ایران پر حملے کے لیے اسرائیلی تیاری

تہران ٹی وی کی اردو سروس سے وابستہ میرے دوست جمشید شیرازی نے گزشتہ روز مجھے برطانوی روزنامہ دی ٹائمز کی ایک رپورٹ بھیج کر اس پر تبصرہ کی درخواست کی ہے۔ جمشید شیرازی کا کہنا تھا کہ رپورٹ اصلی ہے اور مسلم اُمہ کے درمیان تقسیم کی واضح نشان دہی کررہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے حال ہی میں بیرونی خطرہ سے نمٹنے کے لیے نصب کیے گئے اپنے دفاعی نظام کو معطل کرنے کی ایک مبینہ مشق کی تاکہ اسرائیلی جیٹ طیاروں کو یہ موقع فراہم کیا جاسکے کہ وہ سعودی فضائی حدود سے گزر کر ایران کی ایٹمی تنصیبات پر بمباری کر کے اُسے تباہ کرسکیں۔

جمشید شیرازی سے میرے تعلقات کا آغاز اُس وقت ہوا جب 2008ءمیں مجھے ایرانی حکومت کی دعوت پر تہران جانے کا موقع ملا۔ میرے ایک ہفتہ قیام کے دوران شیرازی نے مجھے نہ صرف مکمل کمپنی دی بلکہ میئر تہران اور دوسرے ایرانی رہنماؤں سے میری ملاقاتیں کرائیں۔ ہمارے درمیان تب سے ہی ای میل رابطے قائم ہیں اور اکثر ہم دونوں کسی بھی اہم ایونٹ یا مغربی ذرائع ابلاغ کی خبروں پر ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں۔

سعودی عرب نے ہر برے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے، بالخصوص حالیہ سیلاب میں سعودی شاہ اور حکومت کی جانب سے فراہم کی گئی بے مثال امداد پر پاکستانی اپنے سعودی بھائیوں کے مقروض ہیں۔ میرا خیال تھا کہ ٹائمز کی یہ رپورٹ مغربی ذرائع ابلاغ کی ان کوششوں کا حصہ ہے جو وہ امتِ مسلمہ کے درمیان نفاق پیداکرنے کے لیے کرتا رہا ہے۔ تاہم شیرازی کا کہنا تھا کہ انہوں نے مختلف ذرائع سے اس امر کی تصدیق کرلی ہے کہ خبر کے مندرجات درست ہیں۔

میں اس رپورٹ پر کوئی اظہارِ خیال کیے بغیر اسے قارئین کے لیے من و عن پیش کررہا ہوں۔ ٹائمز نے خلیج میں اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں تہران کے خلاف جب سخت پابندیاں عائد کیے جانے کا فیصلہ ہوا تو اسی ہفتہ ریاض نے اسرائیل کو سعودی عرب کے شمال میں ایک فضائی مستقر کے پتلے کوریڈور کو استعمال کرنے کی اجازت دینے پر آمادگی ظاہر کردی تھی۔ اس کے نتیجے میں اسرائیلی جیٹ طیاروں کو ایران پر حملے کے لیے فاصلے میں کمی کی سہولت حاصل ہوجائے گی۔

اس امر کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیلی بمبار سعودی فضائی حدود سے کسی رکاوٹ کے بغیر گزر جائیں، ریاض نے ایسے ٹیسٹ کیس کیے کہ اُس کے اپنے جیٹ طیارے ردِعمل کا اظہار نہ کرسکے اور میزائل ڈیفنس سسٹم متحرک نہ ہوجائے۔ اس ٹیسٹ کے دوران سعودی ریڈار سسٹمز کو بھی غیر متحرک کردیا گیا تھا۔ ایک بار اسرائیلی طیاروں کو گزر جانے کے بعد سلطنت کے ایئرڈیفنس سسٹم دوبارہ مکمل طور پر الرٹ ہوجائے گا۔
خطے میں امریکی دفاعی ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودیوں نے اسرائیلی طیاروں کو اپنی سرزمین پر سے گزرنے کی اجازت دے دی ہے۔ انہوں نے پہلے ہی ایسی مشقیں کرلی ہیں کہ اسرائیلی طیاروں کو گرانے کے لیے سعودی جیٹ حرکت میں نہیں آئیں گے۔ یہ سب کچھ امریکی محکمہ خارجہ سے ایک معاہدہ کے تحت کیا گیا ہے۔

سعودی عرب میں ذرائع کا کہنا ہے کہ سلطنت میں دفاعی حلقوں کو اس امر کا اچھی طرح علم ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کی صورت میں ایک انتظام کرلیا گیا ہے۔ دونوں حکومتوں کے درمیان کشیدگی کے باوجود دونوں کو ایران کے ایٹمی پروگرام سے مشترکہ خطرہ درپیش ہے۔ ایک دفاعی ذریعے کا کہنا تھا کہ ہم سب کو اس کا علم ہے کہ ہم اسرائیلیوں کو اپنی سرزمین سے گزرنے دیں گے اور کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کریں گے۔

