منچھر جھیل میں کشتیوں کا ماڈل ولیج بنانے کا اعلان

یورپ کا ایک ملک ہے اٹلی جس کا ایک شہر ہے وینس جس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ شہر پانی پر بنا ہوا ہے بین القوامی دنیا اس شہر کو پانیوں کا شہر یا نہروں کا شہر یا تیرتا ہوا شہر کے نام سے جانتی ہے ۔ وہاں سفر صرف کشتیوں میں ہوتا ہے یا پیدل ہوتاہے۔کوئی گاڑی یا موٹرسائیکل وہاں نظر نہیں آتی۔وہاں نہریں ہی گلیوں اور سڑکوں کا کام سر انجام دیتی ہیں۔ وینس دنیائے سیاحت کا مرکز ہے ہر سال دنیا بھر سے ایک کروڑ پچاس لاکھ افراد سیاحت کے لیے آتے ہیں۔اٹلی کے شہر وینس اور سندھ کی منچھر جھیل میں کچھ مماثلت پائی جاتی ہیں۔یہ مماثلت کیا ہیں ان کا ذکر بعد میں کرتے ہیں پہلے منچھر جھیل کا مختصر تعارف ہوجائے۔منچھر جھیل پاکستان میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے یہ دریائے سندھ کے مغرب میں واقع ضلع دادو سندھ میں بہتی ہے۔ دنیا کی سب سے قدیم جھیل منچھر کراچی سے تقریباً 280کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع دادو کے تعلقہ جوھی کھیرتھر پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ یہ جھیل کب وجود میں آئی اس کے متعلق حتمی طور پر کوئی کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ جھیل موہن جو دڑو اور ہڑپہ کی تہذیبوں سے بھی قدیم ہے۔یعنی یہ قدیم ترین پتھر کے دور سے اسی جگہ پر موجود ہے۔منچھر جھیل دریائے سندھ سے قدرے بلندی پر واقع ہے۔ اس لیے جب دریا میں سیلابی کیفیت ہوتی ہے تو دریا کا زائد پانی حفاظتی پشتے توڑ کر پورے علاقے میں پھیل جاتا ہے مگر جب دریا کی سیلابی کیفیت ختم ہوجاتی ہے تو جھیل کا زائد پانی دریائے سندھ میں واپس آجاتا ہے اور منچھر جھیل اپنی اصل حالت میں واپس آجاتی ہے۔اس جھیل کا رقبہ مختلف موسموں میں 350مربع کلومیٹر سے 520مربع کلومیٹر تک ہوتا ہے۔ کوہ کیرتھر سے بہہ کر آنے والے مختلف ندی نالے اس جھیل کے بننے کا سبب بنتے ہیں۔ اس جھیل میں دریائے سندھ سے بھی پانی ڈالا جاتا ہے۔اس کے علاوہ یہاں کنول کافی مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔ لوگ کنول کے بیجوں کلیوں اور اس کی جڑوں کو بطور سبزی پکا کر کھاتے ہیں۔ جہاں ہری بھری گھاس اچھا موسم اور قدرتی جھیل ہو وہاں پرندوں کا دور دراز علاقوں سے آنا ایک فطری بات ہے سردیوں مے موسم میں منچھر جھیل ہر قسم کے پرندوں سے بھر جاتی ہے پرندے عارضی طور پر مختلف ممالک سے ہر سال یہاں آتے ہیں اکثر یہاں سائبریا اور اس قسم کے ٹھنڈے مملک سے پرندے منچھر جھیل میں آتے ہیں اس جھیل میں آنے والے پرندوں کی مختلف اقسام ہوتی ہیں مثلاً ہنس لاکوجانی، راج ہنس ، آڑی (آری جل مرغی) نیگری(نیل سر) کانیرو (چونچ بزا)، ڈگوش (چھوٹی بظخ) کنگھا (لنگور) ، چنچلوں( چکیلوبظخ) ،کنگ مرغیاں اور مختلف بطخیں وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ منچھر جھیل میں سندھی ہنس بھی کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔یہ ہنس تین طرح کے ہوتے ہیں یہ ایک نایاب نسل ہے جو اس جھیل میں پائی جاتی ہے۔ لیکن جھیل میں آلودگی کے باعث ہجرت کر کے آنے والے پرندوں نے بھی یہاں آنا چھوڑ دیا ہے۔منچھر جھیل کو دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی وینس کی طرح کوئی شہر آباد ہے اس جھیل کی خاص بات اور خوبصورتی یہاں آباد موہانا قبیلہ ہے حیران کن بات یہ ہے کہ قبیلہ کسی زمین پر نہیں بلکہ جھیل پر آباد ہے جس طرح وینس شہر میں ذرائع آمدو رفت کشتیوں پر ہوتی ہے اسی طرح جھیل پر تیرتی کشتیاں ہی سے ان کی آمد و رفت ہوتی ہے یہی جھیل ان مسکن بھی ہیں اس شہر میں ہزاروں کشتیوں پر سوار پورے خاندان نسل در نسل سے رہ رہی ہیں موہانا قبیلے کے لوگ پیشے کے اعتبار سے ماہی گیرہوتے ہیں ان کا واحد ذریعہ معاش مچھلیاں پکڑنا ہے ۔بے شمار لوگ لکڑی سے بنی ان کشتیوں میں کئی نسلوں سے مقیم ہیں۔ کشتی کے اوپر بنائے گئے چھپر پر ان لوگوں کے کپڑے اور دیگر اشیائے ضرورت صاف نظر آتی ہیں۔کھانا پکانے کے لیے کشتی کے کنارے پر مٹی کا چولہا رکھا ہوتا ہے جس میں آبی پوردوں سے آگ جلائی جاتی ہے۔ قبیلے کے لوگ گرمیوں میں چھپرے کے اوپر اور سردیوں میں کشتی کے اندر سوتے ہیں۔ ان کی شادیاں و دیگر تقریبات بھی کشتیوں پر ہی انجام پاتی ہیں۔ تقریبات کے موقعوں پر کشتیوں کو رنگین کپڑوں یا جھنڈوں سے سجایا جاتا ہے۔ جو ان کی خوبصورتی میں چار چاند لگادیتے ہیں۔لیکن اب غربت کے باعث لوگ اپنی کشتیوں کی مرمت تک نہیں کرواسکتے جس کے باعث کشتیاں خستہ حال ہوگئی ہیں۔مجبوراً ماہی گیروں کو اپنا آبائی مقام چھوڑ کر خشکی پر گھر بسانے پڑرہے ہیں۔اب بہ مشکل ایک درجن کشتیاں جھیل پر تیر رہی ہیں۔ موہانا قبیلے کے جو لوگ خشکی پر گھر بسا چکے ہیں ان کی زندگی بھی آسان نہیں بلکہ انہیں گھاس پھوس کے بنے جھونپڑے میں رہنا پڑتا ہے جہاں ضروریات زندگی کی دیگر چیزیں بھی میسر نہیں۔

