غدار ہونا اچھی بات نہیں ہے
(Wusat Ullah Khan, Karachi)
|
|
جب ایک خصوصی عدالت نے گذشتہ برس دسمبر میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز
مشرف کو آئین سے غداری کے جرم میں سزائے موت سنائی تو فوج کے محکمہ تعلقاتِ
عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ایک پریس ریلیز ٹویٹ
کیا۔
’خصوصی عدالت کے فیصلے نے مسلح افواج کے افسروں اور جوانوں کو اضطراب اور
صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ ایک سابق آرمی چیف، جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا
چیئرمین اور صدرِ پاکستان جس نے 40 برس سے زائد ملک کی خدمت کی اور ملکی
دفاع کے لیے جنگیں لڑیں ہرگز غدار نہیں ہو سکتا۔ ایسا لگتا ہے کہ خصوصی
عدالت کی تشکیل کے عمل، اپنے دفاع کے بنیادی حق، قانونی کاروائی صرف ایک
شخص کی ذات کے خلاف مرتکز کرنے اور مقدمے کو عجلت میں نمٹانے کے عمل میں
جائز قانونی طریقِ کار کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ افواجِ پاکستان کو توقع ہے
کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق انصاف کیا جائے گا۔‘
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک ریٹائرڈ شخص کے بارے میں
عدالتی فیصلے پر مسلح افواج کی جانب سے کھل کر تبصرہ کیا گیا ہو۔ حالانکہ
روایتی طور پر ایسے ردِعمل کی توقع ریاست کی وزارتِ قانون یا کسی متعلقہ
ذمہ دار آئینی عہدیدار سے کی جاتی ہے۔
البتہ اس تبصرے سے یہ واضح ہو گیا کہ کسی کو اگر کوئی عدالت بھی غدار قرار
دے دے تو اس کے سابق ادارے یا بہی خواہوں کو کس قدر صدمہ ہوتا ہے۔
اب ذرا ان سیاستدانوں یا سویلینز کے اضطراب اور دکھ کا اندازہ لگائیے جنھیں
بغیر مقدمہ چلائے تھوک کے بھاؤ غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کیے جاتے ہیں۔
راتوں رات شاہراہوں پر ان کی غداری کے بینر لگ جاتے ہیں، سوشل میڈیا کے
آسمان پر ان کی غداری ٹرول کی شکل میں چھا جاتی ہے۔ غیر معروف لوگوں کی
جانب سے ان کے خلاف پرچے درج ہو جاتے ہیں۔
ان غداروں کو یہ سہولت بھی حاصل نہیں ہوتی کہ کوئی ادارہ ان کے پیچھے کھڑا
ہو اور پھر یہ مہم اچانک ایک دن صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے اور ہجوم
کسی نئے غدار کے تعاقب میں روانہ کر دیا جاتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ مہم تھمنے کے بجائے اور پست ہوتی جا رہی ہے۔ جب سے حزبِ
اختلاف نے حکومت کے خلاف جلسے شروع کیے ہیں۔ وزیرِ اعظم سے لے کر ان کے
نائب قاصد تک سب کو پاکستانی حزبِ اختلاف انڈیا اور اسرائیل کی ایجنٹ نظر آ
رہی ہے۔
کسی کو یاد نہیں کہ کل تک یہی انڈین و اسرائیلی ایجنٹ اس ملک پر منتخب
نمائندوں کی صورت میں حکومت کر رہے تھے۔ ان میں سے بہت سے ایجنٹ اس وقت بھی
رکنِ پارلیمان ہیں اور کل کلاں جب انتخابات ہوں گے تو ان میں سے کئی غدار
دوبارہ منتخب ہو کر اسی پاکستان کے آئین کے تحت حلف اٹھا رہے ہوں گے۔ |
|
|
|
کہا جاتا ہے کہ ’پارلیمنٹ سپریم ہے‘ اور پارلیمانی کاروائی کے دوران ایوان
میں ہونے والی تقاریر کو کسی دوسرے فورم پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ صرف
سپیکر یا سینیٹ چیئرمین فیصلہ دے سکتا ہے۔ مگر اب یہ تمیز بھی ختم ہو گئی
ہے۔
رکنِ قومی اسمبلی اور سابق سپیکر ایاز صادق کی ’ابھینندانہ تقریر‘ کے خلاف
غیر معروف لوگ تھانوں میں درخواستیں دے رہے ہیں۔ ان کے خلاف نامعلوم محبانِ
پاکستان کی جانب سے میر جعفر و میر صادق کے بینرز نمودار ہو گئے ہیں۔
اسی پارلیمان میں ایک وزیر پلوامہ میں ہونے والی دہشت گرد کاروائی کی ذمہ
داری قبول کر رہا ہے اور پھر اسے زبان کی پھسلن کہہ کر انڈین میڈیا پر بھی
برس رہا ہے۔ ایاز صادق بھی انڈین میڈیا کو بیان مسخ کرنے کا الزام دے رہے
ہیں۔
انڈین میڈیا پر غصہ ایسے ہی ہے جیسے چرچل جرمنی سے شکوہ کرے کہ نازی میڈیا
اس کی تقاریر کو مسخ کر کے پیش کر رہا ہے یا بلی سے شکایت کی جائے کہ اس نے
پرات میں پڑا دودھ بلا اجازت کیسے پی لیا۔
شاید اتنا کافی نہیں تھا لہٰذا آئی ایس پی آر نے بھی پارلیمانی تقریر پر یہ
تبصرہ کرنا ضروری سمجھا کہ انڈین پائلٹ ابھینندن کی رہائی کی بابت جو بیان
دیا گیا ہے وہ قومی سلامتی سے متعلق تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف
ہے۔
یقیناً کسی ذمہ دار شخصیت کی جانب سے قومی سلامتی سے متعلق تاریخی حقائق
مسخ کرنا انتہائی غیر ذمہ دارانہ عمل ہے۔ مستقبل میں ایسی کسی حرکت کو
روکنے کے لیے ضروری ہے کہ جو جنگیں اور واقعات (مثلاً اڑتالیس، پینسٹھ،
اکہتر، افغانستان، کارگل، ایبٹ آباد، چار مارشل لا) اب تاریخ کا حصہ ہیں ان
کے آرکائیوز کھول دیے جائیں تاکہ قومی سلامتی سے متعلق دودھ کا دودھ اور
پانی کا پانی ہو جائے اور آئندہ کسی بھی ہما شما کو تاریخ مسخ کرنے کی جرات
نہ ہو۔
بقول محشر بدایونی:
دیوں کو خود بجھا کر رکھ دیا ہے
اور الزام اب ہوا پر رکھ دیا ہے
|
|
Partner Content: BBC Urdu |
|