گریٹ گیم

اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں مبینہ ہلاکت کے بعد جہادیوں کا ہدف واضح طور پر بدلتا نظر آ رہا ہے اور بعض گروپوں کی طرف سے اعلانیہ کہا جا رہا ہے کہ ان کا ہدف پاکستانی ادارے یا پاکستان ہے ۔بعض عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ جہادی اسامہ بن لادن کا بدلہ لے رہے ہیں دوسری طرف جہادیوں کی طرف سے بھی ایسے ہی بیانات سامنے آئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ صرف اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا بدلہ ہے تو پھر اس سے پہلے کی کاروائیاں کس کھاتے میں ڈالی جائیں ؟ کسی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ وہ سوات آپریشن اور ایسے ہی دوسرے آپریشن کا بدلہ تھیں لیکن پھر سوال یہ ہو گا کہ سوات آپریشن سے پہلے کی کاروائیاں کس کا بدلہ تھیں ؟وجہ دریافت کرنے نکلیں گے تو بات شاید بہت آگے تک جائے گی لیکن اگر غور کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جس گریٹ گیم کے پیادے افغانستان میں لڑائے بلکہ مروائے گئے اس کے بادشاہ وزیر اور گھوڑے کے لیے میدان پاکستان میں سجانے کی تیاریاں ہیں ۔بساط لپیٹ کر ایک مرکز کی طرف سمیٹی جا رہی ہے ۔شہ دینے کے لیے چال پر چال کھیلنے کی تیاریاں ہیں کیونکہ ایک ذرا سی لرزش پوری گیم کا رخ بدل دیا کرتی ہے ۔ امریکی جاسوس کی گرفتاری اور پھر ڈرامائی انداز میں رہائی ، وزیر آعظم کا باقاعدہ میڈیا پر آ کر بیان دینا کہ سی آئی اے سے تمام رابطے ختم کر دیے گئے ہیں اور پھر دوبارہ رابطوں کی بحالی کے اعلانات، پاکستان کے اہم اور قیمتی جہازوں کو تباہ کرنے کا مشن اور پھر دہشت گردوں کی تعداد کے حوالے سے متضاد بیانات ، کچھ عرصہ سے امریکی اہلکاروں کو واپسی کے احکامات اور اس سے کچھ پیچھے چلے جائیں تو ایک طرف امریکی سیاست دانوں اور میڈیا کا دباﺅ کہ پاکستان کے طالبان سے رابطے ہیں اور دوسری طرف کرنل امام اور خالد خواجہ کا جہادیوں کے ہاتھوں قتل اس بات کی طرف اشارہ دے رہے ہیں کہ صورت حال اتنی سادہ نہیں جتنی نظر آتی ہے ۔کچھ عرصہ قبل تک جو حالات افغانستان میں پیدا کیے گئے آج پاکستان میں پیدا کیے جا رہے ہیں ۔ گریٹ گیم افغانستان سے سمٹتی ہوئی پاکستان کی طرف آتی نظر آ رہی ہے ۔یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کسی بھی ملک کی سیکرٹ ایجنسی اس ملک کی پہلی دفاعی لائن ہوتی ہے لیکن پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو ایک منظم سازش کے تحت بدنام کیا جا رہا ہے ۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ بہت سی باتوں اور کاموں کا عوام اور میڈیا کو علم نہیں ہو گا اور یہی باتیں کنفیوژن کا باعث بن رہی ہوں گی اور میڈیا اور عوام اس بات پر آئی ایس آئی سے خفا ہوں گے کہ انہیں لاعلم رکھا جا رہا ہے لیکن سوال یہ بنتا ہے کہ اگر خفیہ اداروں کے ہر عمل اور اس کی وجہ سے اسی وقت عوام اور میڈیا کو آگاہ کیا جائے تو پھر خفیہ اداروں کا مقصد کیا ہو گا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ایسے ادارے کسی کو جواب دہ نہیں ہیں ۔یہ ادارے بھی متعلقہ لوگوں اور اداروں کے ماتحت ہیں اور ہونا بھی چاہیے ۔اگر اس بات پر اعتراض ہو کہ ان اداروں کے سیاسی استعمال پر پابندی ہو تو بھی ISI سے زیادہ قصور وار ہمارے سیاست دان ہیں جنہوں نے اس ادارے کا سیاسی ونگ بنایا۔مسٹر بھٹو نے جس ونگ کی بنیاد اپنے مقاصد کے حصول کے لیے رکھی اس کا پھل ppp ماضی میں کھا چکی ہے آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ نے اسلام آباد ایک ملاقات کے دوران مجھے کہا کہ ہم نے روس کو توڑا تھا بہت جلد آپ دوسری سپر پاور کو بھی ٹوٹتا دیکھیں گے ۔ہو سکتا ہے میرے بہت سے دوست اس بات پر ”آمین “ کہیں لیکن میں ان سے یہ ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ روس کو توڑ کر ہمیں کیا ملا؟ افغان تو آج بھی آپ پر اعتماد نہیں کرتے ۔ وہاں پاکستان سے زیادہ بھارت کا اثر و رسوخ نظر آتا ہے ۔کبھی افغان خفیہ ایجنسی کا نام خاد تھا اب بھی آپ خاد کا نام سنتے ہوں گے لیکن اب اس سے کہیں فعال ایک اور خفیہ ایجنسی ہے جسے رام کی نسبت سے راما کا نام دیا گیا ہے اور اس کے پیچھے انڈین خفیہ ایجنسی ”را“ کا ہاتھ بتایا جاتا ہے ۔اگر برا نہ لگے تو حقائق اور اصل صور ت حال یہ ہے کہ جس ملک کے لیے آپ کے اسلامی جذبات جاگے اور جس کی مدد کے لیے آپ نے اسلامی برادر کا نعرہ لگا کر اپنے نوجوان روس کو توڑنے کے لیے بھیجے اور جہاں سے آنے والے مہاجرین کو پناہ دینی شروع کی اس نے ماضی میںمسلمانوں کو پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا اگر زیادہ دور کی بات نہ کریں تو بھی اس ملک کے سابق گورنراور خاد کا انٹیلی جنس ڈائریکٹر غیر قانونی طور پر پاکستان آنے اور خفیہ منصوبے تیار کرنے کے الزام میں گرفتار کیے گئے ۔روس کو توڑنے کے دعوے داروں اور یہ تمغہ سینے پر سجانے والوں سے میرا سوال یہ ہے کہ روس” توڑنے “سے پاکستان کو کیا ملا؟ کیا پاکستان میں امن آگیا؟ کیا پاکستان میں بےروز گاری کا خاتمہ ہو گیا؟ کیا پاکستانی نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو گئے؟ کیا پاکستانی غریب طبقہ نے خودکشیاں ختم کر دیں؟ کیا افغان حکومت نے الزام تراشیوں کی بجائے کوئی ایسا معاہدہ کر لیا کہ مشکل گھڑی میں افغان فوج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گی؟ کیا پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا؟ ؟ روس کو توڑنے کا تمغہ سجانے کے بعد پاکستان کو کوئی تو فائدہ ہونا چاہئے تھا ۔معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ نے کسی سپر پاور کو نہیں توڑا بلکہ آپ کو استعمال کیا گیا ۔پیادوں کو محض استعمال کیا جاتا ہے اور ضرورت پڑنے پر مروا دیا جاتا ہے ۔بعض اوقات وہ پیادے جو جنگ کے آغازمیں آگے بڑھائے جاتے ہیں جنگ کے اختتام پر اپنی پسند کا میدان تیار کرنے کے لیے مروا دیے جاتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے روس کو توڑنے والے اور جہادی تیار کرنے والے کرنل امام اور خالد خواجہ مار دیے گئے ۔اگر غور کیا جائے تو ہمارے وہ ریٹائرڈ جرنیل جنہیں یہ زعم ہے کہ انہوں نے روس توڑ دیا تھا دراصل پیادوں کی طرح استعمال کر کے پھینک دیے گئے ۔وہ جہادی جو روس کو توڑتے وقت ہیرو تھے اب انہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے کیوں کہ انہیں محض پیادوں کے طور پر استعمال کیا گیا ۔دوسری طرف گریٹ گیم کی بساط لپیٹ کر ایک مرکز کی طرف لائی جا رہی ہے ۔ پہلے بم بلاسٹ افغانستان میں ہوتے تھے اب پاکستان میں ہو رہے ہیں ۔پہلے افغانستان میں کاروائی پر زور دیا جاتا تھا اب پاکستان میں کہا جا رہا ہے ۔ پہلے امریکا افغانستان میں بمباری کرتا تھا اور اطلاعات آتی تھیں کہ ایک قافلے پر بمباری سے اتنے لوگ اور بچے مارے گئے اب پاکستان میں ڈرون حملے کیے جا رہے ہیں ۔ پہلے اسامہ بن لادن افغانستان میں تھا اب افغانستان کے ہاتھ صاف ہو گئے ہیں اور اسامہ کو پاکستان میں” دریافت“ کر کے ہلاک کیا گیا۔ پہلے ملا عمر افغانستان میں تھا اب یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ بھی پاکستان میں ہیں ۔وہ سب وجوہات پاکستان میں تیار کی جا رہی ہیں جو افغانستان پر حملے سے پہلے تیار کی گئی تھیں ۔ گریٹ گیم کا رخ کس طرف موڑا جا رہا ہے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔یہی وہ وقت ہے جب ایک حکمران یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے ملک کے ساتھ وفا کرنی ہے اوراپنی پالیسی واضح کرتے ہوئے وطن دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہے یا خزانے کی بوری سینے سے لگائے گھوڑے پر بیٹھ کر فرار ہو جا نا ہے ۔
Syed Badar Saeed
About the Author: Syed Badar Saeed Read More Articles by Syed Badar Saeed: 49 Articles with 50046 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.