امریکا میں سیاسی قیدی اور جیل خانے

آج کی مہذب دنیا میں سیاسی قیدیوں کی موجودگی اُس ملک کی جمہوری حکومت کے لیے ایک گالی کا درجہ رکھتی ہے۔ بیشتر مغربی ممالک بالخصوص امریکا خود کو دنیا کے دوسرے ممالک کے سامنے انسانی حقوق کے سب سے بڑے علم بردار کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں، تاہم حقائق اس کے برخلاف بہت خوفناک ہیں۔

انفارمیشن کلیئرنگ ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق وفاقی اور ریاستی قید خانوں، مقامی جیلوں، قدیم باشندوں اور بچوں کی جیلوں اور فوجی عقوبت خانوں میں 24 لاکھ افراد قید ہیں۔ امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) کی جانب سے گرفتار بلاتشدد واقعات میں ملوث افراد کی تعداد نصف ہے جب کہ گرفتار شدگان میں ایک بڑی تعداد سیاسی کارکنوں کی ہے۔ ٹرتھ اینڈ جسٹس فاؤنڈیشن کے تخمینے کے مطابق 15 فیصد قیدیوں کو غلط سزائیں سنائی گئی ہیں۔

وال اسٹریٹ جرنل کا کہنا ہے کہ امریکا میں جیلوں کا نیٹ ورک بہت بڑی صنعت کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ ملٹی ملین ڈالر صنعت کی اپنی اشتہاری کمپنیز، آرکیٹیکچر کمپنیاں، تعمیراتی کمپنیاں، وال اسٹریٹ میں انوسٹمنٹ ہاؤسز، پلمبنگ سپلائی کی کمپنیاں، فوڈ سپلائی، آرمڈ سیکورٹی کمپنی ہے۔

لیفٹ بزنس آبزرور کی رپورٹس کے مطابق امریکی جیلیں جدید دور کے غلاموں کو استعمال کرتے ہوئے امریکی فوج کے لیے 100 فیصد ملٹری ہیلمٹس، ایمونیشن بیلٹس، بُلٹ پروف جیکٹس، آئی ڈی ٹیگس، شرٹس، پینٹس، ٹینٹس اور کنٹینر تیار کرتی ہیں۔ انہی جیلوں میں 98 فیصد ایکوئپمنٹ اسمبلی سروسز، 93 فیصد پینٹس اور پینٹ برشز، 92 فیصد اسٹوو اسمبلیز، 46 فیصد باڈی آرمرز، 36 فیصد ہوم اپلائنسز، 30 فیصد ہیڈ فونز، مائیکرو فونز اور اسپیکرز جب کہ آفس فرنیچر کا 21 فیصد کے علاوہ بہت کچھ تیار کیا جاتا ہے۔

سیاہ فام وکلاءکی قومی کانفرنس کے صدر معروف امریکی وکیل اسٹین وِلِس (Stan Willis) نے اقوامِ متحدہ کو پیش کی گئی اپنی نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکا کو اُس وقت انتہائی درجہ کی تشویش ہوتی ہے جب اُس کا کوئی شہری اقوامِ متحدہ جیسے فورمز میں سوالات اٹھاتا ہے، کیوں کہ امریکا بہ شمول اوباما انتظامیہ فری ورلڈ کے رہنما کی حیثیت سے دنیا کے سامنے خود کو انتہائی مہذب ملک اور رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ان کے ملک میں انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی بھی جیل میں کوئی سیاسی قیدی موجود ہے۔ اس کے برخلاف حقیقت یہ ہے کہ امریکی حکام یہ نہیں چاہتے کہ یہ معاملات دنیا کے لوگوں تک پہنچیں۔ دنیا یہ جان چکی ہے کہ امریکی عراق اور افغانستان میں کس طرح پہنچے، جب کہ انہوں نے اپنے ملک میں سماجی ناانصافی، نوآبادیات اور شہنشاہیت کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو ان کے سیاسی نظریات کی بنیاد پر 30 تا 40 برسوں سے سیاسی قیدی بنایا ہوا ہے۔

جیلوں میں مقید دیگر قیدی عدالتی ناانصافیوں، کرائم پالیسیوں پر سخت اقدامات کے شکار ہیں۔ یہی نہیں دستاویزات نہ ہونے، نسل پرستانہ ڈرگ قوانین، سیاہ فام، لاطینی یا مسلمان ہونے کے باعث بھی ہزاروں افراد کو جیل کی کوٹھریوں میں قید کیا گیا۔ دنیا اس حقیقت سے بھی آگاہ نہیں کہ امریکا میں بہت سے لوگوں کو کسی جرم کے بغیر صرف اس لیے جیلوں میں قید کردیا گیا کہ جیل کے بستوں کی تعداد پوری کر کے جیل کے صنعتی کمپلیکس کو مطمئن کیا جاسکے، جو کہ امریکا کی تیزی سے ترقی کرنے والی صنعتوں میں سے ایک ہے۔

