ہائے اس زُودپشیماں کا پشیماں ہونا

...کراچی میں تشددکی حالیہ لہر میں اب تک 100کے لگ بھگ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔بلاشبہ متحدہ قومی موومنٹ کے رکن صوبائی اسمبلی کی ہلاکت نے شہریوں کومشتعل کردیا ۔تاہم بے گناہ لوگوں کی ہلاکت کا آغاز رضا حیدر کے افسوسناک قتل سے نہیں ہوا۔ یہ سلسلہ پچھلے کئی برسوں سے جاری ہے۔

کراچی کے شہریوں کویقینی طورپر اس وقت شدید حیرت ہوئی جب وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے ٹارگٹ کلنگ کی شدت بڑھ جانے پراپنے دورہ کراچی میں تسلیم کیاکہ طالبان نے شہر میں مضبوط مراکز قائم کرلئے ہیں۔ان کا کہناتھا کہ یہ دوسیاسی جماعتوں کی لڑائی نہیں ہے بلکہ طالبان کی مدد سے کالعدم فرقہ پرست جماعتیں اپنے مذموم مقاصد کے تحت کراچی میں امن وامان کا مسئلہ پیدا کررہی ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ کے اس موقف پرمجھ سمیت بہت سے لوگوں کوشدید حیرت ہوئی۔ ان کی جانب سے صورتحال کویہ رخ دینا ان کی سیاسی مجبوری تھی کیونکہ متحدہ قومی موومنٹ اوراے این پی دونوں ہی وفاقی اورصوبائی سطح پرحکومت کی اتحادی ہیں۔ دونوں میں سے کسی ایک کی ناراضگی وفاق میں حکومت کوداﺅد پر لگاسکتی ہے کیونکہ جعلی ڈگریوں کے معاملے پرپہلے ہی پیپلزپارٹی کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کم ہوچکی ہے۔

اگروفاقی وزیرداخلہ اورحکومت نے طالبان کی کراچی میں موجودگی کا اعتراف پوری ایمانداری سے کیاہے توسوال یہ پیدا ہوتاہے کہ انہوں نے دوسال قبل اس حقیقت کا اعتراف کیوں نہیں کیا جب متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین باربار کراچی میں طالبان کی موجودگی کی طرف توجہ دلارہے تھے۔

اسی عرصہ کے دوران القاعدہ اورطالبان کے دوسرے اورتیسرے درجہ کی قیادت کی کراچی کے مختلف علاقوں سے گرفتاری نے یہ ثابت کردیا کہ الطاف حسین کے خدشات درست تھے تاہم حکومت اپنے سیاسی مفادات کے باعث اس حقیقت کوتسلیم کرنے پرتیارنہیںتھی کہ طالبان نے کراچی کوبھی اپنی سرگرمیوں کا مرکزبنالیاہے۔اسی دوران مختلف عسکری مبصرین نے بھی حکومت کومتنبہ کیاتھا کہ طالبان اس حقیقت کوسمجھ چکے ہیں کہ افغانستان میں اتحادی فوجوں کوناکام بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان کی سپلائی لائن کوکاٹ دیاجائے جس کا آغاز کراچی سے ہوتاہے۔ اتحادی فوجوں کے لئے تمام ترآئل اوران کے استعمال کی دیگراشیالے جانے والے کنٹینرز کراچی سے ہی روانہ ہوتے ہیں۔ ان مبصرین نے یہ بھی واضح کیاتھا کہ طالبان اورالقاعدہ ارکان کراچی میں پختون آبادیوں میں ٹھکانے بنائیں گے کیونکہ پشتون نسل ہونے کے باعث انہیں مقامی پشتون آبادی میں باآسانی گھل مل جانے کے مواقعے حاصل ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دوسال قبل جب جرات کے کرائم رپورٹرنے اورنگی کی پہاڑیوں اورسلطان آباد میں طالبان کی مشکوک سرگرمیوں سے متعلق رپورٹ دی تواس کی اشاعت پربہت سے حلقوں کی جانب سے شکوک وشبہات کا اظہار کیاگیا ۔میں نے بھی اپنے آرٹیکلز میں اس جانب توجہ مرکوز کروائی تاہم بیشتر افراد کی جانب سے طالبان کی کراچی میں آمد کوایک سیاسی ایشوقرار دیاگیا۔ متحدہ قومی موومنٹ اوراس کے قائد پرمختلف مذہبی جماعتوں بالخصوص ایک نسلی تنظیم کی جانب سے سخت تنقید کی گئی۔ ان کاکہناتھا کہ پختون یہاں روزگار کی تلاش میں آتے ہیں۔ انہیں دووقت کی روٹی کاحصول ہی مشکل ہوتاہے تووہ امن وامان کے لئے کس طرح خطرہ بن سکتے ہیں۔

