چل بلھیا چل اوتھے چلیئے جتھے سارے انھے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے نہ کوئی سانوں منے۔
حضرت بلھے شاہ نے یہ بات شائد کسی اور سیاق و سباق میں کہی ہو مگر مجھے
ہمیشہ ایسا ہی لگا ہے کہ جیسے وہ مشورہ دے رہے ہوں کہ تم پاکستان چلے جاؤ
جہاں تمیں آئیڈیل صورت حال مل جائے گی وہاں کے تو بڑے بڑوں کو اپنے ہی بڑوں
کے بارے علم نہیں ہے۔ مشہور ہے کہ ہمارے بڑے بھی بہت سی بڑی بڑی باتوں سے
اکثر لا علم ہی رہتے ہیں۔ حال ہی میں جاوید چودھری نے اپنے کالم میں انکشاف
کیا ہے کہ پاکستان میں تو ایسے درویش لوگ بھی مسند اقتدار سنبھا ل چکے ہیں
جو بہت ساری باتوں سے یکسر بے نیاز ہوتے تھے اور ہیں ۔یہاں تک کہ جنہیں
چوہدری شجاعت کی بیماری کا علم ہی نہیں ہو پاتا ۔ ایسا تو چلو ممکن ہے کہ
آدمی کو پتہ نہ چلے کہ اس سلطنت خداداد کا ہر عام آدمی بیمار ہے مگر چوہدری
شجاعت صاحب کے جرمنی جا کے علاج کروانے اور واپسی کی خبریں ہر طرح کے میڈیا
پر نشر بھی ہوئیں مگر بقول شخصے وہ صاحب علم لاعلم ہی رہے!
میرا ذاتی خیال ہے کہ جتنا لا علم ہمارے امراءکو قرار دیا جا رہا ہے یہ غلط
ہے شیکسپئر نے کہا تھا کہ
‘There is method in the madness’
اس کے مصداق وہ جانتے سبھی کچھ ہیں مگر اپنی جنت عرضی سے نکلنا نہیں چاہتے
اسی لئے وہ لا علمی کا اظہار فرما کر جان چھڑا لیتے ہیں۔ پھر اگر وہ ہر
معاملے کے بارے میں میڈیا کو بتانا شروع کر دیں کہ ان کے نوٹس میں ہے تو
پھر ان کے نوٹس لینے اور صاحب علم ہونے کا نتیجہ بھی عوام کو بھگتنا پڑے گا۔
وہ تو کسی کو معافی نہیں دیتے۔ ان کی نظروں میں نوٹس لینے کے بعد اس کے
اثرات سب پر یکساں ہونے چاہیئں۔
اپنی لا علمی کا اظہار کرنا ایک خامی نہیں بلکہ ایک خوبی بن کر موصوفین کا
ساتھ دے رہی ہے۔ نواز شریف بیماری کا بہانہ بنا کر نکل گئے اس کے بارے جب
بھی اپنے صاحب علم ہونے کی بات کی گئی ہے وہ الٹا گلے ہی پڑ گئی۔ علم ہوا
تو انہیں اجازت دینی پڑی اور لا علم رہتے تو جو انہیں بھیجتا وہی جواب دہ
بھی ہوتا۔ جب وہ چلا گیا تو معلوم ہوا کہ لا علمی والا فن ہی بہت اعلیٰ
تھا۔ اپنی اپنی لاعلمی کا مظاہرہ کریں اور جان چھڑآئیں بلکہ الٹا نواز شریف
پر آوازے کسیں کہ وہ چلا کیسے گیا ہمیں تو علم ہی نہیں کہ وہ بیمار بھی
تھا۔
اخبارات اور میڈیا سے بچنے کے لئے اپنی لا علمی کا اظہار کرنا کوئی لاعلمی
نہیں بلکہ علمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اب ہم یہاں تک لا علم یا بے علم ہیں کہ
اپنی ہی بنائی ہوئی رپورٹس کی صداقت سے بھی انکاری ہو رہے ہیں۔ اور یہ ہی
وہ اعلیٰ فن ہے جو اس حلقے کا خاصہ ہے۔ ایک چپ اور سو سکھ تو سنا تھا مگر
اب ایک لاعلمی اور سو سکھ کہنا پڑے گا ویسے انگریزی کا محاورہ بھی ہے کہ
Ignorance is blessing
شائد اسی محاورے پر پارٹی رہنما عمل پیرا ہیں اور پھر انسانی تاریخ بھی اس
بات کی گواہ ہے کہ گوتما بدھا کو دنیا کے دکھوں کا گیان حاصل ہوا تو وہ
گلیوں بازاراروں میں مارا مارا پھرنے لگا اپنا تخت چھوڑ کر غریبوں کا ہو
لیا۔ تو کیوں نہ دنیا کے دکھوں سے لا علم ہی رہا جائے اور اپنا تخت انجوائے
کیا جائے۔
یہ لا علمی کا شوق اوپر سے نیچے تک بدرجہ اتم پایا جاتا ہے لہٰذا ہاتھی کے
پاؤں میں سب کا پاؤں۔ جو جانتے ہیں کام بھی تو انہیں ہی کرنا پڑتا ہے جو
بولے وہی کنڈی کھولے ۔ پہلے وزراء سیاست دان اور افسران اپنے صاحب اطلاع
ہونے پر فخر کرتے تھے کہ انہیں پاکستانی پولیس کی طرح ہونے والے جرم کا ایک
دن پہلے ہی پتہ ہوتا تھا۔ مگر اب ہر کوئی لاعلم ہے۔ اگر کوئی کچھ جانتا بھی
ہے تو زبان نہیں کھولنا چاہتا کہ کہیں کوئی ایسی بات نہ کر بیٹھے جس سے
صاحب ناراض نہ ہو جائے اور اس علم کی پاداش میں اپنی کرسی سے یا وزارت سے
ہاتھ دھونے پڑھیں۔ یوں جانتے بوجھتے جہلاء (لاعلم)کا ایک طبقہ تیار ہو گیا
ہے جن کے سامنے بھی کچھ کر دیں تو وہ کہیں گے ہم لا علم ہیں ہمیں پتہ ہی
نہیں چلا۔
|