تحریر: مولانا عثمان الدین، کراچی
وطن عزیز پاکستان بد قسمتی سے اس وقت حقیقی معنوں میں انتہائی مشکل اور
نازک حالات کا سامنا کررہا ہے ، ملک کو اس وقت ایک جانب داخلی، خارجی،معاشی
،سیکورٹی اور دیگر کئی حوالوں سے بے شمارمسائل اور مشکلات درپیش ہیں تو
دوسری طرف ملک اور قوم میں باہم بدترین تقسیم اور تفریق بھی موجود ہے،ملک
کا اصل اور بنیادی مسئلہ بھی اس وقت یہی آپس کی تقسیم اور خلفشارہے کیونکہ
کسی ملک کو محض مشکلات کا درپیش ہونا موجودہ عالمی منظر نامہ میں کوئی غیر
معمولی بات نہیں ہے، دنیا کے مجموعی حالات اس وقت ایسے ہیں کہ سب ممالک کو
تقریبا ایک ہی جیسے مسائل کاسامنا ہے ،بد قسمتی یہ بھی ہے کہ ملک میں یہ
تقسیم کسی ایک جانب سے نہیں بلکہ سیاسی ،مذہبی ،مسلکی ،لسانی، صوبائی مختلف
بنیادوں پر دیکھی جارہی ہے، البتہ ان میں سیاسی کشمکش اس وقت ایسی خطر ناک
شکل اختیار کرچکی ہے جس کی وجہ سے ملک بد ترین سیاسی بحران کا شکار ہے ۔
سیاسی جماعتوں اور حکومت واپوزیشن کے درمیان جمہوریت میں اختلاف رائے کا
ہونا معمول کی بات ہوتی ہے بلکہ اس کو جمہوریت کے حسن سے تعبیر کیا جاتا
ہے، تاہم اس اختلاف رائے کی بھی کچھ حدود و قیود ہیں جن کی رعایت رکھنا
ضروری ہوتا ہے ،اگر ان کی رعایت نہ رکھی جائے تو پھر وہ جمہوریت کا حسن
نہیں بلکہ اس کے ماتھے پر ایک سیاہ دھبہ بن جاتا ہے اور یہی صورت حال اس
وقت موجودہ حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات کی ہے
کیونکہ وہ ہر قسم کی حدود و قیود سے تجاوز کرکے انتہائی خطرناک حد میں داخل
ہوچکے ہیں ،اپوزیشن کی جماعتیں متحد ہوکر حکومت کے خلاف عملی میدان میں
آچکی ہیں جبکہ حکومت بھی ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے، دونوں ہی اس
وقت اپنا سب کچھ مکمل داو پر لگا چکی ہیں اور واپسی کسی کے لیے بھی ممکن
نظر نہیں آرہی ہے، حکومت اور اپوزیشن کے بیچ ملک سیاسی خانہ جنگی کی زد میں
ہے جس میں ا یک دوسرے کو گالم گلوچ،بد زبانی ، دھمکیاں ، غداری اور بغاوت
کے الزامات معمول کا حصہ بن چکے ہیں،سیاسی تصادم کے اس ماحول میں ایک دوسرے
کو نیچا دکھانے کے لیے ملکی مفاد کے خلاف موضوعات زیر بحث لاکر اور ان پر
غیر ذمہ دارانہ بیانات دے کر دشمن کو مذاق اڑانے کا موقع تک دیا جارہا ہے ،
پارلیمنٹ جو ملکی اور عوامی مسائل کے لیے سنجیدہ غوروفکر، گفتگو اور قانون
سازی کی جگہ ہے اوراس مقصد کے لیے اس کے ایک دن کے اجلاس پر غریب عوام کے
تقریبا پانچ کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں، وہ اپنی اس بنیادی ذمہ داری اور
اخلاقی وجود سے بے نیاز ہوکر محض سیاسی میدان جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے،
حکومت کی تمام تر توجہ بھی ملک اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے اسی
سیاسی لڑائی پر مر کوز ہے جس سے ان مسائل میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ،ملکی
سیاست میں اس تناو کا سارا نقصان صرف اور صرف ملک اور قوم کا ہورہا ہے۔
موجودہ سیاسی بحران کے دو پہلوایسے ہیں جو بہت خطرناک ہیں ،ایک یہ کہ یہ
سیاسی محاذ آرائی سیاسی جماعتوں سے نکل کر عوامی سطح پر بھی ایک واضح اور
خطرناک تقسیم میں تبدیل ہوچکی ہے جو عملی طور پرسوشل میڈیا اورباہمی محفلوں
میں سیاسی بحث و مباحثہ کی صورت میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔دوسرا انتہائی
افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ملک کے غیر متنازعہ ادارے بھی اس وقت اس میں فریق
بن کر متنازعہ ہوچکے ہیں ،اس صورت حال میں کوئی ثالث کا کردار ادا کرکے
معاملات کو سلجھانے والا بھی نہیں ہے ،چنانچہ اس بحران کے خاتمہ کی بھی
کوئی ظاہری صورت نظر نہیں آتی ہے جس کی وجہ سے مستقبل کا سیاسی منظر نامہ
بھی غیر یقینی کا شکار ہے۔
