صحافی سلیم شہزاد کو ایجنسیوں نے نہیں تو کس نے قتل کیا؟

بین الاقوامی طور پر شہرت حاصل کرنے اور تحقیقی رپورٹنگ کے ماہر سلیم شہزاد کو ظالموں نے انتہائی درندگی کے ساتھ جان سے مارڈالا اور اپنے ہدف کو فتح کرلیا سلیم شہزاد شہید ہوگیا اور انشاءاللہ شہادت کے اعلیٰ ترین درجات پر فائز ہوگا اس خالق حقیقی سے مجھے یقین ہے جس کے سامنے سلیم شہزاد پانچ وقت جھکتا تھا اور روزانہ گھر سے نکلنے سے قبل اس کی نازل کی ہوئی قرآن پاک کی تلاوت کرتا تھا۔سلیم شہزاد شہید صرف اللہ تعالٰی سے ڈرتا تھا اور اسی کی اطاعت کرتا تھا اسے کسی کی خوش آمد کرنا نہ آتی تھی اور نہ ہی اس کے طریقہ سے واقف تھا وہ دوستوں اور رشتے داروں ہی سے نہیں ہر انسان سے محبت کرتا تھا اسے اللہ نے عزت شہرت اور حسب ضرورت دولت سے نوازہ تھا اس کی عزت بین الاقوامی طور پر اتنی تھی کہ اسے امریکا اور اس کے مخالفین دونوں ہی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے شہرت اس قدر تھی کہ بین ا لاقوامی طور پر اسے ذاتی طور پر جانا جاتا تھا کئی اہم ملکی اور بین الاقوامی شخصیات سے اس کا رابطہ تھا اسے اللہ نے صرف چالیس سال کی عمر میں عزت اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا تھا وہ صرف ایک بیوہ اور تین معصوم بچوں کا ہی سہارہ نہیں بلکہ اپنے پورے خاندان کا سہارا اور سپورٹر تھا اس کا سگا بھائی تو ایک ہی تھا لیکن سینکڑوں دوست اور کئی کزنز اس کے بھائی تھے اس نے کبھی کسی میں کوئی تفریق نہیں کی یہ ہی وجہ تھی کہ اللہ اس پر بہت مہربان تھا، وہ کہتا تھا انور بھائی برائی کو روکنا بھی تو جہاد ہے اور جہاد میں جب تک زندگی ہے تو غازی اور مر گئے تو شہید ہوجائیں گے۔

میرے آنسو اس دن نکل پڑے جب اس نے مسکراتے ہوئے یہ کہہ گیا کہ ”کسی دن کوئی ظالم قاتل مجھے بھی اپنے مفادات کے لیئے ماردے گا لیکن دیکھنا میں شہید ہوجاؤں گا اس دن سب کہیں گے سلیم شہید ہوگیا“۔

ہاں میرے بھائی تو شہید ہوگیا اور یہ بھی سچ ہے کہ تجھے نہ سمجھنے والے بھی آج تجھے جان گئے اور تجھے جرات مند اور دلیر صحافی قرار دے رہے ہیں سلیم آپ نے جان کی قربانی دیکر بہت کچھ افشاءکردیا اور اپنے آپ کو ایک سچا ، ایماندار اور جرات مند صحافی کی حیثیت سے ہمیشہ کے لیئے اپنی پہچان چھوڑ دی آپ کو لوگ ہمیشہ یاد رکھیں گے اب تو میرے بھائی تیرے مخالف بھی تیری جرات کو سلام کررہے ہیں سلیم شہید آپ نے تو شہید ہوکر بہت سے صحافی جاگیرداروں کی نظریں ان کے گریبانوں کی طرف جھکادیں۔ ہم جو آپ کو جانتے ہیں اور جو اب جان گئے ہیں سب کی دعائیں ہیشہ آپ کے ساتھ رہیں گی کہ اللہ آپ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلٰی مقام پر فائز کرے آمین ثمہ آمین۔

ہاں سلیم شہزاد میں معافی چاہتا ہوں کہ آپ کی تدفین کے بعد جب آپ کے چھوٹے بیٹے نے مجھ سے پوچھا کہ ” پاپا کہاں ہے“ تو میں اسے کوئی بھی جواب نہیں دے سکا بس اپنے آنسوؤں کو بہت مشکل سے روک پایا اور ہاں میں سلام کرتا ہوں آپ کی امی کو جنہیں اللہ نے بڑی ہمت دی اور وہ خود ملنے گھر سے باہر آگئیں اور کہا کہ میرے بیٹے کا دوست بیماری کے باوجود جب یہاں آیا تو میں اس سے کیوں نہ ملوں ان کے اس عمل نے مجھے یاد دلادیا سلیم شہزاد کہ تم نے کہا تھا کہ امی بھی آپ کے لیئے بہت دعائیں کرتی ہیں۔

بھائی سلیم اب آپ کے ہر نیک عمل کا پھل آپ کو ملے گا دنیا میں جو بھی تکلیف آپ کو ملی ہے اس کے بدلے بھی اللہ آپ کو بہت نوازے گا یہ میری دعا ہے ایک بیمار دوست کی دعا ہے اللہ میری دعائیں قبول کرے آمین۔

اب بات کرتے ہیں اس بے حس معاشرے کی اور ان حکمرانوں کی جن کی ذمہ داری ہم سب کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے جو ان ہی دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے لیکن جو بے غیرتی اور بے حسی کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ان کے لیئے یہ ہی دعا کی جاسکتی ہے کہ اللہ انہیں ہدایت دے یا اپنے نظام سے ان سے نمٹ لے آمین۔

