تحریر : محمد اسلم لودھی
آپریشن آپریشن کھیلتے ہوئے ہمیں دس سال کا عرصہ گزر چکا ہے جو فوجی آپریشن
دشمن ملکوں کے خلاف کئے جاتے ہیں وہ ہم اپنے ہی ملک میں اپنے شہریوں کے
خلاف کرکے تھک چکے ہیں ان آپریشنوں کی وجہ سے ملنے والے زخم کبھی مندمل
نہیں ہوسکتے ۔ جنگی طیاروں اور ٹینکوں سمیت وہ کونسا اسلحہ ہوگا جو سوات
اور قبائلی ایجنسیوں میں اب تک استعمال نہیں کیا گیا لیکن اس کا کیا نتیجہ
نکلا ۔ پاک فوج کے 3500 افسر اور جوان شہید کروانے کے ساتھ ساتھ ہزاروں
جوان معذور اور اپاہج بھی ہوچکے ہیں ان کے لواحقین اور اہل خانہ کس حالت
میں ہیں ٬ کسی کو ان کی خبرنہیں ۔ لیکن ابھی ایک آپریشن ختم نہیں ہوتا کہ
دوسرے کا آغاز کردیا جاتا ہے ۔دنیا میں (سوائے لیبیا کے) کہیں بھی ایسی
مثال نہیں ملتی کہ فوج اپنے ہی ملک میں ٬ اپنے ہی شہریوں کے خلاف اندھا
دھند بمباری کرتی نظر آئے۔لیکن یہ سب کچھ پہلے جنرل پرویز مشرف اور اب
امریکی کٹھ پتلی حکمرانوں کے ایما پر ہو رہا ہے ۔ وزیر داخلہ بڑے فخر سے
کہتے ہیں کہ جہاں پر حکومت کی رٹ چیلنج ہوگی وہاں پر آپریشن کیا جائے گا
لیکن ان پے درپے فوجی آپریشنوں کی وجہ سے حکومتی رٹ نہ صرف قبائلی ایجنسیوں
بلکہ پورے ملک میں بھی ختم ہوکر رہ چکی ہے اور سارا ملک ہی نہ صرف بم اور
خود کش دھماکوں کی لپیٹ میں آچکا ہے بلکہ فوج سمیت کوئی بھی ادارہ اور ان
کی تنصیبات اور املاک محفوظ نہیں رہیں ۔اس میں شک نہیں کہ پاک فوج کا شمار
دنیاکی بہترین اور جنگجو افواج میں ہوتا ہے اور اس بات کا اعتراف امریکہ
سمیت ساری دنیا کرتی ہے لیکن پاک فوج کی یہ جنگی صلاحیت آخر کب تک قائم رہے
گی ۔ افغانستان سے واپس جانے والے آدھے سے زیادہ امریکی فوجی اگر پاگل پن
اور ان گنت نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوکر نارمل زندگی گزارنا بھول چکے ہیں
تو ہمارے فوجی جوانوں کی صلاحیت کو امریکہ کے کہنے پر کیوں زنگ آلود کیا
جارہا ہے ۔فوج کا کام ہے ایکشن کرے اور چند ہفتوں میں رزلٹ حاصل کرکے واپس
لوٹ جائے لیکن جہاں فوج سال ہاسال تک خانہ جنگی جیسے حالات میں پھنس جاتی
ہے جہاں دوست اور دشمن کی کوئی پہچان نہیں رہتی تو بڑی سے بڑی فوج کو بھی
اپنی صلاحیت اور وجود برقرار رکھنا محال ہوجاتا ہے ۔باجوڑ ٬سوات ٬مہمند
ایجنسی ٬ جنوبی وزیر ستان ٬خیبر ایجنسی میں کتنی بار آپریشنز ہوچکے ہیں
لیکن ان آپریشنز کو کسی بھی طرح کامیاب نہیں کہا جاسکتا کیونکہ نہ صرف تمام
قبائلی ایجنسیوں میں انسانی زندگی محال ہوچکی ہے بلکہ رد عمل کے طور پر وہ
پرامن لوگ بھی تخریب کاروں کے ہمنوا بن کے بم اور خود کش دھماکے کرنے پر
مجبور ہوچکے ہیں جن کے ماں باپ بہن بھائی فوجی آپریشنوں میں ہلاک ہوچکے ہیں
جبکہ ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے بے گناہ 2600 قبائلی اس کے علاوہ ہیں ۔
اب شنید یہ ہے کہ امریکہ جس نے پہلے ایبٹ آباد میں پاکستان کی خودمختاری کی
دھجیاں بکھیرتے ہوئے اسامہ کے خلاف نام نہاد آپریشن کر کے پاکستانی افواج
کی جنگی صلاحیت کو صفر کرکے رکھ دیا ہے تازہ ترین شواہد کے مطابق وہی
امریکہ اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو اندھیرے میں دیکھنے والے عینکیں اور
واکی ٹاکی فراہم کرکے اورین جیسے کثیر المقاصد طیاروں کو تباہ کرکے پاکستان
کے فضائی نگرانی کے نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکا ہے اب وہی امریکہ
پاک فوج کی رہی سہی جنگی صلاحیت اور قوت ایمانی کو مزید منتشر کرنے کے لیے
شمالی وزیر ستان میں آپریشن کا حکم دے رہا ہے ہاتھوں میں کشکول لیے امریکی
حکمرانوں کے سامنے جھکے ہوئے حکمرانوں کو شاید اس بات کا احساس نہیں ہے کہ
اگر شمالی وزیر ستان میں فوجی آپریشن شروع کردیا گیا تو نہ صرف پاک فوج کی
جنگی صلاحیتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا بلکہ اندرون ملک امن و امان
کی پہلے سے موجود بدترین صورت حال کو مزید آگ دکھانے کے مترادف ہوگا ۔ پاک
فوج پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہے جب تک اس کے مورال کو گرایا
نہ گیا٬ جب تک پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کی جنگی صلاحیتوں کو زنگ آلود
نہ کیاگیا اس وقت تک پاکستان کو نہ تو بھارت نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی
امریکہ ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ بھارت اور افغانستان باہم مل کر حریص اور
کرپٹ ترین پاکستانی حکمرانوں کو بیساکھیاں بنا کر پاک فوج کو شمالی وزیر
ستان میں کچھ اس طرح الجھا دیناچاہتے ہیں کہ رہی سہی کسر بھی پوری ہوجائے
اور مائیں اپنے بیٹوں کو فوج میں جانے کی اجازت نہ دیں ۔ پاک فوج پر آج جس
قدر تنقید ہورہی ہے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی یہ سب کیا دھرا دوست کے روپ
میں چھپے ہوئے بدترین دشمن امریکہ کا ہے جس کے ہر حکم پر نہ صرف ہم اپنے
قبائلی علاقوں میں آپریشن پر آپریشن کرتے جارہے ہیں بلکہ امریکی خفیہ
ایجنسی سی آئی اے ٬ بلیک واٹر٬ زی ٬ ڈائن کارپ کے ہزاروں ایجنٹوں کو
پاکستان کے طول و عرض میں جاسوسی ٬ تخریب کاری اور دہشت گردی کا جال بچھانے
کی اجازت بھی ہم نے دے رکھی ہے ۔ |