بلاشبہ صوبہ خیبرپختونخواہ کے لوگوں نے کراچی شہر کی ترقی میں اہم کردارادا کیاہے۔ ملکی وصوبائی معیشت پختونوں کے بغیر ہرگزترقی نہیں کرسکتی تھی۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام مافیاﺅں نے پختون شناخت کے تحت خود کو تحفظ دیا۔ جب متحدہ کی جانب سے طالبان کی شہرمیں آمد کے حوالے سے بات کی گئی تواسے پختون برادری کے خلاف سازش قرار دیاگیا۔ آخران 100کے لگ بھگ ہلاکتوں کی ذمہ داری کس پرعائد ہوتی ہے۔ حکمراں پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے بعض صوبائی وزراءبشمول وفاقی وزیر داخلہ خود کومعصوم افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔

اگرحکومت دوسال قبل الطاف حسین کے انتباہ پرکان دھرلیتی توشاید آج کراچی آگ وخون کے اس کھیل سے بچ سکتاتھا۔ اب توصورتحال یہ ہے کہ رحمن ملک خود صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کٹی پہاڑی پر طالبان قابض ہوگئے ہیں اورکراچی کے عوام کی جان ومال کوتحفظ دینے کے لئے ضروری ہوا توفو ج بھی طلب کی جاسکتی ہے۔وفاقی وزیر کا کہناتھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے شہیدرکن صوبائی اسمبلی کے قتل کی تحقیقات کے لئے کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ ضرورت پڑی تواعلیٰ سطح کاعدالتی کمیشن بھی قائم کیاجائے گا۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ذمہ دار سیاسی رہنما قوم کوحقائق کے بارے میں کبھی بھی سچ نہیں بتاتے۔عموماً ایک رہنما کسی مسئلہ پر جوموقف اختیار کرتاہے دوسرا اس کے قطعی برخلاف بات کرتاہے۔دیرآید درست آید کے تحت رحمن ملک نے اعتراف کیا کہ کراچی میں طالبان نے مضبوط ٹھکانے بنالئے ہیں جوکہ امن وامان خراب کرنے کے لئے کارروائیاں کررہے ہیں۔اسی روز وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے سرگودھا میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ تیسری طاقت کراچی میں حالات خراب کرنے کی ذمہ دار ہے۔بعض رپورٹروں نے جب ان سے ”تیسری طاقت“کی وضاحت کرنے کے لئے کہا تووہ کوئی واضح جواب دینے میں ناکام رہے۔ انہوں نے درحقیقت ”تیسری قوت“ کی پھلجڑی چھوڑ کرعوام کا ذہن فوج ،انٹیلی جنس ایجنسیوں بالخصوص غیر ممالک کی جاسوس ایجنسیوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے پرلگادیا۔ ایک جانب وفاقی وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ کٹی پہاڑی پرقابض طالبان سے قبضہ چھڑانے کےلئے ضرورت پڑنے پرفوج بلوائی جاسکتی ہے تواسی دن وزیراعظم کا کہناتھا کہ کراچی میں امن وامان کی بحالی کے لئے کسی قسم کے فوجی آپریشن کا کوئی امکان نہیں ۔عوام حیران وپریشان ہیں کہ کس کی بات کودرست سمجھیں اورکسے غلط۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے حکومت یہ طے کرلے کہ طالبان سے متعلق اس کی پالیسی کیا ہے۔ یہ تواچھا ہوا کہ دوسال بعدہی وفاقی وزیر داخلہ نے اپنے موقف پر پشیماں ہوکریہ حقیقت تسلیم کرلی جس کی متحدہ دوسال قبل سے نشاندہی کررہی تھی۔

جمعہ کے روز وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ اوراے این پی کے وفودسے ملاقات کی۔ انہوں نے حسب توقع کسی انقلابی اقدام کااعلان کرنے کی بجائے اتحادی جماعتوں کوایک ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے وہی گھسا پٹا موقف اختیار کیا کہ شرپسندوں سے قانون کے مطابق سختی سے نمٹاجائے گا اورکسی کے ساتھ قطعی رعایت نہیں برتی جائے گی۔وزیراعظم شہر میں لینڈ مافیا ،ڈرگ مافیا اوراسلحہ مافیا کے خلاف کسی آپریشن کااعلان کرنے میں ناکام رہے۔ بعدازاں وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ شرپسند کراچی چھوڑدیں۔ان کے خلاف جلد آپریشن کیاجائے گا۔

