سبق جو نه سيكهے

یہ کسی بھی ملک کی بدقسمتی ہوتی ہے کہ اس کا پڑھا لکھا طبقہ اس کے خلاف باتیں کرنے لگے.یہاں ہم اکانومی کا رونا روتے رہتے ہیں جبکہ یہ ملکی سلامتی سے اهم نہیں ہے. پاکستان کا اس خطے میں کوئی دوست نہیں اسے خود ہی اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے. سی پیک کے بعد ہمیں بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے گلف سٹیٹس‘ تیل‘ گوادر کی بندرگاہ‘ كشمير‘ FATF ' OIC' بيروني قرض‘ كمزور معيشت‘ دهشتگردي وغيره

یہ دوسري جنگ عظیم کے بعد کی بات ہے جب امریکی خفيه اداروں کو شبہ ہوا کہ روسیوں نے ایک ایسی دوائی دريافت کرلی ہے جو کہ انسانی ذہنوں کو کنٹرول کر سکے گی تو امریکی خفیہ ایجنسی نے بھی اپنا پروگرام ایم کے الٹرا شروع کردیا. یه پروگرام 1950 اور 60 کے درمیان چلایا گیا جس کو مشہور کیمسٹ گوٹلیب نے کامیابی کی بلندیوں پر پہنچایا.

مشھور جرنلسٹ سٹيفن کنزر نے کئی سالوں کی عرق ریزی کے بعد سب کچھ پر سے پردہ اٹھایا ہے. کنزر کے مطابق گوٹلیب کے تجربات کو خفیہ طور پر یونیورسٹیوں, جیلوں اور دوسرے تحقیقاتی اداروں میں شروع کرایا گیا اور اس کے لیے فنڈ نگ بھی کی گئی‘ بڑے ہی ظالمانہ اور غیر انسانی طريقے جيسے بجلی کے جھٹکوں سے لےکر دوائی كي زیادہ مقدار دینے تك سب معمولی کام تھے تا کہ لوگوں کے ذہنوں کو کنٹرول کیا جائے. اس کے لئے اس کے پاس دو طريقے تھے پہلے مرحلے میں انسانی ذہن کو بلاسٹ کر دیا جائے اور دوسرے میں ایک نئی سوچ والا ذہن تیار کیا جائے.أن سارے تجربات میں بہت سارے انسان مرے جب کہ بہت زياده مکمل طور پر اپاہج ہوگئے یا پاگل بن گئے. اپنی کتاب پائزنر انچیف (Poisoner in Chief) میں کنزر لکھتا ہے کہ انسانی ذہن کو کنٹرول کرنے کے پروگرام کی کامیابی کیلئے ایک دوائی درکارتھی جسے کہ پوری دنیا سے امریکہ لایا گیا اس پر انیس سو پچاس کے عشرے میں دو لاکھ چالیس ہزار امریکی ڈالر خرچ کیے . اس دوائی کو بوگس فاؤنڈیشنوں کے ذریعے ہسپتالوں, جیلوں اور سرچ سنٹرز میں پھیلا دیا گیا تاکہ اس پر کام کیا جا سکے که کیسے یہ دوائی مائنڈ کنٹرول کرنے میں معاون ہے . شروع میں تو لوگوں کو یہ دوائی بہت بھلی لگی اور بڑے بڑے نامور ادیب بھی اس کار خیر میں استعمال ہوگئے کیوں کہ وقتی طور پر یہ انسانی ذہن کو سکون دیتی تھی .

اس کتاب کے مطابق شیزوفرینیا کا ایک مریض وايٹي بلگر جو کہ قیدی تھا اسے ایک سال تک یہ دوائی دی گئی. شیزوفرینیا کو تو افاقہ نہ ہوا البتہ وہ اپنے دماغ سے ہاتھ دھو بیٹھا. بلگر نے بعد میں اپنی یادداشتوں میں لکھا "میں جیل میں تھا کیونکہ میں نے جرم کیا تھا لیکن وہاں حکام نے مجھ سے اس سے بھی بڑا جرم کیا میں تو پاگل بننے لگا تھا".

سی آئی اے نے دراصل ان لوگون كو بھرتی کیا تھا جو کہ جاپانی اور جرمن نازی کیمپوں میں ايذه رساني کا کام کرتے تھے نازیون پر بھی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان کے ڈاکٹر کیمپ میں خطرناك دوائي مسکالین استعمال کرتے تھے. دوسرا يه كه گرفتار نازیون نے امریکیوں کو بتایا کہ وہ زہریلی گیس سرین کا استعمال بھی کرتے تھے.