امریکا میں سیاسی اور دیگر قیدیوں کو عشروں سے انتہائی ظالمانہ اور غیر انسانی صورتِ حال میں رکھا جاتا ہے۔ بعض دورانِ قید ہی مرجاتے ہیں۔ اکثر کو برسوں قیدِ تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔ طبی سہولیات کی عدم فراہمی، تشدد کا کسی نہ کسی شکل میں استعمال اور انصاف کا حق دینے سے انکار آج بھی امریکی سسٹم کا حصہ ہے۔ جے ایڈگر ہوور (J. Edger Hoover) کے غیر قانونی کاو ¿نٹر ٹیرارزم پروگرام کو سیاسی مخالفین، بہ شمول کمیونسٹوں، جنگ کے مخالفین، انسانی اور شہری حقوق کے علم برداروں، امریکی انڈین موومنٹ، بلیک پینتھر پارٹی، پورٹوریکو کے قوم پرستوں، اسکانو موومنٹ، ماحولیات کے لیے کام کرنے والوں اور دیگر ایسے تمام لوگوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جو ریاستی اتھارٹی کے لیے چیلنج بن سکتے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت ان تمام مخالفین کو آج دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکا میں سیاسی قیدی کے مفہوم ہی دنیا بھر سے مختلف ہیں۔ دی فری ڈکشنری میں ایسے لوگوں کو سیاسی قیدی کہا جاتا ہے جنہیں مخالف سیاسی نظریات کا حامل ہونے یر اس کا پرچار کرنے پر قید میں ڈال دیا گیا ہو۔ 1960ءکی دہائی میں انہیں ”ضمیر کا قیدی“ (Prisoner of Conscience) قرار دیا۔ ایسے لوگ جنہیں مخالفانہ نظریات یا ان کی نسل، مذہب، رنگ، زبان، عقائد یا مخصوص زندگی گزارنے کے طریقہ کار کی بنیاد پر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، انہیں بھی ضمیر کا قیدی قرار دیا گیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بانی پیٹر بیننسن نے 28 مئی 1961ءکو لندن آبزرور میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں ”ضمیر کا قیدی“ کی تشریح اس طرح کی ہے ”کوئی بھی ایسا شخص جسے ایسی رائے کے اظہار پر جسمانی قید میں ڈالا گیا ہو جس کے درست ہونے پر اُسے یقین ہو اور جو ذاتی تشدد سے متعلق نہ ہو۔

11 ستمبر 2001ءکے بعد ملک میں ایسے قوانین بنائے گئے جس کے نتیجے میں شہری آزادیاں محدود ہوگئیں جب کہ انتظامیہ کو بہت زیادہ اختیارات دیے جانے کے باعث سیاسی قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ شہری آزادیوں کے حوالے سے معروف مصنف اسٹیفن کوہن نے ”امریکی سیاسی قیدی“ (American Political Prisoners) کے عنوان سے لکھی گئی کتاب میں 1000 سے زائد کیسز کی نشان دہی کی ہے جنہیں محض شہری حقوق طلب کرنے کی پاداش میں پسِ دیوار زنداں پھینک دیا گیا۔ 2001ءمیں جاری کیے گئے ملٹری آرڈر نمبر 1 کے تحت صدرِ امریکا نے فوج کو یہ اختیار تفویض کیا کہ فورسز دہشت گردی کے شبہ میں کسی بھی شخص کو گرفتار کر کے اس کے خلاف الزامات عائد کیے بغیر جیل بھجوا سکتی ہیں۔ ایسے افراد کو نہ تو اپیل کا حق دیا گیا ہے اور نہ ہی ان کے مقدمات منصفانہ بنیادوں پر چلائے جاتے ہیں۔ 2002ءمیں ہوم لینڈ سیکورٹی ایکٹ کے تحت تخلیق دیا گیا، اینٹی ٹیرارزم بِل نے جرمنی کی طرز پر ایک قومی گسٹاپو تشکیل دیا ہے۔ ایسے ایکٹ اور متنازع قوانین کے ذریعے درحقیقت امریکا کو ایک پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کردیا گیا۔
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 77877 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More