..امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی
نے ایک بار پھر اس حقیقت کو آشکار کیا ہے کہ امریکا اپنے اتحادیوں کو چھوڑ
کے بھاگ جاتا ہے۔
پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو امریکی حکومت کی جانب سے پاکستان کے
لیے اعلان کردہ امدادی ڈالرز کو بڑی تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ ہماری
بڑی بدقسمتی ہے کہ ہزاروں دھوکے کھانے کے باوجود ہم امریکا کو اپنا دوست
ملک سمجھتے ہیں۔ تشکیلِ پاکستان کے بعد سے برسرِ اقتدار آنے والے تمام
حکمران اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے امریکا ہی کی جانب دیکھتے رہے ہیں۔
کیا ہم وہ وقت فراموش کر بیٹھے ہیں جب ایک منظم بین الاقوامی سازش کے تحت
ملک کو دولخت کیا گیا، ہمارے فوجی حکمران ساتویں بحری بیڑے کی آمد کا اُس
وقت تک انتظار کرتے رہے جب تک کہ مشرقی کمان کے کمانڈر جنرل نیازی نے
بھارتی فوجی جنرل اجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈال کر خود کو ان کے
حوالے کردیا۔ ہمیں تو امریکی دوستوں نے بتایا تھا کہ بھارتی فوجوں کو مشرقی
پاکستان میں من مانی نہیں کرنے دی جائے گی اور ساتواں امریکی بحری بیڑا جلد
مشرقی سمندر میں پہنچ کر مداخلت کرے گا۔
کیا ہم نے وہ وقت بھی فراموش کردیا جب ہم بجلی کے بدترین بحران میں مبتلا
ہورہے تھے تو دوسری جانب ہمارے امریکی دوست پاکستان کو دولخت کرنے والے
بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر معاہدہ پر دستخط کررہے تھے۔ پاکستان کی جانب سے
ایسا ہی معاہدہ کرنے کی درخواست کو ہمارے دوستوں نے بڑی بے دردی سے رد کرتے
ہوئے موقف اختیار کیا کہ پاکستان اس اہلیت پر پورا نہیں اترتا۔ کیا ہم وہ
وقت بھی بھول بیٹھے ہیں جب ہمارے ایٹمی پروگرام شروع کرنے پر ہمارے امریکی
دوستوں نے ہماری نہ صرف فوجی امداد بند کردی بلکہ جن طیاروں کے لیے ہم نے
اپنے خون پسینے کی کمائی ان کے حوالے کی وہ بھی ہمیں دینے سے انکار کردیا
گیا۔ اس کے برعکس بڑے دھڑلے سے ایٹمی دھماکے کرنے والے بھارت کے لیے مزید
فوجی امداد منظور کی گئی۔ دوسری جانب اپنے لے پالک اسرائیل سے اُس کے خصوصی
تعلقات قائم کروائے گئے۔
کیا ہم حال ہی میں وہ واقعہ بھی بھول بیٹھے ہیں جب ایک جانب تو ہمارے
امریکی دوستوں نے ہمیں مجبور کیا کہ قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے
خلاف آپریشن کیا جائے۔ جب پاک فوج نے عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور
کارروائی کا آغاز کیا تو ہمارے امریکی دوستوں نے افغان سرحد پر واقع اپنی
سرحدی پوسٹیں خالی کردیں تاکہ پاکستانی طالبان بہ آسانی جان بچانے کے لیے
افغانستان میں داخل ہوجائیں۔ کیا ہمارے دوست ہماری پیٹھ میں چھرا نہیں
گھونپ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ہی آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں ورنہ تو خود
امریکا سے حقائق پر مبنی ایسی رپورٹیں آرہی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ
پاکستانی طالبان خود ہمارے امریکی دوستوں کی تخلیق ہے۔
آج امریکی سی آئی اے، ایف بی آئی اور ان کے لیے کرائے کے فوجی تربیت یافتہ
دہشت گردی فراہم کرنے والے ڈین کورپ، ایکس ای/بلیک واٹر کے ایجنٹ صرف وفاقی
دارالحکومت ہی نہیں بلکہ وطنِ عزیز کے چپے چپے پر دندناتے پھر رہے ہیں۔ ان
کا اہم ہدف بلوچستان اور ہماری ایٹمی تنصیبات ہیں۔ بلاشبہ حکومت کی اپنی
مجبوریاں ہوتی ہیں تاہم دل گواہی دیتا ہے کہ پاک فوج کسی بھی حالت میں
بیرونی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