دوسری جنگ عظیم کے ختم ہونے کے بعد سی آئی اے نے بھی انیس سو پچاس کے عشرے میں خفیہ ديٹینشن detention کیمپ قائم کیے. یہاں جرمنی اور جاپان کے لوگون کو لایا جاتا ان پر مختلف طرح کے تجربات کیے جاتے‘ منشیات دی جاتی‘ جهٹکے لگائے جاتے‘ تنہائی میں رکھا جاتا‘ بہت ہی کم یا بہت ہی زیادہ درجہ حرارت ديا جاتا یا پھر ان کی عزت نفس پر حملے کیے جاتے. کہا جاتا ہے کہ گوٹلیب کے پاس لائسنس ٹوکل (licence to kill) تھا جو جہاں سے بھی' جس کو چاہے' لاتا اور اپنے مقروح تجربات کی بھینٹ چڑھا دیتا. کوئی بھی اسے پوچھنے والا نہ تھا . مبینہ طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فیڈل کاسترو اور دوسرے عالمی رہنما بھی اس کے نشانے پر تھے.

کنزر نے اپنی کتاب میں ان حیلوں بہانوں پر سے بھی پردہ اٹھایا ہے جن سے مختلف لوگوں کو استعمال کیا جاتا تھا. خوبصورت جسم فروش خواتین کو روپیه لگایا جاتا که وہ مختلف لوگوں کو سی آئی اے کے کیمپوں میں لائیں اور انہیں معین ٹریننگ اور دماغ کو بدلنے والی منشیات دی جاتین.

واضح رہے کہ امریکی پہلے لوگ نہیں تھے جنهوں نے انسانی ذہن کو کنٹرول کرنے پر کام کیا اس سے پہلے راسپوٹین‘ سینیگالی اور ميسمر وغیرہ نے بھی اس په کام کیا تھا. وہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ ایسی طاقت کے حامل تھے کہ کسی کے دماغ کو بھی کنٹرول کر سکتے تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راسپوٹین اسی طاقت کی بدولت زار خاندان کی خواتین تک پہنچ جاتا اور انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بناتا تھا. گوٹليب بعد میں ڈاکٹر ڈيته کے نام سے بھی مشہور ہوا.

اس طرح دوسری جنگ عظیم میں بہت سارے مشنریز کو بھی جاسوس کے طور پر استعمال کیا گیا جیسا کہ افریقہ' عرب اور دوسرے ممالک میں یہی مذہبی لوگ روپ بدل کر مقامی مذہبی لوگوں کو دھوکہ دے سکتے تھے اور ایکسپلائٹ کرسکتے تھے کیونکہ جتنی بھی خفیہ کارروائیاں ہوتی تھی مقاصد کے حصول پر ان کی توجہ مرکوز ہوتی تھی نہ کہ ذرايع پر.

كس نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ اگلی سلطنتیں دماغون میں بنين گی‘ امریکیوں نے اسے خوب سمجھا. نیو ورلڈ آرڈر دیا‘ برطانیہ کی طرح نوآبادیاتی نظام دینے کی بجائے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے دنیا پر حکمرانی قائم کی‘ ورلڈبنگ اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ جیسے اداروں کے ذریعے کمزور ریاستوں کو اپنے چنگل میں پھنسا لیا.

کہا جاتا ہے کہ انٹیلیجنس اتنی اہمیت کی حامل ہے کہ اسے صرف خفيه اداروں پر نہیں چھوڑا جا سکتا جیسا کہ كليمنسي نے کہا تھا کہ جنگ جیسا اہم معاملہ بھی جنرلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا. یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملک کے اندر ایجنسیاں انسانی جانوں کو بچا سکتی ہے جبکہ یہی ایجنسیاں باہر جانیں گنوا سکتی ہیں جیسا کہ نائن الیون‘ سات سات اور عراق کے معاملات میں ہوا اور ایجنسیوں پر سوالات اتھے اگر آج امریکہ کو عالمی تھانیدار نمبرايك کہا جاتا ہے تو اس کے پیچھے بھی ایجنسیاں ہیں. پاکستان میں بیرونی محاذ پر تو خاطر خواہ کامیابیاں ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اندرونی طور پر بھی ایجنسیوں کی اہمیت کے پیش نظر انہیں فعال کیا جائے‘ ریاستی پالیسی تشکیل ديتے وقت چاہیے کہ مصدقہ انٹیلیجنس ہو پاکستان چونکہ مافیاز کا گڑھ بنتا جارہا ہے تو یہان انٹیلی جنس نیٹ ورک کی ضرورت دوچند ہے.

