ریڈیو پاکستان کے برطرف ملازمین اور ڈی چوک

سینیٹ کا 4 نومبر کو ریڈیو پاکستان کے نکالے گئے ملازمین کے حوالہ سے ہونے والا اجلاس کرونا کے باعث ملتوی ہو گیا، اور کہا جا رہا ہے کہ اب یہ اجلاس 11 نومبر کو ہونے جا رہا ہے، جس میں ریڈیو پاکستان کے نکالے گئے 1020 ملازمین کی بحالی کا معاملہ زیر غور لایا جائے گا۔ راوی کہتا ہے کہ شاید یہ اجلاس 11 نومبر کو بھی نہ ہو پائے، کیونکہ یہ اجلاس ریڈیو پاکستان میں موجود بھاری تنخواہیں لینے والے مافیا کے دباؤ پر موخر کیا گیا ہے، اور اگر اجلاس ہو پایا تو ریڈیو پاکستان میں موجود مافیا نے اس بابت منصوبہ بندی کر لی ہے، سینیٹ اجلاس کو باور کرایا جائے گا کہ ریڈیو پاکستان سوا ارب روپے کے خسارہ میں چل رہا ہے، اس لئے ان ملازمین کو رکھنے سے ادارہ پر مزید بوجھ بڑھے گا، اگر ریڈیو کا مافیا سینیٹ میں یہ نہ کہے تو ریڈیو کے ان کنٹریکٹ ملازمین جن کی تنخواہیں 25 ہزار سے کم ہیں اور وہ 10 سے 20 سال سے ریڈیو میں کام کر رہے ہیں کو نکالنا غیر قانونی قرار پاتا ہے؟ اور ان چھوٹے ملازمین کو نکالنے والے مافیا کا یہ ایک اقدام غلط قرار پاتا ہے اور انہیں نکالنے والوں کی اپنی نوکریاں داؤ پر لگ جاتی ہیں۔ بقول راوی ریڈیو پاکستان کے خسارے کے اصل حقائق یہ ہیں کہ پنشن کی مد میں 86 کروڑ 24 لاکھ روپے سالانہ، تنخواہوں اور الاؤنسز کی مد میں دو کروڑ 20 لاکھ روپے سالانہ، ٹی وی پروگرامز کی تیاری کی مد میں دو کروڑ 50 لاکھ 10 ہزار روپے، ٹی وی اسٹیشنز کو چلانے کی مد میں 5 کروڑ 41 لاکھ روپے، مینجمنٹ کے اخراجات 1 کروڑ 20 لاکھ روپے سالانہ ہیں، یوں 94 کروڑ 27 لاکھ روپے ریڈیو پاکستان کے کل سالانہ اخراجات ہیں جن میں سے 86 کروڑ 24 لاکھ روپے سالانہ ریڈیو پاکستان کے ریٹائرڈ پنشنرز کو دیئے جاتے ہیں، واضح رہے کہ پنشنر کو دی جانے والی رقم وفاقی ادارہ نے ادا کرنا ہوتی ہے، کیونکہ ہر ملازم کی تنخواہ میں سے کٹوتی ہونے والی رقم بعد میں پنشن اور ماہانہ اعزازیہ (پنشن) کی صورت میں دی جاتی ہے۔پنشن کی رقم کو کوئی بھی محکمہ اپنے اخراجات کی مدات میں ظاہر نہیں کرتا کیونکہ پنشنرز کو کی پنشن کی ادائیگی وفاقی یا صوبائی حکومت نے کرنا ہوتی ہے۔