امریکا میں پاکستانیوں کو جس صبر آزما اور تکلیف دہ ماحول سے گزرنا پڑتا ہے،
اس کا اندازہ تو وہاں سے آنے والے پاکستانیوں کی روح فرسا کہانیوں سے
ہوجاتا ہے۔ تاہم اب حالات کس نہج پر جا پہنچے ہیں، اس کا اندازہ مجھے
پاکستان اسٹیل کے ایک ذمہ دار افسر سلمان علی کی جانب سے بھیجی گئی ایک
تصویر سے بہ خوبی ہوگیا ہے۔ کاش ہمارے حکمران اور صاحبِ اقتدار لوگ بھی
جتنی جلدی اس حقیقت کا اعتراف کرلیں اتنا ہی ملک کے لیے اچھا ہے۔
دنیا بھر کا مہذب اور اعلیٰ اقتدار کا حامل ملک ہونے کے دعویدار امریکا میں
ماضی قریب تک سیاہ فام باشندوں سے نفرت اور امتیازی سلوک سے پوری دنیا آگاہ
ہے۔ بیشتر ہوٹلوں اور تفریحی مقامات پر جلی حرفوں میں یہ عبارت تحریر ہوتی
تھی کہ یہاں کتوں اور سیاہ فام افراد کے داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ آج صورتِ
حال میں کچھ تبدیلی آگئی ہے۔ آج امریکی نفرت اور امتیازی سلوک کا سامنا
پاکستانیوں کو ہے۔ پاکستانی نژاد امریکی شہری بھی اس امتیازی سلوک سے
مستثنیٰ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زیرِ نظر تصویر انہی پاکستانی نژاد امریکی
شہریوں کی تضحیک کے لیے لگائی گئی ہے۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ امریکا
میں ایسا ماحول پیدا کردیا جائے کہ وہاں کئی عشروں سے رہنے والے پاکستانی
بھی واپس جانے پر مجبور ہوجائیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی اور پاکستانی عوام کے اسٹرٹیجک مفادات کا
کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ تاہم امریکی حکومت اور اُس کی جاسوس ایجنسیوں کے
ہاتھوں پاکستانیوں کی تضحیک اور انہیں نقصان پہنچانے کے لیے کوئی بھی کوشش
دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے سے متصادم کردے گی۔ ٹائم اسکوائر کیس میں
ایک پاکستانی فیصل شہزاد کو ملوث کیے جانے کے بعد امریکی حکومت بالخصوص
نیویارک گورنمنٹ کا پوسٹر اسی نفرت اور امتیازی سلوک کی ایک مثال ہے۔ میٹرو
پولیٹکل ٹرانسپورٹیشن اتھارٹی کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے اس پوسٹر میں
ریلوے مسافروں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ کوئی غیر معمولی چیز دیکھیں
تو اس سے آگاہ کریں۔ حتیٰ کہ اگر آپ لوگوں کو یقین ہو کہ وہ ایک پاکستانی
ہے تو پولیس یا ایم ٹی اے یا نیویارک سٹی کے ایس اے ایف ای کو فون نمبر
1-888 پر مطلع کریں۔
امریکا میں ہمارے بعض دوستوں بہ شمول واشنگٹن کے دوستوں کا کہنا ہے کہ ایم
ٹی اے یا میٹرو پولیٹن ٹرانسپورٹیشن اتھارٹی کی ویب سائٹ پر جاری کیا جانے
والا یہ پوسٹر ہٹا دیا گیا ہے تاہم یہ اب بھی کئی مقامات پر موجود ہے۔ ایم
ٹی اے کی ویب سائٹ سے اسے ہٹائے جانے کے باوجود سینکڑوں امریکی ویب سائٹس
پر یہ موجود ہے۔
کیا ہمارے حکمرانوں بالخصوص وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی محکمہ
ریلوے میٹرو پولیٹن ٹرانسپورٹیشن اتھارٹی کی جانب سے جاری کیے جانے والے
مذکورہ پوسٹر پر کوئی اعتراض اٹھایا۔ وضاحت طلب کرنے والی بات یہاں قصداً
تحریر نہیں کی ہے کہ ڈالروں کے لیے کشکول اٹھانے والے ملک کے نمائندے یقینا
اس پوزیشن میں نہیں ہوتے کہ وہ کوئی وضاحت طلب کرسکیں۔ وہ تو کوئی اعتراض
کرتے ہوئے بھی امریکیوں کی پیشانی کو تکتے رہتے ہیں کہ اس میں کوئی شکن تو
نہیں پڑی۔ یہ تو پاکستانی نژاد امریکی تھی جنہوں نے زبردست احتجاج کرتے
ہوئے امریکی محکمہ ریلوے کو یہ پوسٹر ہٹانے پر مجبور کردیا۔ کیا اربابِ
اختیار اس حوالے سے کوئی جواب دینا پسند کریں گے؟
(یہ آرٹیکل روزنامہ جرات میں شائع ہو چکا ہے) |