مہنگائی سے متاثرہ عوام گزشتہ سات دہائیوں سے ہر بار
حکومت کی تبدیلی کوہی مہنگائی میں کمی لانے کا زریعہ سمجھتی رہی ہے ، لیکن
افسوس ہر آنے والی حکومت مہنگائی کی چکی میں پِسی عوام کو مزید مایوس کر
دیتی ہے ،مہنگائی ، ذخیرہ اندوزی ختم کرنے کی امید اور توقع عمران خان کی
حکومت سے بھی رکھی گئی تھی، کئی دہائیوں سے مختلف پارٹیاں بدلتے بدلتے
عمران خان کی حکومت کا حصہ بننے والوں نے وہ ہی کچھ کیا جو کہ روایت بن چکی
ہے سابقہ حکومت کی خامیوں بُرائیوں اور لوٹ مار کے بیانات گزشتہ چھبیس ماہ
سے شدومد سے دیے جارہے ہیں حیرت کے سمندر میں سُننے اور دیکھنے والا اُس
وقت غوطہ کھاتا ہے جب اُسے پتا چلتا ہے کہ موجودہ حکومت کے ترجمان ،سابقہ
حکومتوں میں بھی کسی جماعت کا حصہ بن کر اسی زور شور سے بیان دیتے رہے ہیں
،سانچ کے قارئین کرام ! مہنگائی میں اضافہ اشیاء ضروریہ میں ہی نہیں بلکہ
ہر شعبہ میں ہوا ہے سبزیوں ، دالوں اور آٹا کے ساتھ ادویات کی قیمتوں میں
تین سے پانچ سو فیصد اضافہ اور بلڈنگ میٹریل ،الیکٹرونکس ،آٹو موبائل میں
بھی اضافہ گزشتہ دوسال میں تین سے پانچ سو فیصد تک ہو چکا ہے تادم تحریر
83روپے کلو والی چینی پاؤڈر کی شکل میں دستیاب ہے جبکہ معیاری چینی 100سے
105روپے کلو میں فروخت ہورہی ہے ،چکی کا آٹا 70روپے کلواور غیر معیاری
45روپے کلو میں فروخت ہورہا ہے ،سانچ کے قارئین کرام !وطن عزیز کے مختلف
شہروں میں قیمتوں میں انتہائی معمولی فرق تو موجود ہے اگر بات کروں ضلع
اوکاڑہ کی توتادم تحریر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں چکی کا آٹا 70روپے
کلواور غیر معیاری 45روپے کلو ،چینی 100سے 105روپے کلو جبکہ غیر معیاری
83روپے کلو،چھوٹا گوشت 1050روپے کلو اور بڑا گوشت 450روپے کلو ،ٹماٹر
140روپے کلو، آلو55روپے کلو،پیاز 75روپے کلو،انڈے فی درجن 160روپے،مرغی کا
گوشت 299روپے کلو ، دودھ 85 سے 90روپے لیٹر فروخت ہو رہا ہے جبکہ بلڈنگ
میٹریل میں سیمنٹ فی بوری 530سے 550روپے، ایک ہزار اول اینٹ 9300روپے،ریت
کی ٹرالی 8600روپے،بجری فی مربع فٹ 60سے 75روپے یہاں یہ بات بھی قابل غور
ہے کہ فی مربع فٹ کی بات تو کی جاتی ہے لیکن ماپنے ولا ڈبہ 10×10انچ کا ہی
ہوتا ہے اسی طرح ہر چیز کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے ،ادارہ شماریات کی
رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے کے دوران مہنگائی میں0.12فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔
مہنگائی کی شرح 0.12فیصد کمی کے ساتھ 8.93فیصد پر آگئی ہے۔ ادارہ شمارت کے
مطابق حالیہ ہفتے میں 14اشیائے ضروریہ سستی ہوئیں۔ ایک ہفتے میں ٹماٹراوسط
50 روپے فی کلوسستاہو، 20کلوآٹے کاتھیلا اوسط 39 روپے سستاہوا ،چینی اوسط
ایک روپے 98 پیسے فی کلو سستی ہوئی،رپورٹ کے مطابق چینی کی اوسط قیمت
103.47 سے 101.49 روپے فی کلوہوگئی۔دال مونگ 5 روپے فی کلوسستی ہوئی ،
انڈے،چاول،پٹرول، ڈیزل بھی سستا ہواکیلابھی سستاہوا۔رواں ہفتے 14 اشیاکی
قیمتوں میں اضافہ ہوا ،مرغی برائلر زندہ 18 روپے فی کلومہنگی ہوئی ،ایل پی
جی کا گھریلو سلنڈر86روپے مہنگاہوا،پیاز 5 روپے فی کلومہنگا ہوا ،لہسن 9
روپے فی کلو،آلوڈھائی روپے فی کلومہنگاہوا۔ایک ہفتے میں23 اشیاکی قیمتوں
میں استحکام رہا،حکومت پنجاب کی جانب سے سہولت بازار بھی شہریوں کو اپنی
جانب متوجہ نہیں کر سکے جسکی سب سے بڑی وجہ مارکیٹ سے سہولت بازاروں کی
اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں فرق کا کم ہونا اور دور دراز سے خریداری کرنے
والوں کے لئے معمولی رعایت انکے لیے نہ ہونے کے برابر ہے ، حکومت وقت کو
عوام کو حقیقی ریلیف دینے کے لئے چاہیے کہ انتظامیہ کے زریعے مارکیٹوں میں
اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لائے جس کے لیے ذخیرہ اندوزوں اور مصنوعی
قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف ایکشن انتہائی ضروری ہے ،جبکہ دیکھا گیا ہے کہ
چھوٹے دوکانداروں ، پھل اورسبزی کی ریڑھی لگانے والوں کو ہزاروں کے جرمانے
کر دیے جاتے ہیں جبکہ بڑے بڑے ذخیرہ اندوز اشیاء ضروریہ کی قیمتوں پر مکمل
کنٹرول رکھے ہوئے ہیں ،ایک رپورٹ کے مطابق آٹے کی قیمت میں گزشتہ سال ستمبر
کے مقابلے میں اس سال ستمبر تک 50 سے 60 فیصد اضافہ ہوا، چینی کی قیمت میں
20 سے 30 فیصد، دال مسور کی قیمت میں 25 فیصد، مونگ کی دال میں 40 فیصد سے
زائد، دال ماش کی قیمت میں 30 فیصد سے زائد، کوکنگ آئل کی قیمت میں 10
فیصد، خشک دودھ کی قیمت میں پانچ فیصد، گوشت کی قیمتوں میں تقریباً 10
فیصد، دودھ کی قیمت میں 10 فیصد سے زائد اضافہ دیکھا گیا اور چاول کی قیمت
بھی 10 فیصد سے زائد بڑھی، برائلر ، انڈوں، ٹماٹر، پیاز اور پھلوں کی
قیمتیں ہمارے ہاں موسم کے مطابق بڑھتی گھٹتی ہیں لیکن سپلائی میں تعطل کی
وجہ سے قیمتوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ،وزیر اعظم عمران خان کاکہنا تھا کہ
حکومت ٹائیگرز فورس کے ذریعے مہنگائی پر قابو پائے گی ،لیکن عملی طور پر
ایسا ممکن نظر نہیں آرہا، حکومت کو چاہیے کہ ضلع کی سطح پر پرائس کنٹرول
کمیٹیوں کے زریعے قیمتوں کو قابو میں رکھنے کا کام تیزکرے،تاکہ حقیقی معنوں
میں عوام کو مہنگائی سے کسی حد تک ریلیف حاصل ہو سکے٭
|