حالیہ دنوں میں خسارہ کو بنیاد بنا کر 20 اکتوبر 2020 تک ملک بھر کے 32 ریڈیو اسٹیشنز سے نکالے گئے 1020 ملازمین جن میں خواتین بھی شامل ہیں اور ان کے خاندان اپنے حق اور ملازمت پر بحالی کیلئے ڈی چوک اسلام آباد میں ہر روز دھرنا دیتے اور احتجاج کرتے ہوئے ارباب اختیار سے اپنے مطالبات منظور کروانے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں، ڈی چوک وہ جگہ ہے جہاں آئے روز احتجاج ہوتا رہتا ہے، کبھی اس چوک میں اپوزیشن پڑاؤ دیتی ہے ، کبھی کلرک رہنما اس چوک میں ڈیرہ لگائے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی اساتذہ اور کبھی لیڈی ہیلتھ ورکرز حتی کہ تمام مکاتب فکر کے احتجاج کا گڑھ اسلام آباد کا یہ ڈی چوک ہوتا ہے، پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 126 دن کا تاریخی دھرنا بھی اسی چوک میں دیا تھا، ریڈیو پاکستان کے نکالے گئے ملازمین بھی 17 روز سے ڈی چوک میں احتجاج کر رہے ہیں، دوران احتجاج ایک برخاست ملازم زندگی سے ہاتھ دھو چکا ہے، چولہے ٹھنڈے ہونے کے صدمہ کے باعث کئی ملازمین دل کے عارضہ میں مبتلاء ہو چکے ہیں۔ مگر حکومت کے کسی ذمہ دار نے ریڈیو پاکستان کے ان ملازمین کی بحالی کے معاملہ کو سنجیدہ نہیں لیا، کیونکہ یہ معاملہ ان کنٹریکٹ ملازمین کا ہے جو انتہائی کم تنخواہ پر کام کر رہے تھے، ہمارے ملک کا یہ المیہ ہے کہ کسی شہر یا علاقہ میں کو غیر معمولی واقعہ ہو جائے تو اس صوبہ کا وزیر اعلی اور وزیر اعظم اس واقعہ کا نوٹس لے لیتے ہیں اور معاملہ میڈیا میں ہائی لائیٹ ہو جائے تو ملک کی معزز عدالت عظمی بھی اس واقعہ کا سوموٹو ایکشن لے لیتی ہے، تو پھر بیورو کریسی کی پھرتیاں دیکھنے والی ہوتی ہیں، مگر یہاں ریڈیو پاکستان کے 1020 ملازمین کو بیک جنبش قلم فارغ کر کے ان کا معاشی قتل کر دیا گیا، ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے، بچے سکولوں سے نکال دیئے گئے، برطرف ملازمین ادویات تک سے محروم ہو گئے، کیونکہ انہیں چار ماہ کے بقایاجات تک ادا نہ ہوئے ، جس بناء پر ریڈیو پاکستان کے نوکریوں سے نکالے گئے متاثرہ چھوٹے ملازمین ڈی چوک میں دھرنا دیئے ہوئے ہیں، مگر اس پر نہ تو وزیر اعظم کا کوئی رد عمل آیا اور نہ ہی کسی عدالت کے جج کو سوموٹو لینے کی ہمت ہوئی، آخر ایسا کیوں ہے کیا ریڈیو پاکستان کے نکالے گئے یہ ملازمین پاکستانی شہری نہیں ہیں۔ جن کے مسلسل احتجاج پر آج تک حکومت کے کسی ارباب اختیار نے احتجاجی مظاہرین کی دلجوئی تک نہیں کی، حکومت کے ذمہ داران نے ریڈیو پاکستان کے ان نکالے گئے ملازمین کے معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا۔ اور ریڈیو پاکستان کے معاملات کی انکوائری کیلئے کوئی شفاف کمیٹی تشکیل دی گئی، ذرائع کہتے ہیں کہ اگر وزیر اعظم عمران خان یا وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز ریڈیو پاکستان کے معاملے پر کمیٹی تشکیل دے کر شفاف انکوائری کرائیں تو درجنوں کی تعداد میں سیاسی ادوار میں بھرتی کیے جانے والے بڑے عہدوں پر لاکھوں روپے تنخواہیں حاصل کرنے والوں کی نوکریاں خطرے میں پڑ جائیں گی؟ جنہیں صرف سیاستدانوں نے مختلف ادوار میں نوازنے کیلئے ریڈیو پاکستان میں لاکھوں روپے معاوضہ پر بھرتی کروایا مگر وہ ریڈیو کی حرف ابجد سے بھی واقف نہیں، اگر ان غیر ضروری طور پر ریڈیو پاکستان کے مختلف اسٹیشنز میں گھسے بیٹھے بڑے مگر مچھوں کی سکروٹنی کر کے ان کی جگہ ان معمولی تنخواہ والے ملازمین جو کہ ریڈیو پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں کو ایڈجسٹ کر دیا جائے، تو بھی معاملہ حل ہو سکتا ہے۔ مگر ایسا کب ہو گا؟ ایسا تب ہو گا جب وزیر اعظم پاکستان عمران خان، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز ریڈیو پاکستان کے معاملہ کو شفاف بنانے کیلئے از خود دلچسپی لیں گے ورنہ اگر یہی صورتحال رہی تو ریڈیو پاکستان جو کہ ایک تاریخ ساز ادارہ ہے کی کشتی ڈوبتی نظر آ رہی ہے؟
 

Akram Aamir
About the Author: Akram Aamir Read More Articles by Akram Aamir: 50 Articles with 29652 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.