یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کابل میں امن
کا راستہ اسلام آباد سے ہوکرجاتا ہے ۔تاہم یہ راستہ اب تک غیر ہموارہے۔
افغانستان میں سیاسی تصفیئے کے فروغ کے لئے پاکستان کے حالیہ اقدامات کا
خیرمقدم کرتے ہوئے اسے کارآمد اورواضح قرار دینے کے باوجود نہایت ذہانت کے
ساتھ شک کاایک عنصر بھی شامل کرلیاگیاہے۔
لاہور سے شائع ہونے والے ایک ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز کے مطابق پاکستانی
آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی اورانٹرسروسز انٹیلی جنس ڈاریکٹوریٹ آئی
ایس آئی کے سربراہ شجاع پاشا حال ہی میں کابل کے کئی چکرکاٹ چکے ہیں۔ وہ
شدت کے ساتھ افغان صدرحامدکرزئی اورحقانی۔حکمت یار۔طالبان نیٹ ورک کے
درمیان مفاہمت کرانے کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔
جنرل کیانی کا روڈ میپ تین متعلقہ عناصر سے منسلک ہے۔ پہلا عنصر یہ کہ
پاکستان اور انڈیا کے درمیان امن کی ضرورت ہونے کے باوجود پاکستان کی قومی
سلامتی کی ڈاکٹرائن کا تقاضا ہے کہ امن کی خواہش کے اظہار کی بجائے انڈیا
کی افغانستان میں فوجی توسیع کی استعداد اورعلاقائی اثرورسوخ کا وزن
کیاجائے کیونکہ خواہشات توکسی بھی وقت تبدیل ہوسکتی ہیں۔ اس لئے انڈیا
بدستور ایک خطرہ ہے۔
دوسرے یہ کہ پاکستان کے لئے یہ ضروری ہے کہ انڈین عنصر کے باعث افغانستان
میں حکومت غیر جانبدارنہیں بلکہ دوستانہ ہونی چاہئے۔ نئی دہلی بلوچستان کو
غیر مستحکم کررہا ہے۔ اسے کابل میں اپنے پنجے گاڑنے کی اجازت نہیںدینی
چاہئے۔ماضی میں کابل میں قائم ہونے والی کمیونسٹ یا بھارت نواز حکومتوں نے
ڈیورنڈ لائن کوپاکستان اورافغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد کی حیثیت
سے تسلیم کرنے سے انکارکردیا اور پاکستان کے پختون علاقوں پربھی
اپنااثرورسوخ استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اس صورتحال کوپیش نظر رکھتے ہوئے
اسلام آباد کویہ ضمانت حاصل کرنی ہوگی کہ افغانستان کے پختون قومیت کے لئے
کابل کی طرف دیکھیں جبکہ پاکستان کے پختون جوکہ تعداد میں افغانی پختونوں
سے زیادہ ہیں ان کی اسلام آباد کی طرف دیکھنے سے توجہ نہیں ہٹائی جائے گی
اس لئے کہ پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ افعانستان یں نرم اسٹراٹیجک گہرائی
قائم کی جائے۔ تیسرے یہ کہ اوباما کی زیر قیادت افغانستان میں امریکی جنگ
کے خلاف عوامی رائے عامہ ڈگمگارہی ہے جس پرغور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ
پاکستانی کیس کوآگے بڑھانے کےلئے بہترین وقت ہے۔ کابل میں ایک پاکستان دوست
حکومت کے قیام کے بدلے میں کرزئی حقانی، حکمت یار نیٹ ورک سے اقتدار میں
شراکت کرکے امریکہ کوافغانستان سے باعزت طورپر رخصت ہونے کا موقع فراہم
کرسکتے ہیں۔
یہ تجزیہ دواہم واقعات کے تناظر میں تصویر کا ایک نیا رخ پیش کرتاہے۔
صدراوباما کے وسط مدتی جائزے میں اپنی کامیابی کےلئے افغانستان میں فوجیوں
کی تعداد میں اضافہ کے بغیر 2011ءکے اختتام تک امریکی فوجوں کی واپسی کے
لئے ایک ڈیڈ لائن کا سگنل دیاگیاجبکہ شمال مغرب میں سوات اورملحقہ علاقوں
میں پاک فوج پرپاکستانی طالبان کے سخت حملوں سے ماضی کے برخلاف انہیں
مفاہمتی معاہدہ امن کی پیشکش کی بجائے ان کے خلاف سخت جنگ کاآپشن اختیار
