مونگیر کا تشدد اور مونگیری لال کے حسین سپنے

وزیر اعظم نریندر مودی بار بار 15 سال پرانے جنگل راج کی یاد تازہ کرکے بی جے پی کو اقتدار میں لانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان مونگیری لال کے حسین سپنوں کو تباہ و تاراج کرنے کے لیے مونگیر کا تشدد کافی ہےجہاں این ڈی اے کے جنگل راج کا نظارہ ساری دنیا نےکر لیا ہے۔ سوئے اتفاق سے یہ سانحہ بی جے پی کے عظیم دانشور دین دیا ل اپادھیائے کے نام سے منسوب چوک پر پیش آیا ۔ اس دنشادی پور کی مورتی وِسرجن (غرقاب ) کے لیےنکلنے والا جلوس دھیمی رفتار سے بڑھ رہاتھا اسے تیزی سے آگے بڑھانے کے لیے انتظامیہ نے دباو ڈالا۔ اس کی شرکاء نے مخالفت کی تو حالات بگڑ گئے اور اس کو قابو میں کرنے کے لیے پولس نے لاٹھی چارج شروع کر دیا۔اس سرکاری تشدد کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ضلع کےتینوں اسمبلی حلقوں جمال پور، تارا پور اور مونگیر میںووٹنگ ہونی تھی اس لیے انتظامیہ جلدی مچا رہا تھا۔ لاٹھی چارج کے بعد پولس نے کئی راؤنڈ گولیاں چلائیں جس میں دواشخاص کی موت ہو گئی اور تقریباً نصف درجن لوگ زخمی ہو گئے۔ پولس کا دعویٰ ہے کہ کوتوالی انچارج سمیت تین پولس جوان بھی زخمی ہوئے۔

اس سانحہ کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس کے اندر صاف نظر آتا ہے کہ پولس کے لاٹھی چارج اور گولی باری سے مجمع کی بڑی تعداد پہلے ہی بھاگ کھڑی ہوئی ۔ اس کے بعد چند لوگ رہ گئے تو پولس نے انہیں چن چن کر بری طرح مارا ۔ اس ویڈیو میں کوئی ایک بھی آدمی مزاحمت کرتا ہوا نظر نہیں آتا اس کے باوجود پولس نے پہلے تو یہ دعویٰ کردیا لوگوں کی آپسی میں لڑائی میں گولی چلی اور فورس پر پتھر بازی ہوئی ۔ یہ اسی طرح کی کہانی ہے جیسی کے چند ماہ قبل انتظامیہ کو بچانے کے لیے بنگلورو میں گھڑی گئی تھی۔ ظاہر ہے اس جنگل راج کا فائدہ تو حزب اختلاف اٹھائے گا ہی اس لیے کانگریس اور چراغ پاسوان نے نتیش کمار کا موازنہ جنرل ڈائر سے کردیا ۔ تیجسوی یادو نے ہائی کورٹ کی نگرانی میں جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور نائب وزیر اعلیٰ سشیل کمار مودی کو نشانہ بنایا ۔ تیجسوی یادو کے مطابق چونکہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے پاس ہی محکمۂ داخلہ کا قلمدان بھی ہے اس لیے وہ بتائیں کہ ڈی ایم اور ایس پی کو جنرل ڈائر بننے کی اجازت کس نے دی؟فائرنگ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟؟ اور لوگوں کو پیٹا کیوں گیا؟؟؟ ‘‘

یہ سانحہ جس وقت پیش آیا شہر میں الیکشن کی خاطر نیم فوجی دستے موجود تھے اس لیے لوگ اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھے رہے لیکن جب فور س لوٹ گئی تو مشتعل ہجوم نے ایس پی کے دفتر اور ایس ڈی او کی رہائش گاہ پر زبردست توڑ پھوڑ کی ۔ لوگوں نے احتجاجاً کئی گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا اور تھانہ پر پتھراؤ بھی کیا۔اس شدید ردعمل کو کسی بین الاقوامی سازش سے جوڑنے بجائے جیسا کہ اترپردیش میں ہوتا ہے، الیکشن کمیشن نے ضلع کے ڈی ایم اور ایس پی کو فوری طور پر معطل کر دیانیز ڈویزنل کمشنر مگدھ اسانگبا چابے کی نگرانی میں جانچ کے احکامات صادر کر دیئے ۔ تیجسوی یادواس برطرفی کا مطالبہ تین دن قبل کرچکے تھے لیکن اس بابت نتیش کمار سے مجرمانہ کوتاہی ہوئی ۔ وہ اگر خود جاکر یا کسی اہم رہنما کو بھیج کر عوام کے زخموں پر مرہم رکھتے تو یہ غصہ نہیں پھوٹتا ۔ وزیر اعلیٰ اپنے رسوخ کا استعمال کرکے الیکشن کمیشن سے یہ اقدام بہت پہلے کروا سکتے تھے لیکن وہ کمبھ کرن کی نیند سوتے رہے۔