جب قوموں کو طاقتور دشمن کا سامنا ہو تو چاہیے کہ دشمن سے آگے کی سوچیں. نائن الیون کے بعد امریکی اتحادیوں نے افغانستان میں پاکستان مخالف حکومت قائم کی اور تحریک طالبان کے ذریعے ہمیں اندرونی طور پر کمزور کرنے کی کاوش کی. پاکستان نے جو بھی آپریشن کیے یہ پاکستان کی سالمیت کے لیے ناگزیر تھے. کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے کے بعد ہمیں اندرونی اور بیرونی خلفشار کا سامنا نہیں ہے؟ اگر ہے اور یقینا ہے تو ہمیں اپنے انٹیلی نیٹ ورک کو وسيع كرنا هو گا.

انیس سو اکہتر میں بنگالی اساتذه نے نیشنلزم کے نام پر طلبا میں پاکستان کے خلاف بیج بوے تھے اس طرح کے بیج آج بھی بکھیرے جارہے ہیں.

یہ کسی بھی ملک کی بدقسمتی ہوتی ہے کہ اس کا پڑھا لکھا طبقہ اس کے خلاف باتیں کرنے لگے.

یہاں ہم اکانومی کا رونا روتے رہتے ہیں جبکہ یہ ملکی سلامتی سے اهم نہیں ہے. پاکستان کا اس خطے میں کوئی دوست نہیں اسے خود ہی اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے. سی پیک کے بعد ہمیں بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے گلف سٹیٹس‘ تیل‘ گوادر کی بندرگاہ‘ كشمير‘ FATF ' OIC' بيروني قرض‘ كمزور معيشت‘ دهشتگردي وغيره .

انگریز دور میں اسپیشل برانچ أور دوسري ايجنسيون کا کردار بہت اہم ہوا کرتا تھا اب اسے کمزور کیا گیا ہے. ہمیں یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان نے ساٹھ کی دہائی میں بے مثال ترقی کی دو بڑے ڈیم بنے‘ صنعت لگی‘ زراعت میں انقلاب آیا لیکن ستر کی دہائی میں اس کے اثرات کچھ اور ہی نکلے. ہوا کچھ یوں که جوزف فارلينڈ جو کہ امریکی سفیر تھا اس نے ہمیں عشره ترقی منانے میں لگا دیا جبکہ پاکستان مخالف قوتیں اندرونی خلفشار کو ہوا دینے میں لگ گي‘ كسي كو خطرات كا احساس نه هوا. ہندوستان نے بھی ہماری نالايقی کا خوب فائدہ اٹھایا اور پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیاب ہوگیا. ہم يه ہرگز نہیں کہتے کہ سیاسی و معاشی استحکام ضروری نہیں لیکن یہ ملک کی سلامتی کے بعد کی اجناس ہیں اسی پیرائے میں ہمیں ان تمام عوامل کی بيخكنی کرنی ہے جو ملکی سلامتی کے درپے ہیں. ہرشعبه ہاے زندگی سے لوگ یہاں استعمال ہو ے خواه سیاستدان ہوں‘ صحافی یا كچ دوسر ے اداروں کے روح رواں. دوہری شہریت رکھنے والون كو یہاں کے سیاہ و سفید کا مالک ہم نے ہی تو بنایا ہے.

یہ کہے بغیر چارا نہیں کہ یہاں افراد ادارے چلاتے ہیں قانون نہیں. ایک اعلی عہدیدار ایک اعلی ترین ادارے کے ترازو کو دائیں ہاتھ سے پکڑتا ہے تو دوسرا بائیں سے اور قانون بچارا منہ تکتے رہ جاتا ہے.

ہم ہرگز يه نہیں چاهتے کہ ہمارے ادارے بھی امریکی ڈاکٹر ڈیتھ کی طرح هون. ہم چاہتے ہیں کہ رياستی سلامتی اور اندرونی خلفشار سے عهده برآ هونے کے لیے سرحدوں سے لے کر گلی محلے تک پھیلا دیا جائے اس سے نہ صرف رياست مضبوط ہوگی بلکہ ریاست گریز قوتیں کمزور ہونگی. يه ادارے جرائم کے خاتمے اور امن و امان كيليےكردار ادا كر سكتے ہیں.

جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گهرفاقے تھے تو دیواروں پر تلوارين لٹكتی تھیں اور ریاست مدینہ کا خفیہ نیٹ ورک سرحدوں تک پھیلا ہوا تھا.

بعد کے ادوار میں آپس کی جنگ و جدل میں یہ نیٹ ورک کمزور ہوا' ریاست بٹ گئی اور مسلمان هارنےلگ گئے. یہی سب کچھ شکست اندلس کا شاخسانہ ثابت ہوا ‘ سلطنت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر منتج ہوا اور تخت دہلی کو تاراج کرنے میں کامیاب ہوا. سقوط دهاكه کے زخم تو ابهى تازه ہیں.


 

Javed Iqbal
About the Author: Javed Iqbal Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.