو گی۔۔۔۔مگر وہ دیواروں کے گرنے کو تباہی قرار دیکر آج بھی صحن پکا کرنے
والوں کے نعرے لگارہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|