ملکی سیاست میں یہ تقسیم گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے،2014کے دھرنے اور
گزشتہ عام انتخابات کے درمیان موجودہ حکمران جماعت کے طرز سیاست کی وجہ سے
یہ اپنے عروج پر رہی ہے، توقع یہ کی جارہی تھی کہ جب انتخابات ہوں گے اور
ان کے نتیجہ میں نئی حکومت قائم ہوگی تو اس سیاسی عدم استحکام کا کسی حد تک
خاتمہ ہوجائے گا،لیکن انتخابات کے نتیجہ میں موجودہ حکومت کے اقتدار میں
آنے کے بعداب تک ملک کے اندر سیاسی کشیدگی میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہی
ہوا ہے ، افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملکی سیاست کو اس نہج تک لانے میں بنیادی
اور مجرمانہ کردار اپوزیشن سے زیادہ حکومت کا ہے بلکہ اگر اپوزیشن نے اس
معاملہ میں حکومت کی جانب دست تعاون بھی بڑھایا تو اس کو این آر او مانگنے
کے نام پر ٹھکرادیا گیاہے ،وزیر اعظم اور ان کی پوری حکومتی مشینری نے عوام
کے اکثریت کی نمائندہ اپوزیشن کے ساتھ یکطرفہ متنازعہ احتسابی عمل اور این
آر او نہ دینے جیسے غیر حقیقی سیاسی نعرے کی بنیاد پر جس طرح کا غیر ذمہ
دارانہ ،متکبرانہ اورتحقیرآمیز رویہ اپناکر اس کو سیاسی انتقام کا نشانہ
بنایاہے، ملکی اور عوامی مسائل کے حل میں اپنی نا اہلی اور ناکامی کو
چھپانے کے سیاسی مقصد کے لیے اسی احتساب کے نام پرسیاسی نفرت کی آگ کو
بجھانے کے بجائے جس طرح مسلسل بھڑکائے رکھا ہے ،اسی کا خمیازہ اس وقت ملک
کی سیاست کو بھگتنا پڑرہا ہے اور ملک سیاسی و اقتصادی لحاظ سے بد ترین
بحران کا شکار ہے ، حالانکہ حکومت جس احتساب اور این آر او نہ دینے کی بات
کرتی ہے ، حکومت کے ایک تھوڑے اور مخصوص حمایتی طبقہ کے علاوہ باقی قوم کو
اس سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے اور وہ اس کی حقیقت بھی اچھی طرح جان چکی ہے
اور اب تو عدالتی فیصلوں نے بھی اس کی اصلیت قوم کے سامنے رکھ دی ہے ۔
غرض یہ کہ ملک اس وقت ایک بڑے سیاسی بحران کی لپیٹ میں ہے جو خدا نخواستہ
کسی بڑے المیہ کو بھی جنم دے سکتا ہے ،اس لیے اس کا خاتمہ انتہائی ناگزیر
ہے ،ملک کو اس حد تک لانے میں حکومت اور اپوزیشن سمیت سب ہی کا کردار رہا
ہے اور سب ہی سے غلطیاں ہوئی ہیں ، اس لیے تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں
کو اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے آپس میں بیٹھ کر گفت و شنیدکرنے اور
ملک کے مفاد میں آپس کی رنجشوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، ویسے بھی اس وقت
ملک کو جس قسم کے مسائل کا سامناہے ،ان کو قابو کرنا کسی کے بھی اکیلے کے
بس کی بات نہیں ہے ، اس کے لیے پوری قوم کا ایک ہونا ضروری ہے ،عمران خان
صاحب کو اس کا م کے لیے تمام تر سیاسی جذبات کو پس پشت ڈال کراور حقیقی
معنوں میں وزیر اعظم بن کر کلیدی اور قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا ،ملک کے
وزیر اعظم اور بڑے ہونے کی حیثیت سے یہ ان کی اس وقت سب سے بڑی ذمہ داری
ہے،اگر وہ اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرکے تمام تر سیاسی جماعتوں اور اداروں
کے اتفاق رائے سے کسی بھی ممکنہ حل کے ذریعہ اس سیاسی بحران کو ختم کردیتے
ہیں تو یقینا وہ کامیاب شمار ہوں گے اور تاریخ میں بھی سرخرو ہوں گے ،اور
اگران کے سیاسی جذبات و مقاصد اس میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اور وہ یہ کردار
ادانہیں کرتے ہیں تو ملک کے لیے اس سے زیادہ بد قسمتی کی بات کوئی نہیں
ہوگی اور اگر خدا نخواستہ ا س سیاسی جنگ کے نتیجہ میں کوئی حادثہ رونما
ہوجاتا ہے تو تاریخ کی نگاہ میں وہ اس کے ذمہ دارقرار پائیں گے، تاریخ ان
کے احتساب اور این آر او نہ دینے کی تاویلات کو بھی محض سیاسی بیانات اور
سیاسی عمل سے زیادہ اہمیت نہیں دے گی ،ان دونوں میں سے کسی ایک راستہ کا
انتخاب اب انہی کو کرنا ہے ۔
|