ایران پر کسی حملے کی صورت میں اسرائیل کے لیے چار اہم ٹارگٹ ہوں گے، ان میں نتانز اور قم میں یورینیم افزودہ کرنے کی تنصیبات، اصفہان میں گیس اسٹوریج ڈیولپمنٹ اور ارک میں ہیوی واٹر ری ایکٹر شامل ہیں۔ سیکنڈری ٹارگٹ میں بو شہر کا لائٹ واٹر ری ایکٹر شامل ہے جو تکمیل کے بعد ہتھیار بنانے کے لیے پلوٹونیم تیار کرسکے گا۔

بمباری کے یہ اہداف فضا میں ایندھن بھرنے کی سہولت کے باوجود اسرائیل سے 2250 کلومیٹر (1400 میل) کے فاصلے پر ہیں۔ تاہم شمالی سعودی عرب سے ایک اوپن کوریڈور اس فاصلے کو بہت حد تک کم کردے گا۔ فضائی حملے میں کئی بمبار حصہ لیں گے جو کہ ممکنہ طور پر اردن، شمالی سعودی عرب اور عراق فضائی حدود سے گزر کر ایران پہنچیں گے۔ بوشہر پر حملہ آور طیارے خلیجی ساحل سے پرواز کرتے ہوئے ممنہ طور پر کویت کے راستے جنوب مغرب سے آئیں گے۔

اسرائیلی طیاروں کو عراق سے گزر کر ایران پر حملے کے لیے واشنگٹن سے کم از کم ایک خاموش معاہدے کی ضرورت ہوگی۔ اب تک اوباما انتظامیہ نے ایسے کسی حملہ کی منظوری دینے سے انکار کیا ہے کیوں کہ وہ ایرانی ایٹمی پروگرام کے خاتمے کے لیے بہ ظاہر سفارتی حل کے لیے کوشاں ہے۔ فوجی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل اب تک صرف اس لیے رکا ہوا ہے کہ امریکا اور عرب ریاستوں کے درمیان اتفاقِ رائے میں ناکامی ہوئی ہے۔ فوجی تجزیہ نگاروں کو شبہ ہے کہ صرف ایک فضائی حملے کے نتیجے میں ایٹمی تنصیبات کو تباہ کیا جاسکے گا، کیوں کہ یہ زیرزمین انتہائی گہرائی میں اور پہاڑوں میں واقع ہیں۔ تاہم اگر حالیہ پابندیاں غیر موثر ثابت ہوگئیں تو واشنگٹن پر اسرائیل کی جانب سے ملٹری ایکشن کے لیے دباؤ بڑھ جائے گا۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے سخت پابندیاں عائد کیے جانے کے باوجود ایران نے یورینیم کی افزودگی جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔ صدر احمدی نژاد ان پابندیوں کو استعمال شدہ رومال قرار دے چکے ہیں، جسے ڈسٹ بِن میں پھینک دیا جائے گا۔ حال ہی میں اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامن نیتن یاہو کی جانب سے ایران پر حملے کا امکان مسترد کرنے سے انکار کے بعد اسرائیلی حکام نے اس پر تبصرے سے انکار کردیا۔
اسرائیلی انٹیلی جنس کی 2006ءتک قیادت کرنے والے اہاراون زیوی فرکاش نے اسرائیلی بمباروں کے لیے سعودی فضائی حدود استعمال کرنے کے سوال پر کہا کہ میں جانتا ہوں کہ سعودی عرب ایک ایٹمی ایران سے اسرائیل کی بہ نسبت زیادہ خوف زدہ ہے۔

اسرائیلی انٹیلی جنس ماہرین کا کہنا ہے کہ مصر، سعودی عرب اور اردن ایرانی ایٹمی ہتھیاروں کے معاملے میں اسرائیل اور مغرب کی طرح پریشان ہیں۔ اسرائیل نے گزشتہ سال نہرِ سوئز کے راستے بحرِ اوقیانوس میں میزائل کلاس جنگی جہاز اور ایٹمی وار ہیڈ لاؤنچ کرنے والی کم از کم ایک آبدوز بھیجی تھی جس کا مقصد ایک جانب تو ایران کو انتباہ اور دوسری جانب ممکنہ حملے میں حصہ لینا تھا۔

اسرائیلی اخبارات کے مطابق گزشتہ سال بھی اعلیٰ اسرائیلی حکام بہ شمول سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے ایران کے معاملے پر اپنے سعودی ہم عصروں سے ملاقات میں تبادلہ خیال کیا تھا۔ اخبارات نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ موساد کے سربراہ میر داغن نے گزشتہ برس سعودی انٹیلی جنس حکام سے ملاقات میں یہ یقین دہانی حاصل کی تھی کہ ایران پر اسرائیلی حملے کے لیے سعودی فضائی حدود سے گزرنے والے جیٹ طیاروں سے چشم پوشی کی جائے گی۔ گو کہ دونوں حکومتوں کی جانب سے ان رپورٹس کو مسترد کیا گیا ہے تاہم ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں خبر کی صداقت کا دعویٰ کیا ہے۔

(یہ آرٹیکل روزنامہ جرات میں شائع ہو چکا ہے)
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 77884 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More