مضبوط اعصاب کا مالک ہونے کے باوجود میں نے
اپنی پچاس سالہ زندگی میں ایسے تین سانحات دیکھے جن میں بچوں کی طرح پھوٹ
پھوٹ کر رونے پرمجبور ہوگیا۔ پہلی بار سقوطِ ڈھاکہ اور دوسری بار اپنی عزیز
از جان والدہ محترمہ کا انتقال ایسے واقعات تھے جنہوں نے زندگی کے بارے میں
میری سوچ ہی تبدیل کردی۔ تیسرا سانحہ جس نے مجھے نہ صرف پھوٹ پھوٹ کر رونے
پر مجبور کیا بلکہ پہلی بار اپنے پاکستانی ہونے پر بھی شرمندگی ہوئی، وہ
سیالکوٹ میں دو معصوم صفت سگے بھائیوں کی بھرے بازار میں مجمع کے ہاتھوں
اذیت ناک تشدد کے ذریعے ہلاکت تھی۔
مختلف ٹی وی چینلز سے جتنی بار اس واقعہ کی فوٹیج دکھائی گئی اتنی ہی بار
مجھے اپنی روح پر بھی کچوکے محسوس ہوئے۔ آخر اُس وقت قیامت کیوں نہ آگئی۔
ان قاتلوں پر خدا کا قہر کیوں نازل نہ ہوا، جب کسی بے بس ماں کی ایک نہیں
دو گودیں اجاڑی جارہی تھیں۔ میرے بچوں کا کہنا ہے کہ مجھے اس واقعہ کا اتنا
شدید اثر نہیں لینا چاہیے، تاہم اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ اٹھتے بیٹھتے ان
معصوم بھائیوں کے چہرے میرے سامنے آجاتے ہیں، جیسے مجھ سے سوال کررہے ہوں
کہ کیا تم اتنے بے حس صحافی ہو جو بے گناہ انسانوں کی ہلاکت پر ان کی بے
گناہی کی شہادت بھی نہیں دے سکتے۔
بلاشبہ حالیہ مہینوں کے دوران کراچی میں سینکڑوں بے گناہ افراد ٹارگٹ کلنگ
کا نشانہ بنا کر اس ملک کے حکمرانوں کی بے حسی، نظامِ عدل کی اور عام
شہریوں کی غیرت و حمیت پر تازیانہ برسا گئے ہیں۔ کسی بھی بے گناہ انسان کی
ہلاکت پر دل میں ایک پھانس سے چبھتی ہے، تاہم سیالکوٹ کے مغیث اور منیب کو
جس بے دردی کے ساتھ اذیت ناک موت کا سامنا کرنا پڑا،اُس پر تو آسمان بھی
رویا ہوگا۔ کیا اُسے مارنے والوں کو یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ بھی کسی ماں کے
لختِ جگر اور کسی باپ کی آنکھوں کے نور ہیں۔ وہ بھی کسی بہن کا مان اور
بھائی کا پیار ہیں۔ مہذب دنیا میں تو کسی جانور کو بھی اتنی بے دردی کے
ساتھ قتل نہیں کیا جاتا۔ ان کے قاتلوں نے صرف دو بے گناہ نوجوانوں کو ہی
موت کے گھاٹ نہیں اتارا بلکہ پاکستان کے ایک مہذب ملک ہونے کے تصور اور اس
کی عزت و وقار کا بھی جنازہ نکال دیا ہے۔
بلاشبہ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے واقعہ کا سوموٹو ایکشن
لیتے ہوئے سیالکوٹ کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) کو طلب کرلیا ہے، کیوں
کہ یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا جب پولیس اہل کار بھی موجود تھے۔ درجنوں
افراد نے باری باری ڈنڈوں، لاتوں اور مکوں سے دونوں بھائیوں کو اُس وقت تک
تشدد کا نشانہ بنایا جب تک کہ ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز نہ کر گئی۔
ظالموں نے اسی پر بس نہیںکیا بلکہ مرنے کے بعد ان کی نعشیں کھمبے سے لٹکا
دیں اور نعشوں پر بھی مشقِ ستم کرتے رہے۔ چیف جسٹس صاحب کا اقدام لائقِ
تحسین سہی تاہم کیا ایک ماں کو اُس کے نوجوان بیٹے واپس دلوائے جاسکتے ہیں؟
ظالموں کو یہ نہیں پتہ کہ جس گھر میں موت ہوجائے اُس کا کیا عالم ہوتا ہے،
وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ سسک سسک کر مرنا کسے کہتے ہیں؟ اس میںکوئی شبہ
نہیں کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر گرفتار افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جائے
گا۔ اگر گواہان عدالت میں آگئے تو انہیں چند سال کی سزا بھی ہوجائے گی۔
تاہم اگر تمام ملزمان کو عمر قید بھی دے دی جائے تو وہ اتنی بڑی سزا نہیں
ہوگی جتنا بڑا جرم حتیٰ کہ پھانسی کی سزا بھی ان کے جرم کے سامنے ہیچ ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق پھانسی کا پھندہ کھینچے جانے کے دو منٹ میں انسان کی موت
واقع ہوجاتی ہے۔ دونوں بھائیوں کو تو ملزمان نے ایک گھنٹے تک بے رحمانہ اور
اذیت ناک تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کیا۔ کیا پاکستان کی کوئی عدالت دونوں
معصوم بھائیوں کو انصاف فراہم کرسکتی ہے....
انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ ملزمان کو بھی ایسی ہی دردناک اور اذیت ناک موت
کی سزا دی جائے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق دونوں بھائیوں کی موت اذیت ناک
تشدد، جگہ جگہ کی ہڈیاں ٹوٹ جانے کے باعث ناقابلِ برداشت تکلیف اور زیادہ
خون بہہ جانے کے باعث واقع ہوئی ہے۔ کیا ملزمان کو پوسٹ مارٹم رپورٹ کی
مناسبت سے سزا دی جاسکے گی۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری حالیہ برسوں کے دوران
سینکڑوں بے گناہ لوگوں کو انصاف دلا چکے ہیں۔ تاہم سیالکوٹ کے دونوں معصوم
بھائیوں کو انصاف دلانا عدالت کا امتحان ہوگا۔
سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب کو ڈی پی او اور ایس پی انوسٹی گیشن کے خلاف
کارروائی کا حکم دیا تھا، جب کہ ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن کو سات دن میں
انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے احکامات پر
ڈی پی او کے خلاف تو کوئی کارروائی نہ ہوسکی تاہم موصوف نے ایس ایچ او سمیت
13 پولیس ملازمین کو معطل کردیا۔ ابتدائی تفتیش میں یہ اعتراف کیا گیا ہے
کہ دونوں بھائی ڈاکو نہیں تھے۔ ذرائع کے مطابق دونوں بھائیوں کو محلے میں
کرکٹ کھیلنے سے منع کیا گیا تھا، نہ ماننے پر سفاک درندوں نے ڈاکو ہونے کا
الزام عائد کر کے بے دردی سے مار ڈالا۔
کھلی درندگی اور بربریت کے اس واقعہ میں سپریم کورٹ کے حکم پر 5 اہل کاروں
کو گرفتار کیا گیا، مگر تین حراست سے فرار ہوگئے۔ پولیس نے ایف آئی آر میں
اپنے پیٹی بھائیوں کو بچاتے ہوئے انہیں صرف غفلت کا مرتکب قرار دیا ہے۔ اس
ضمن میں سب سے تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ایک ملزم نے نجی چینل سے گفتگو کرتے
ہوئے انکشاف کیا کہ دونوں بھائیوں پر تشدد کرنے کے لیے ڈی پی او وقار احمد
چوہان نے کہا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود ڈی پی او
اور ایس پی انوسٹی گیشن کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوسکی۔ وہ کون سی قوتیں
ہیں جنہوں نے سپریم کورٹ کے احکامات کو بھی بے اثر بنادیا ہے۔ صدر آصف علی
زرداری اور وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف زبانی حد تک اس واقعہ کی مذمت کرتے
ہوئے ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی ضرورت کا اظہار کرچکے ہیں۔ تاہم
ابھی ان کے عملی اقدامات دیکھے جانے باقی ہیں۔ جب تک قاتلوں کو ان کے حقیقی
انجام تک نہیں پہنچایا جاتا دونوں بھائیوں کا خون انہی کی گردنوں پر ہوگا۔
پنجاب میں رائج جاگیردارانہ کلچر بھی یہ سانحہ ہونے کی اہم وجہ ہے۔ انہی
دنوں قائدِاعظم میڈیکل کالج بہاولپور میں میڈیکل کی طالبات پر پولیس کا
تشدد بھی اس کلچر کو سمجھنے میں معاون ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کلچر
کو تبدیل کیا جائے، جہاں انسانوں کو کیڑے مکوڑے اور کوئی نیچ مخلوق تصور
کیا جاتا ہے۔ یہ کلچر صرف انقلاف کے ذریعے ہی تبدیل ہوگا۔ قرائن بتاتے ہیں
کہ پاکستان میں روایتی حکومتوں کا دور ختم ہونے والا ہے۔ وہ وقت دور نہیں
جب ایک پُرامن انقلاب کے ذریعے اس ملک کی نفسیات ہی تبدیل ہوجائے گی
(انشاءاللہ)۔
(یہ آرٹیکل روزنامہ جرات میں شائع ہو چکا ہے) |