سیلاب کی تباہ کاریاں اور یومِ پاکستان

پاکستانی قوم نے امسال اپنا یوم آزادی ایسے موقع پر منایا، جب سیلاب کی تباہ کاریوں نے قدرتی آفت کی شکل میں خیبر سے کراچی تک پاک سر زمین کو پانی پانی کر رکھا ہے۔ تاہم اس کے باوجود ہماری سیاسی قیادت پانی پانی ہونے کے لئے تیار نہیں۔ یہ صورتحال ہمارے سیاست دانوں تک محدود نہیں بلکہ ہماری نئی نسل بھی ان حالات سے ناواقف ہے جن سے گزر کر ہمارے آباؤ اجداد نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کی تخلیق کی۔ آخر نئی نسل ان حقائق سے کیونکر آگاہ ہوسکتی ہے جبکہ ہمارے سیاستدانوں نے امریکی و مغربی طاقتوں کی خوشنودی کے لیے قیام پاکستان اور تحریک پاکستان کے ابواب درسی کتب سے نکال کر پھینک دیئے ہیں۔

ضرورت اس امر کی تھی کہ قوم کے نو نہالوں کو یہ بتایا جائے کہ وہ آج جس آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں اس کے حصول کے لئے ہمارے آباؤ اجداد نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ عالمی نقشے پر لفظ ” پاکستان“ شامل کرنے کے لئے برطانوی و ہندو سامراج نے ہمیں آزادی کسی طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کردی ۔اس کے حصول کیلئے 20 لاکھ انسانی جانوں کی قربانی دی گئی ۔ہزاروں بہنیں اپنے بھائیوں سے اور بھائی اپنی بہنوں سے جدا کر دیئے گئے ‘ کتنی سہاگنیں بیوہ ہوئیں تو کتنی خواتین نے اپنی عصمتیں پاک سر زمین کو وجود میں لانے کے لئے قربان کردیں ‘ ہزاروں ماؤں کے لخت جگر ان کی نگاہوں کے سامنے تلواروں اور تیروں کی انیوں میں پرو دیئے گئے ‘ ان بے مثال قربانیوں کے بعد پاک سرزمین پر سبز ہلالی پرچم لہرایا جاسکا۔ بد قسمتی سے قیام پاکستان کے بعد سے ہی برسر اقتدار آنے والی بیشتر حکومتوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے عوام کو نظر انداز کرکے امریکہ اور مغرب کی حمایت کو ترجیح دی ۔ امریکہ و مغرب جو پہلے ہی مسلمانوں کی اپنے مذہب اور وطن کے لئے کٹ مرنے کی خصوصیت سے آگاہ تھے انہوں نے ایک سازش کے ذریعے مسلمانوں کو اسلامی شعائر اور آزادی کی اہمیت سے غافل کرنے کے لئے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اقدامات کئے ۔ یہ حقیقت ہے کہ جو قومیں آزادی کی قدر نہیں کرنا جانتیں آزادی بھی ان سے روٹھ جاتی ہے۔ آج آپ پہلی جماعت سے میٹرک تک کی درسی کتب اٹھا کر دیکھ لیں ان میں سے تحریک آزادی اور قیام پاکستان کے ابواب غائب کردیئے گئے ہیں ۔

اس سال یوم آزادی کی اہمیت اس لئے بڑھ گئی ہے کہ یہ مقدس ماہ رمضان المبارک میں آیا ہے ‘ قیام پاکستان بھی رمضان المبارک کے مقدس ماہ عمل میں آیا ‘ تاہم فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت قوم کو ایک ملک کی ضرورت تھی اور آج ملک کو ایک قوم کی ضرورت ہے ۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے بیرونی سازشوں کے شکار ہوکر ہم آج مختلف ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں ۔ ہمارے قائد نے ہمیں اتحاد‘ تنظیم اور یقین محکم پر عمل کی ہدایت کی تھی کہ صرف انہی ستونوں پر عمل کرکے پاک سر زمین کو ترقی و کامرانی کی شاہراہ پر گامزن کیا جاسکتا تھا ۔ اس کے بر خلاف ملک میں آپ کہیں بھی چلے جائیں اس طرح کی باتیں آپ کو مایوسی کا شکار کردیں گی کہ میں پنجابی ‘ تم پٹھان ‘ یہ بلوچ وہ سندھی ہے ‘ کیا ہم اس راہ پر چل کر قوم و ملک کو مضبوط و مستحکم بنا سکتے ہیں ۔