مونگیر سانحہ میں ضلع کی ایس پی لیپی سنگھ پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے جلیانوالا باغ کیمانند نہتے لوگوں پر گولیاں چلانے اور لاٹھیاں برسانے کا حکم دیا تھا۔ نتیش کمار نے اپنے معتمد ِ خاص سابق آئی اے ایس افسر اور جے ڈییو کے رکن پارلیمان آر سی پی سنگھ کی بیٹی بچانے کے لیے ایسا کیا جنرل ڈائر کی مثل ایک ظالم افسر ہیں۔ آر سی پی سنگھ اور نتیش کمار ہم ذات ہیں اور کرمی برادری سے تعلق رکھتے ہیں ۔ نتیش کمار جب وزیر ریلوے تھے تو انہوں نے آر سی پی سنگھ کا اپنے دفتر میں نجی سیکریٹری کے طور پر تبادلہ کروا لیا تھا ۔ اس کے بعد جب نتیش کمار دہلی سے پٹنہ لوٹے تو سنگھ صاحب نے ملازمت چھوڑ کر سیاست کے میدان میں قدم رکھا ۔ ان کا شمار وزیر اعلیٰ کے قریب ترین لوگوں میں ہوتاہے۔ یہ بات بھی کہی جاتی ہے پرشانت کشور کو ان کے ساتھ پنگا لینے کے سبب حاشیے پر ڈھکیل دیا گیا ۔ ایسے میں لیپی سنگھ کی محض معطلی سے نتیش کمار چھوٹ نہیں سکتے ۔

بی جے پی کی بڑی کوشش ہے کہ کسی طرح حالیہ انتخاب کو ہندو مسلم رنگ دیا جائے اسی لیے وزیر اعظم مونگیر میں مرنے والوں کے تئیں ہمدردی جتانے کے بجائے فرانس میں شاتم رسول کی موت پر ٹسوے بہا رہے ہیں۔ وزیر اعظم کو مونگیر تشدد میں دلچسپی نہیں ہے کیونکہ وہاں ہندو سماج اور نتیش انتظامیہ کے درمیان تصادم ہوا ہے ۔ اس موقع پر کانگریس ترجمان رندیپ سرجے والا نے پی ایم مودی سے پانچ سوالات کیے ہیں ۔ پہلا مونگیر میں بے قصورلوگوں پر فائرنگ کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ لاٹھی چارج کی ذمہ داری کس پر ہے؟ فائرنگ میں نوجوان کے قتل کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ ڈی ایماور ایس پی کو بچانے والا کون ہے؟ مونگیر میں جنگل راج کے لیے کون ذمہ دار ہے؟سرجے والا نے انتخاب کے دوران ایس پی اور ضلع مجسٹریٹ کی معطلی کو صرف خانہ پری قرار دیا ہے۔

وزیر اعظم نے مونگیر سانحہ کے بعد بھی شتر مرغ کی طرح اپنا سر ریت میں چھپا کر لالو راج کے جنگل راج کو یاد کیا۔ انہوں نے عوام کو گمراہ کرنے کی اس کوشش میں یہ پیشنگوئی بھی کردی کہ تیجسوی کے آنے سے سرکاری تو دور نجی نوکریاں بھی فرار ہوجائیں گی ۔ ایسا کیوں ہوگا؟ اس سوال کا کوئی جواب وزیر اعظم کے پاس نہیں تھا اور ویسے بھی بھکت نہ سوچتے ہیں اور نہ پوچھتے ہیں اس لیے مودی جی بھی بغیر سوچے سمجھے جو من میں آئے پھینک دیتے ہیں۔ بہار کے اندر تقسیم کار کچھ اس طرح ہے کہ تیجسوی یادو نتیش کمار پر حملہ بولتے ہیں اور راہل گاندھی نریندر مودی کو نشانہ بناتے ہیں لیکن اس بار چونکہ مودی نے ذاتی حیثیت کا الزام لگا دیا اس لیے خود تیجسوی یادو کو اس کا جواب دینا پڑا۔ انہوں نے نہایت پروقار انداز میں جواب دیا :’’وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں اس لیے کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ میں اس پر اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن چونکہ وہ بہار آئے تھے اس لیے انہیں خصوصی پیکیج، بیروزگاری یا اس طرح کے اہم موضوعات پر گفتگو کرنی چاہیے تھی‘‘۔

تیجسوی یادوجانتے ہیں کہ یہی مودی جی کی کمزوررگ ہے۔ وہ چونکہ پانچ سال قبل ایک لاکھ 25 کروڈ کےخصوصی پیکیج کا اعلان کرچکے ہیں اس لیے اب اس پر لب کشائی نہیں کرسکتے ۔ وزیر اعظم ۲ کروڈ نوکریوں کا وعدہ بھی کرکے بھول گئے ہیں اس لیے اب کس منہ سے اس کی یاد دلائیں گے ۔ وزیر اعظم کی سب سے بڑی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر تیجسوی نے کہا :’’وہ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی ہے ۔ اپنی تشہیر کے 30 ہیلی کوپٹرس کا استعمال کررہی ہے لیکن اس کے باوجود اگر وزیر اعظم اس طرح کی بات کرے تو عوام سب سمجھتے ہیں۔ ویسے انہیں غربت، صنعت ، زراعت،اور روزگار پر بولنا چاہیے‘‘۔ تیجسوی کا مطالبہ تو درست ہے لیکن کورونا کے بعد رام مندر کے نام پر تالی بجوانے والوں سے اس کی توقع فضول ہے ۔ مودی جی نےرام مندر کی تاریخ پوچھنے والوں کا مذاق تو اڑایا لیکن بھول گئے کہ ان میں پیش پیش نتیش کمار فی الحال ان کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے کہ نہ وہ اس کو اگل سکتے ہیں اور نہ نگل ہی سکتے ہیں۔ بعید نہیں کہ یہی ہڈی اس بار مودی جی کے گلے کی پھانس بن جائے ؟ ویسے مودی اور نتیش کے کباب میں ایک ہڈی چراغ پاسوان بھی ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450600 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.