سلیم شہزاد شہید 29 مئی کو شام ۵ بجے ایک ٹی وی چینل پر کرنٹ افیئر کے پروگرام میں شرکت کے لیئے گھر سے نکلے اس چینل کی ڈائریکٹر نسیم زہرہ کے مطابق ٹی وی کے کوآرڈینیٹر نے تقریبا پونے چھ بجے ان سے رابطہ کیا انہوں نے کہا کے کہ وہ پہنچنے والے ہیں اور راستے ہی میں ہیں لیکن چھ بجے تک وہ ٹی وی اسٹیشن نہیں پہنچے ۔۔۔۔ گھر رابطہ کیا تو گھر والوں نے بتایا کہ وہ تو دنیا ٹی وی گئے تھے اور وہاں سے واپس نہیں آئے ۔۔۔۔ پھر سب خاموش ہوگئے۔۔۔۔۔پیر کا دن شروع ہوگیا تھانے کو اطلاع دیدی گئی مگر سلیم کا پتہ نہیں چل سکا ایک دوسرے چینل ”آج“ نے دوسرے دن کے پروگرام میں میڈیا کو للکارا کہ ایک صحافی کل سے پرسرار طور پر لاپتہ ہے مگر صرف ایک چینل ڈان نیوز کے علاوہ کسی چینل میں ٹیکر تک نہیں چلایا گیا بڑی باتیں کرنے والے صحافیوں کے لیڈرز خاموش تھے نہ جانے کیوں ؟ پھر جب منگل کو شور بڑھا تو پہلے ان کی کار اور پھر بعد میں ان کی لاش کا پتہ چلا اور یہ بات حیرت انگیز طور پر سامنے آئی کہ سلیم شہزاد شہید کی لاش کو پولیس اہلکاروں نے شناخت نہ ہونے پر امانتا دفنا بھی دیا تھا۔

کیا اس ملک میں کبھی ایسا بھی ہوا کہ 24 گھنٹے گزرنے سے قبل ہی کسی کی لاش کو لاوارث قرار دیکر جلدی میں دفنادیا گیا ہو ؟

گورکن کا بیان تھا کہ لاش دو پولیس اہلکار لیکر آئے تھے اور وہ لاش کو دفن کرنے میں بہت جلدی کررہے تھے یہ خبر ایک بڑے ٹی وی چینل کے رپورٹر نے دی تھی بعد میں اس رپورٹر نے یہ بھی خبر دی کہ گورکن اور وہ پولیس اہلکار دوسرے دن بات کرنے سے انکار کرچکے ہیں۔

مجھے اور بہت سے لوگوں کو ٹی وی چینل کے اس رپورٹر کی خبر پر ذرہ برابر بھی شک نہیں لیکن مجھے شک پیدا ہوا ہمارے ملک کے وزیر داخلہ ملک (جن کے نام کا پہلا حصہ میں بہ وجوہ نہیں لکھ سکتا ) کے بیان کے بعد جنہوں نے شہید کی لاش برامد کئے جانے کے بعد یہ بیان دیا کہ ” وہ تین ماہ قبل کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوئے تھے ایسا لگتا ہے کہ انہیں کسی نے پرانی دشمنی کی بناءپر قتل کیا گیا ہے “
ساتھ ہی انہوں نے اپنا روایتی بیان بھی دے ڈالا کہ قاتلوں کا جلد سراغ لگالیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔

وزیر داخلہ نے گزشتہ تین سال کے دوران اسی طرح کے سینکڑوں بیان دے چکے ہیں نہ ان کی بات پوری ہوتی ہے اور نہ ہی ان کو شرم آتی ہے شہزاد سلیم کے واقعہ کو وہ بہت چالاکی کے ساتھ کسی اور جانب موڑ دینا چاہتے تھے کسی اور ملک میں اس طرح کا واقعہ پیش آتا تو وہان کا وزیر داخلہ شرم سے صحافیوں سے نظریں تک نہیں ملا پاتا اور فوری طور پر ان پولیس اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دیتا جو مقتول کی لاش شناخت کے بغیر دفن کراچکے تھے ۔ اس ملک کو مفاد پرست سیاست دانوں نے کس جگہ پہنچادیا ہے کہ اب لوگ ملک سے مایوس ہونے لگے ہیں۔

پاکستان اب صحافیوں کے لیئے خطرناک ملکوں کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے مجھے موجودہ حکمرانوں سے اس بات کی کوئی توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ سلیم شہزاد شہید کے قاتلوں کا پتہ لگالیں گے یہ تو وہ ہیں جو قاتلوں کو چھپالیتے ہیں لیکن صحافی برادری کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ قاتلوں نے سلیم شہزاد کو اس لیئے ہلاک کیا تاکہ آئندہ کوئی صحافی بھی ایماندارانہ اور جرات مندانہ صحافت نہ کرے ورنہ ان کا بھی یہ ہی حال ہوگا دراصل سلیم کو شہید کرکے ظالم قوتوں نے یہ ہی پیغام دیا ہے اب ہم صحافیوں کو سوچنا ہے کہ آئندہ ہمیں کیا کرنا ہے سچ کو کس طرح ثابت کرنا ہے اور جھوٹوں کو کس طرح برہنہ کرنا ہے۔

ہمیں موجودہ حکمرانوں سے اس طرح کے واقعات کی روک تھام کرنے کی بھی کوئی امید نہیں ہے بلکہ ڈر ہے کہ اگر یہ لوگ مزید اقتدار میں رہیں گے تو یہ ملک نہ صرف صحافیوں بلکہ ، تاجروں، ڈاکٹروں، انجنئرز سیمت ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے محب وطن لوگوں کے لیئے خطرناک ہوجائے گا اس لیئے اب قوم کو ان مفاد پرست سیاست دانوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165823 views I'm Journalist. .. View More