قدرت نے تو ہمیں ہماری ضروریات کی ہر شے با افراط فراہم کی تھی تاہم ہمارے حکمرانوں نے کبھی بھی قدرتی وسائل کو اس ملک کی شان وشوکت میں چار چاند لگانے کے لئے استعمال نہیں کیا۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ کئی عشروں سے ہمارے سیاستدان مغربی ممالک کے در پر کشکول لئے کھڑے رہتے ہیں ۔ اس کا ایک سبب ملک میں وسیع پیمانے پر ہونے والی کرپشن بھی ہے ‘ اس کی ایک مثال رینٹل پاور پروجیکٹ بھی ہے جس پر 12 ارب ڈالر قومی خزانے سے خرچ کئے گئے۔ ملک اس وقت لوڈشیڈنگ کے جس عذاب سے گزررہا ہے اس نے ملکی ترقی کی شرح نصف کردی ہے۔ لوڈشیڈنگ کے باعث مملکت خداداد پاکستان کے حکمران یوپی ایس ‘ بیٹریوں اور جنریٹرز کی مد میں 23 ارب ڈالر سالانہ خرچ کررہے ہیں ‘ اس کے برعکس کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے صرف 7 ارب ڈالر درکار تھے جس سے 700 میگاواٹ بجلی صرف 60 پیسے فی یونٹ کی شرح سے پیدا کی جاسکتی تھی ۔ بد قسمتی سے کالا باغ ڈیم کا معاملہ سیاسی دکانداری چمکانے کے لئے استعمال کیا گیا ۔ تاہم چاروں صوبوں کے درمیان عدم اتفاق کی صورت میں حکمران دوسرے متبادل ڈیمز تیار کرکے بھی مطلوبہ مقاصد حاصل کرسکتے تھے ۔ ڈیمز کی موجودگی کی صورت میں آج قوم کو سیلاب کے باعث اس تباہی سے دوچار نہ ہونا پڑتا جس کا اب سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
ملکی وسائل کی لوٹ مار کے حوالے سے ایک اور مثال صورتحال کو سمجھنے میں مدد فراہم کرسکتی ہے ۔ چین اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے تاہم وہاں وزراءکی تعداد صرف 14 ہے ‘ انڈیا کی ایک ارب 27 کروڑ آبادی کے لئے 32 وزراءکی خدمات حاصل کی گئی ہیں ‘ 32 کروڑ آبادی والے ملک امریکہ کے تمام معاملات صرف 14 وزراءسنبھالے ہوئے ہیں ‘ اس طرح انگلینڈ کی 13 کروڑ آبادی کے لئے صرف 12 وزراءرکھے گئے ہیں ‘ اس کے بر خلاف پاکستان کی صورتحال بتاتے ہوئے شرمندگی کا احساس غالب آتا ہے ‘ 17 کروڑ آبادی والے اس ترقی پذیر ملک میں عوام کے مسائل حل کرنے کے نام پر 96 وزراءوزرائے مملکت اور مشیر قومی خزانے سے بھاری تنخواہیں اور مراعات حاصل کررہے ہیں ۔

بد قسمتی سے سیلاب نے بھی پہلے سے کمزور معیشت پر مزید دباؤ ڈالا ہے جبکہ اپنے قیام کے بعد سے ملک پر حکمرانی کرنے والے تقریباً تمام سیاست دانوں نے پاکستان کو قائداعظم کے خوابوں کی تعبیر بنانے کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کو تقویت دی‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قیام پاکستان کے بعد ہم نے صفر سے اپنا سفر شروع کیا اور آج ہم دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت ہیں‘ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اقتصادی استحکام کے بغیر کوئی بھی ملک مضبوط بنیادوں پر کھڑا نہیں ہوسکتا ‘ سوویت روس کی مثال ہمارے سامنے ہے ‘ فوجی لحاظ سے مضبوط ترین اور دوسری عالمی سپر پاور ہونے کے باوجود اقتصادی طور پر کھوکھلا ہونے کے باعث یہ نصف درجن سے زائد ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے سیاستدانوں سے مایوسی کے باعث کیا ملک کے مستقبل سے بھی مایوس ہوجائیں؟ ہر گز نہیں ‘ مجھے یقین ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مستقبل تابناک ہوگا ‘ وہ وقت دور نہیں جب اسلام کے قلعے کی حیثیت سے پہنچانے جانے والا یہ ملک ترقی و کامرانی کی ایسی شاہراہ پر گامزن ہوجائے گا جس کی سمت ترقی و کامرانی ‘ استحکام اور اقبال مندی کی جانب ہو گی۔

آئیے آج ہم عہد کریں کہ پاکستان کو بابائے قوم کے خوابوں کے مطابق ایک جدید اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے لئے اپنا تن من دھن قربان کردینگے ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک ایسا پاکستان حوالے کرکے جائیں گے جس کا فلسفہ حکمرانی صرف اور صرف دنیائے اسلام کی قابل رشک ترقی ہوگا ‘ ملک بھر میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ افراد کی ہلاکت اور ایک کروڑ سے زیادہ کے بے گھر ہونے کے باعث ہمیں اس بار یوم پاکستان رسمی طور پر منانے کی بجائے یوم دعا اور یوم عزم کے طور پر منانا چاہئے ‘ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے مقاصد میں کامیاب فرمائیں (آمین ) (۔گزشتہ سال آنے والے بدترین سیلاب کے بعدپہلے یوم پاکستان کے موقع پر2010-8-15 کولکھا گیا)
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 77835 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More