کیاگیا۔اب یہ پاکستان کے لئے زندگی اورموت کا معاملہ ہے کہ وہ افغان طالبان
کی القاعدہ سے علیحدگی اورکرزئی سے معاملات طے کرنے کی حوصلہ افزائی کرے۔
دوسری جانب اندرون ملک پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائی کے ذریعے القاعدہ
اورطالبان کے درمیان تعلق کاخاتمہ کرے۔
گزشتہ فروری میںجنرل ڈیوڈ پیٹارس نے جوکہ اب افغانستان کے انچارج ہیں اس
وقت ایف پاک پالیسی میں ”حقائق پسندی“ کا ایک نیا اشارہ دیاجب انہوں نے
اعتراف کیا کہ افغانستان میں طالبان کی مفاہمت کے لئے پاکستان کے مثبت
اقدامات کی بنیاد پر ماضی میں عسکریت پسندوں سے اس کے گہرے تعلقات ہیں جنرل
پٹیارس نے اعتراف کیا کہ سینئرافغان رہنماﺅں کے درمیان مفاہمت کی تجویز
جاندار نہیں کیونکہ فوج کی تعداد میں اضافہ کے باوجود نیٹواورایساف اب تک
ایسے طالبان رہنماﺅں کو سیکورٹی کی ضمانت نہیں دے سکتی جوامن کی خاطر آگے
آنے کے خواہشمند نہیں۔
اب سے بھی زیادہ اہم یہ کہ جنرل پٹیارس نے ان باغیوں(مثلاً حقانی گروپ) کے
خلاف پاک فوج کی جانب سے وسیع پیمانے پرکسی کارروائی کے امکانات کومسترد
کردیا کیونکہ پاک فوج سوات اورجنوبی وزیرستان میں پہلے ہی پاکستانی طالبان
کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کے لئے لڑائی میں مصروف ہے۔ انہوں نے نقادوں
پربھی اظہار برہمی کیاجوپاکستانی فوج کے اقدامات کونہیں سراہ رہے ہیں۔
پاکستان نے عسکریت پسندوں کے خلاف 140,000فوجیوں کومتحرک کررکھا ہے جوکہ
افغانستان میں43ممالک کے 100,000 فوجیوں سے بہت زیادہ ہیں۔ اس کے 230فوجی
جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ اسے اندرونی طورپر بے گھرہونے والے20لاکھ افراد کی
بحالی کاچیلنج درپیش ہے ۔جنرل پٹیارس کے یہ ریمارکس ایک نئی زبان ہے کیونکہ
قبل ازیں امریکی کمانڈرپاکستان سے طالبان کے خلاف ڈومورکامطالبہ کرتے رہے
ہیں۔
پینٹاگون کی پوزیشن میں ڈرامائی تبدیلی کا سبب دواہم عناصرہیں۔ پہلی تو
گزشتہ 8برسوں کے دوران افغانستان میں نیٹوایساف کی اپنے کسی بھی مختصر یا
طویل المدتی مقاصد میں ناکامی۔ دوسرے نیٹو کی جانب سے مقررہ ٹائم فریم کے
دوران 140,000سپاہیوں پرمشتمل افغان فوج کی تشکیل نومیں ناکامی اوراس سال
زمینی اقدامات میں تیز رفتارناکامی کا کھلے عام اعتراف۔
مختصر یہ کہ اگرطالبان اورالقاعدہ کے زیراثر افغانستان امریکہ یاپاکستان کے
مفاد میں نہیں توپھرایک ”دوستانہ“ افغانستان سے کم تراسلام آباد کوقابل
قبول نہ ہوگا۔ تاہم اس صورت میں یہ سنجیدہ سوال اُٹھے گا کہ ایسی صورت میں
دیگربڑے علاقائی کرداروں مثلاً روس،ایران ،چین اورانڈیا کے مفادات کس طرح
پورے ہونگے۔ اگرپاکستان کابل میں کیک کا ایک سلائس چاہتا ہے تووہ دوسرے
کرداروں کوایسا دعویٰ کرنے سے کیسے روک سکتا ہے۔ اگرحقانی ۔حکمت یارنیٹ ورک
کابل میں شراکت اقتدار کاخواہشمند ہے تواسے القاعدہ کی مساوی حیثیت کولات
مارنی ہوگی۔
کیا پاکستان ایسا کرسکتاہے؟گھڑی کی سوئیاں جنرل کیانی اور پٹیارس دونوں کے
لئے تیزی سے حرکت کررہی ہیں۔ اول الذکر اکتوبر میں ریٹائر ہورہے ہیں۔
آخرالذکر کوصدراوبامہ اورامریکی عوام کے افغانستان میں جنگ سے بڑھتے ہوئے
اختلافات کوپیش نظر رکھتے ہوئے تیزی سے نتائج دکھانے ہیں۔
(یہ آرٹیکل روزنامہ جرات میں شائع ہو چکا ہے |