سندھ حکومت نے منچھر جھیل کی بحالی کے لیے کشتیوں کا ماڈل ولیج بنانے اور 37آراو پلانٹس چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ اور وزیر پبلک ہیلتھ ڈپارٹمنٹ میر شبیر علی بجارانی کی ہدایات پر پبلک ہیلتھ ڈپارٹمنٹ سندھ نے آربی اور ڈی سے متاثر پاکستان کی میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل پر ماہی گیروں کے تاریخی کشتیوں کے ولیج کو محفوظ بنانے اور ماڈل ولیج میں تبدیل کرنے کے فیصلے پر کام کا آغاز کرتے ہوئے جھیل پر موجود 37آراو پلانٹس کو داؤد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کراچی کی زیرنگرانی دینے کا منصوبہ بھی تیار کرلیا ہے۔ماڈل ولیج میں نہ صرف پینے کا صاف پانی فراہم کیا جائے گا بلکہ وہاں اسکول اور اسپتال سمیت ہر بنیادی اور جدید سہولت فراہم کی جائے گی۔ ماڈل ولیج میں جو ایک تفریحی مقام بھی ہوگا تیرتے ہوٹلز ، سورج کے طلوع وغروب کے مناظر پرندے دیکھنے کے لیے ٹاورز ، فشنگ پوئنٹس، پبلک ٹوائلٹ اور مقامی لوگوں کے چھوٹے کاروبار کے لیے شاپس تعمیر کی جائیں گی۔ جس سے منچھر جھیل پر غیرملکیوں کے ساتھ ملکی سیاح بھی تفریح کے لیے آئیں گے۔ جس سے علاقہ مکینوں کو فائدہ ہوگا۔جھیل میں کشتیوں کے تیرتے گاؤ ں کو محفوظ بنایا جائے گا۔ یہ کشتی ولیج سندھ کی ثقافت کا بھی حصہ ہیں۔ مولا بخش ولیج کے ساتھ دوسرا ماڈل ولیج بھی قائم ہوگا۔جہاں اسکول اسپتال اور دیگر بنیادی اور جدید سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔اس منصوبے سے منچھر کی رونقیں بحال ہوجائیں گی۔ جو سندھ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ یہاں کے عوام کا عرصہ دراز سے مطالبہ ہے کہ اس جھیل پر ایک ڈیم بنایا جائے تاکہ جو ہی تحصیل اور سہیونا کے لاکھوں ایکڑ زمین کاشت ہوسکے علاوہ ازیں آربی اور ڈی ٹو جلد از جلد مکمل کیا جائے تاکہک منچھر کو دوبارہ بحال کرنے میں آسانی ہوگی۔

منچھر جھیل پاکستان کی خوبصورت ترین جھیل تھی جسے حکومت سندھ دوبارہ بحال کرنے کی کوشیشیں کررہی ہے۔ وینس شہر کی طرح منچھر جھیل کو سیاحت کا مرکزبنایا جا سکتا ہے اگر جھیل کو بین اقوامی معیار کے مطابق ڈھال دیا جائے جیسا کہ پینے کا صاف پانی اسکول، اسپتال سمیت ہر بنیادی سہولت کی فراہم ، تیرتے ہوٹلز ، دکانوں کی تعمیروغیرہ کو عملی جامع پہنادیا جائے۔ بات صرف عزم ،حوصلہ اور جہدوجہد کی ہے۔ پھر جب سیاح یہاں کا رخ کرئینگے اور ڈالر کی صورت میں زرمبادلہ یہاں آئے گا۔ جس کے بعد صرف ترقی اور خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔
 

Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 7 Articles with 7585 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.