پاکستان اور اسلامی نظام

یہ کالم پاکستان کے موجودہ نظام کے متعلق لکھا گیا ہے، جس میں اس بات کو ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ پاکستان صرف اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسلامی قوانین ہی اس ملک میں نافذ کیے جائیں۔

از قلم: قاری محمد صدیق اظہری
پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ، برصغیر میں مسلمانوں کی حالت زار اور ہندوؤں سے الگ طرز زندگی نے دو قومی نظریہ کو تقویت دی ہے اور قائداعظم محمد علی جناح کی فہم و فراست کی بدولت پاکستان 14 اگست 1947 ء کو دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اسلامی ریاست بن کر ابھرا۔اسلامی ریاست کے قیام کی خواہش، اسلامی معاشرے کا قیام، اللہ تعالی کی حاکمیت کا تحفظ، اسلامی جمہوری نظام کا نفاذ،دو قومی نظریے کا تحفظ، اردو زبان کا تحفظ و ترقی، مسلم تہزیب و ثقادت کی ترقی، مسلمانوں کی آزادی ، مسلمانوں کی معاشی بہتری، مسلمانوں کی سیاسی و معاشی ترقی، ہندوؤں کے تعصب سے نجات، انگریزوں سے نجات، تاریخی ضرورت، پُرامن فضا کا قیام، کانگرس سے نجات، رام راج سے نجات، اسلام کا قلعہ، ملی و قومی اتحاد اور عالم اسلام قیام پاکستان کے لیے جدوجہد میں تحریک پاکستان کے بنیادی نکات تھے۔

قائداعظم محمد علی جناح نے 23 مارچ 1940 کو قرارداد لاہور میں یہ بات واضح کر دی تھی کہ اسلام اور ہندو مت محض مذاہب ہی نہیں بلکہ دو مختلف معاشرتی نظام ہیں۔ ہندو اور مسلمان آپس میں شادی کرسکتے ہیں اور نہ ہی ایک دسترخوان پر کھانا کھا سکتے ہیں اور متحدہ قومیت قابل عمل نہیں ہے۔پاکستان میں بسنے والی ہر قوم اور مذہب ست تعلق رکھنے والے لوگوں کو تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں۔پاکستان میں، مسیحی، ہندو، سکھ ، پارسی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو تمام اپنی رسومات کی ادائیگی کی مکمل آزادی حاصل ہے، اور ہر مذہب کو ناصرف آزادی بلکہ تمام سہولیات بھی مہیا کی جاتی ہیں اور خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں بسنے والی قلیتوں کو ہر طرح کی مذہبی آزادی حاصل ہے۔

پاکستان میں آنے والی ہر حکومت اقلیتوں کے لیے اقدامات اٹھاتی ہے اور ہونا بھی چاہئیے لیکن موجودہ حکومت نے دیگر اقلیتوں کے مقابلے میں محض ایک قوم کی جانب زیادہ رجحان رکھا ہے اور یہ کوئی اور قوم نہیں بلکہ وہ قوم ہے جس سے علیحدگی کے لیے ہم نے الگ ملک قائم کیا۔جس علحدہ ملک کا خواب علامہ اقبال اور انکے خواب کی تعبیر قائداعظم محمد علی جناح کے ہاتھوں مکمل ہوئیں ، اُس ملک میں مسلمانوں کو آزادی کم اور اقلیتوں کو زیادہ دی جا رہی ہے۔ہر آنے والی حکومت اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتی ہے لیکن مسلمانوں کے حقوق کے لیے اگر کوئی آواز اٹھائے تو اس کی آواز کو دبانے کے لیے اس پہ دہشتگردی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ جس ملک کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہو اس ملک میں مسلمانوں کو فرقہ واریت کے نام سے لڑایا جا رہا ہے۔پاکستان میں موجود تمام مسلمانوں کو اس بات پر غور کرنا چاہئیے کہ آپکو کسی نے آزادی پلیٹ میں رکھ کر نہیں بلکہ آگ اور خون کے دریا پار کرکے یہ آزادی حاصل کی گئی ہے۔ظاہر ہے یہ قربانیاں اور یہ جدوجہد کسی مفاد کے لیے نہیں بلکہ اسلامی نظریے کے لیے پیش کی گئی۔

قائداعظم محمد علی جناح نے جب بھی حصول پاکستان کا ذکر کیا تو ان مقاصد میں ایک ایسی اسلامی ریاست کا قیام سرفہرست تھا جو قرآن و سنت کی فرمانروائی ہو۔21 نومبر 1945 کو فرنٹئیر مسلم لیگ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ" مسلمان پاکستان کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ خود اپنے ضابطہ حیات ، اپنے تہذیبی ارتقاء، اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کرسکیں، ہمارا دین، ہماری تہذیب اور ہمارے اسلامی تصورات وہ اصل طاقت ہیں جو آزادی حاصل کرنے کے لیے متحرک کرتے ہیں۔
"
ہمیں اللہ تعالی سے دعا کرنی طاہئیے کہ یہ ملک جس کام کے لیے بنا تھا اللہ اس کام کی توفیق عطاء فرمائے اور اسلامی نظام قائم کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین
 

Mujeeb ur Rehman
About the Author: Mujeeb ur Rehman Read More Articles by Mujeeb ur Rehman: 3 Articles with 2080 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.