وزیرداخلہ کا شرپسندوں کوکراچی چھوڑدینے وگرنہ آپریشن کرنے کابیان ان کی سادہ لوحی نظرآتاہے۔ کیا شرپسند اتنے ہی فرمانبردار ہیں کہ وزیر داخلہ کے مشورے پرواپس اپنے محفوظ ٹھکانوں پرلوٹ جائیں گے۔ اگروہ حکومت کے اتنے فرمانبردار ہوتے تویقینا پہاڑوں سے اترکرہزاروں میل دورکراچی نہ آتے۔

وزیرداخلہ نے یہ بھی بتایا کہ کراچی میں دفعہ144 نافذ کردی گئی ہے جس کے تحت کھلے عام اسلحہ لہرانے پرگرفتار کرلیاجائے گا۔ وہ یہ بتائیں کہ ڈبل سواری پربھی پابندی ہے جس کی خلاف ورزی پرپولیس اکثر مجبوراً ڈبل سواری کرنے والوں کوگرفتار کرتی رہتی ہے۔ تاہم اس کے باوجود شرپسند عناصر اپنی کارروائیاں ڈبل سواری پرہی کرتے ہیں۔

وزیرداخلہ صاحب اس طرح کے بیانات سے کراچی میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔اگرحکومت سنجیدگی سے شہرمیں امن وامان کا قیام چاہتی ہے تومافیاﺅں کے خلاف جارحانہ کارروائی کرنی ہوگی۔ یہ کارروائی خصوصی علاقوں تک محدود نہیں ہونی چاہئے بلکہ کراچی کی حدود میں شامل ایک ایک مکان کی تلاشی اس کارروائی کا ہدف ہوناچاہئے۔ اس کارروائی کے دوران ہرشخص کی شناختی دستاویزات کوبھی خصوصی طورپر چیک کیاجاناچاہئے۔ ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق لاکھوں افغانیوں ،بنگلہ دیشیوں،برمیوں اوروسطی ایشیائی ممالک کے باشندوں نے بھاری رشوتوں کے عوض پاکستان کے قومی شناختی کارڈز اورپاسپورٹس حاصل کرلئے ہیں۔

حکومت کوا س حقیقت کوبھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ کئی دوست نما دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بھارت، اسرائیل اوردیگرممالک کی ایجنسیوں کے ہمراہ کراچی میں سرگرم ہیں۔ان کا بنیادی مقصد ہمارے اقتصادی مراکزپرضرب لگاناہے۔ اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے بعض فرقہ پرست تنظیموں کا تعاون بھی حاصل کرلیاہے۔ گوکہ متحدہ قومی موومنٹ کی کاوشوں سے دشمنوں کی تمام ترکوششوں کے باوجود کراچی تاحال فرقہ پرستی کی لپیٹ میں نہیں آیا ہے تاہم فرقہ وارانہ بنیاد پرہونے والی ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں مقامی سطح پر اشتعال پیدا ہوتاہے یہ اشتعال احتجاج کی شکل میں جلاﺅ گھیراﺅ اورہڑتالوں کا باعث بنتاہے۔ ہمارے دشمن یہی چاہتے ہیں کہ ملک بالخصوص کراچی میں افراتفری پیدا کرکے شہری معمولات درہم برہم کردیئے جائیں تاکہ اس طرح ملکی اقتصادیات کودھچکا پہنچایاجاسکے۔ ملک کا سب سے بڑا تجارتی وصنعتی مرکز ہونے کے باعث کراچی میں معمول کی سرگرمیاں صرف ایک روز کے لئے معطل ہونے کی صورت میں قومی خزانے کو3ارب روپے یومیہ سے زیادہ کا نقصان برداشت کرناپڑتاہے۔

اگرحکومت نے اب بھی سنجیدگی سے اقدامات نہیں اٹھائے توخدشہ ہے کہ معاملات اس کی گرفت سے نکل جائیں گے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت سیاسی مفادات ایک طرف رکھتے ہوئے کراچی کے معصوم عوام کوظالم درندوں کی گولیوں کا نشانہ بننے سے بچائے۔ یہی طریقہ ہے جس سے حکومت اپنے عرصہ اقتدار کوبھی تحفظ دے سکے گی۔

( کراچی میں گزشتہ برس ٹارگیٹ کلنگ انتہا کو پہنچ جانے پر لکھا گیا جو کہ روزنامہ جرات میں شائع ہو چکا ہے)
 
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 77820 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More