چیل کے گھونسلے سے ماس کیسے ملتا ہے

قدرت کا نظام کائنات تو دیکھو ”آسمان پر اڑتی چیل زمین پر رکھے ماس کو کبھی بھی نظراندز نہیں کرسکتی اور نہ ہی کسی اور پرندہ جو گوشت کھاتا ہو چیل کے ہوتے ہوئے یہ گستاخی نہیں کر سکتا۔ ایسے ہی ایک واقعہ کی عینی شاہد میں خود ہوں کہ گزشتہ کچھ روز پہلے ملکی حالات سے بیزار بے چاری غریب عوام کے دکھوں سے لاچار اور غیرملکی حملوں سے پریشان کلو سوا کلو گوشت لے کر اپنے گھر کی چھت پر چلی گئی کہ اپنے پاکستان کا صدقہ ہی دے دوں شاید کچھ حالات بہتر ہو جائیں‘ تو جتنی میری حیثیت ہے اس کے مطابق صدقہ دینا تھا خیر جیسے ہی گوشت چھت کے ایک طرف رکھا‘ آسمان پر اڑتی چیل نے ایک لمحہ نہیں لگایا اور گوشت پر ٹوٹ پڑی‘ اس کو دیکھتے دیکھتے اور چیلیں بھی تشریف آور ہوئیں اور گوشت کے مزے لوٹنے لگیں۔ چیلوں کے اس انداز شوخی سے متاثر ہو کر کچھ کوے حضرات بھی پیچھے نہ رہ سکے۔ ایک کوے نے ہمت کرکے جیسے ہی چیل کی موجودگی میں گوشت کا اک ٹکڑا اپنے پنجوں میں رکھا اور اڑنے لگا تو چیل نے جلدی سے اس کو بھی چھین لیا‘ بے چارے کوے پر مجھے بہت تر س آیا اور چیل پر بے پناہ غصہ کہ اتنا زیادہ گوشت منحوس چیلوں تم نے ہی کھایا مگر تھوڑا حصہ غریب کوﺅں کو بھی دے دیتیں تو تمہارا کیا جاتاا! خیر کچھ لمحوں کے لیے میں یہ تماشہ دیکھ کر بہت لطف اندوز ہو رہی تھی لیکن جیسے ہی کھیل تماشہ سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں آئی اور قلم سے الفاظ بنانے لگی تو اپنے آپ ہی چیلوں کی جگہ ظالم و جبر حکمرانوں نے لے لی‘ بے چارے کوؤں کی جگہ غریب‘ لاچار‘ بے بس‘ بھوکی عوام نے لے لی اور اپنے آپ کو جو بہت مزہ سے یہ سب دیکھ رہی تھی امریکی سفیر تصور کر لیا۔ جو ہمارے لالچی حکمرانوں کو قرضہ دے دے کر اپنے نیچے لگا لیتے ہیں۔ اور پاکستانی جو بھکاریوں سے بھی بدتر زندگی گزار رہا ہیں اس کے حالات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس صورت حال سے میرے دل نے بہت سے سوالات کو جنم دیا کہ پاکستان کی حکومت کیسی ہے؟ پاکستان کے سیاست دان کیسے ہیں؟ پاکستان کے سیاسی‘ معاشی‘ تعلیمی‘ عدالتی نظام کی نوعیت کیا ہے اور ان سب کو کیا ہونا چاہیے؟ لیکن سب سے اہم سوال کہ خود ہماری پاکستانی قوم کیسی ہے ؟ کیا یہ سب حالات قوم کی وجہ سے ہیں؟ اگر قوم میں اچھے اور اعلیٰ خصائص موجود ہیں تو وہ غلط نظام سے چھٹکارا پانے اور صحیح و بہتر نظام قائم کرنے میں ضرور کامیاب ہوجائے گی۔ لیکن خدانخواستہ اگر قوم اعلیٰ خصائص سے محروم ہے‘ اس کا مزاج فاسد ہو گیا ہے اور اسے خطرناک/جان لیوا بیماریاں لاحق ہیں تو مسئلہ خارجی تبدیلیوں کا نہیں رہتا بلکہ خود قوم کی طبیعت و حالت کو بدلنا ہو گا۔ جس طرح ہندوستان میں گاندھی نے اس بات کو محسوس کیا کہ ہندو سوسائٹی کو بدلنے کے لیے رسمی و رواجی قسم کی سیاسی جماعت کافی نہیں۔ کانگریس کو پولیٹیکل پارٹی سے زیادہ ایک اخلاقی روحانی اور تہذیبی تبدیلی پیدا کرنے والی قوت بنانا چاہیے۔ اس غرض کے لیے انہوں نے ہندو دھرم کا سہارا لیا۔ دنیا نے بھی دیکھا کہ جو ہندو سوسائٹی مردہ اور جامد حالت میں پڑی تھی اس میں گاندھی کے مذہبی ذہن اور مذہبی انداز نے ایک نئی روح پیدا کی۔ جبکہ ہمارے ہاں ہر جماعت نے اپنی الگ مسجد قائم کر رکھی ہے جو اس بات سے بے نیاز ہے کہ مسجد جس کی بھی ہو نماز تو اﷲ تعالیٰ کے لیے ہی پڑھی جانی ہے۔ اس کے علاوہ روز قیامت میں بھی حساب ساری امت سے ایک جیسا لیا جائے گا پھر یہ فرقہ پرستی یہ جاہلیت کیوں؟1947ءکے مسلمانوں کی تحریک خلافت نے بھی وہی کام کیا تھا کہ لوگوں میں غیرملکی مصنوعات کو چھوڑ کر ملکی چیزیں استعمال کرنا‘ کفایت شعاری اختیار کرنے‘ مغربی فیشن کرنے اور مغربی بننے کے بجائے مسلمانوں کے رنگ میں رنگ جانے کے لیے جان و مال نچھاور کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی تھی لیکن تحریک خلافت کے درہم برہم ہو جانے کے بعد اس کی جگہ مسلم لیگ نے لے لی تو بدقسمتی سے قائداعظم کے حالات ایسے نہیں تھے کہ وہ معاشرتی اصلاح اور روحانی و اخلاقی انقلاب کے لیے کام کرسکتے۔ انہوں نے سارا زور پاکستان کی حمایت اور وکالت کے لیے صرف کیا اور پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ کامیابی اپنی جگہ بہت عظیم تھی لیکن مسلم لیگ مسلمانوں کو سیاسی طور پر متحد کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکی۔ اس لیے آج تک پاکستان کو وہ معاشرہ‘ رہنما اور کارکن نہیں مل سکے جو اسے ٹھیک طرح سے چلا سکتے بلکہ میرے خیال میں ان کو سمجھ ہی نہیں آرہا کہ پاکستان کا کیا کیا جائے تبھی تو جب کرنے کا کوئی کام نہ ہو‘ ایک مقصد اور نصب العین پر نگاہیں مرکوز نہ ہوں تو آپس کے جھگڑے سر اٹھائیں گے‘ اقتدار کی کشمکش اور سازشیں جنم لیں گی‘ مال بٹورنے اور عہدے و مناصب حاصل کرنے کی دوڑ لگی رہے گی تو پاکستان ترقی کیسے کرے گا؟ اس کا ایک ہی حل نظر آتا ہے کہ ہم اسلامی اور جمہوری معاشروں کے لیے لوگوں کے دلوں میں زبردست جذبہ اور تڑپ پیدا کریں تاکہ جو حالت آج ہے وہ ختم ہو جائے اور ایسا معاشرہ وجود میں آئے جس میں اسلام اور جمہوریت کی حقیقی خوبیاں موجود ہوں۔ یہ کام صرف سیاسی نعرے بازی سے نہیں ہوگا‘ اس کے لیے جی جان کی بازی لگانا ہو گی۔ علمی و فکری سطح پر جنگ جیتنی ہو گی۔ تحقیق اور اجتہاد کی قوت بہم پہنچانی ہو گی اور عوام کا دوست اور ہمدرد بن کر ان کا اعتماد اور ان کی محبت کو حاصل کرنا ہو گا لیکن یہ سب کچھ کب اور کیسے ہوگا کیونکہ
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم‘ لیکن چیل کے گھونسلے سے ماس کیسے ملتا ہے۔
Sana Rana
About the Author: Sana Rana Read More Articles by Sana Rana: 20 Articles with 25261 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.