امام جلال الدین رومی ؒ ایک
حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک بادشاہ اپنے ایک ندیم پر برہم ہوا اس نے تلوار
نیام سے نکال لی کہ اسے اپنے ہاتھوں سے سزا دے دربار پر سناٹا طاری ہوگیا
عماد الملک نامی ایک خاص مشیر درمیان میں آیا اور اس نے انتہائی عاجزی سے
اس ندیم کی سفارش کی بادشاہ نے عمادالملک کے وقار کے پیش نظر اس ندیم کو
معاف کردیا اور دربار میں اعلان کیا کہ اگر عمادالملک اس کی سفارش نہ کرتا
تو بادشاہ اسے سزادینے میں تامل نہ کرتا اس طرح بادشاہ نے لوگوں کو
عمادالملک کے مرتبے سے روشناس کرایا مگر وہ ندیم سزا سے بچ کرعمادالملک کے
خلاف ہوگیا اور اس سے ناراض رہتا لوگوں نے اس سے دریافت کیا کہ اس نے تیر ی
جان بچائی تجھے نئی زندگی دی او ر تو اس کے احسان کا بدلہ ناراضگی سے دے
رہا ہے ندیم نے جواب دیا کہ میں شاہ کے عتاب کا سزاوار تھا مجھے شاہ کی سزا
میں زندگی نظرآتی ہے میں شاہ کا ہر حال میں غلام ہوں غصہ ،عتاب ،مہربانی ہر
چیز سے بالاتر ہوکر ۔اس شخص نے بیچ میں آکر مجھے شاہ سے بظاہر چھٹکارادلایا
لیکن درحقیقت مجھے اپنے آقاسے دور کردیا ۔۔۔
قارئین الیکشن 2011کے سلسلہ میں پاکستان پیپلزپارٹی ،پاکستان مسلم لیگ ن
،مسلم کانفرنس ،جماعت اسلامی ،لبریشن لیگ اوردیگر جماعتیں اپنے اپنے
امیدواروں کو حتمی طور پر سامنے لارہی ہیں اور اس موقع پر جو فیصلے کیے
جارہے ہیں وہاں باغی بھی سامنے آرہے ہیں ،شکر رنجیاں بھی بڑھ رہی ہیں اور
اختلافات کا ایک غبار پورے سیاسی منظرنامے کو اپنی لپیٹ میں لے رہاہے یہاں
پر حیرت انگیز امریہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن جس اٹھان کے ساتھ سامنے آئی
تھی چند وجوہات کی بنا پر اس کی ترقی کا عمل رک چکا ہے اور اس بات کا اقرار
سابق صدرووزیراعظم آزادکشمیر رہنما مسلم لیگ ن سالارجمہوریت سردارسکندرحیات
نے ایک ریڈیوسٹیشن پر انٹرویو دیتے ہوئے کیا سردار سکندر حیات خان بعض
سیاسی جماعتوں سے اتحاد کرنے کی پالیسی پر خفا اور شاکی دکھائی دیے ان کا
موقف تھا کہ آزادکشمیر کے عوام پاکستان مسلم لیگ ن کو ایک نئی انقلابی
جماعت سمجھ کر اس میں شامل ہورہے تھے اور جو ق درجوق ہزاروں لاکھوں افراد
کا مختلف سیاسی جماعتوں سے علیحدہ ہوکر مسلم لیگ ن میں شامل ہونے کا عمل اس
لیے رک گیا کہ بعض غلط سیاسی فیصلوں کی وجہ سے لوگوں میں یہ امیج پید اہوا
کہ مسلم لیگ ن بھی نئی بوتل میں وہی پرانا مشروب لے کر عوامی قیادت کے دعوے
کررہی ہے ۔
قارئین یہ بات سوچنے سے تعلق رکھتی ہے کہ آزادکشمیر کے 30لاکھ سے زائد
ووٹرز اگر واقعی تبدیلی چاہتے ہیں اور تبدیلی کے اس عمل کو پرامن شفاف
طریقے سے اپنے ووٹ کے زریعے زمینی حقیقت کی شکل دینا چاہتے ہیں تو اس کیلئے
یا تو موجودہ سیاسی جماعتوں کو نئی قیادت ایک مضبوط منشور کے ساتھ سامنے
لانا ہوگی بصور ت دیگر وہی پرانی شخصیات نئی جماعتوں اور نئی سیاسی
وابستگیوں کے ساتھ تخت کشمیر پر براجمان ہونگی ۔
بقول غالب ۔
ہم سے کھُل جاﺅ بوقتِ مے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عُذرِمستی ایک دن
غرئہ اوجِ بنائے عالمِ امکاں نہ پوُچھ
اس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
نغمہ ہائے غم کوہی اے دل غنیمت جانیے
بے صدا ہوجائے گا یہ سازِہستی ایک دن
قارئین اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی باوجود شد یدترین بحرانوں کے لینڈسلائیڈ
وکٹری اوردوتہائی اکثریت کے دعوے پورے کرتی دکھائی دے یا نا دے اس کے باجود
بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سابق وزیر اعظم آزادکشمیر اور ان کی پوری ٹیم کو
خراج تحسین پیش کرنا ہوگی کہ جس طریقے سے انہوںنے آصف علی زرداری صدر
پاکستان ،فریال تالپور ،منظور وٹو اوردیگر مرکزی قیادت سے اپنے لیے جگہ
پیدا کی ہے اور آزادکشمیر بھر میں اپنے حامی لوگوں کو ٹکٹ دلوائے ہیں اس سے
ان کا مورال اپنی جگہ پر بلندہوا ہے اور اس وقت سیاسی پیش بینی کرنے والے
لوگوں کی اکثریت انہیں وزارت عظمیٰ کا سب سے مضبوط امیدوار قرار دے رہے ہیں
جبکہ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان پیپلزپارٹی کو شد ید بحرانوں کے باوجود
یکجا اور منظم رکھنے کا سہرا اپنے سر رکھنے والے چوہدری عبدالمجید صدر
جماعت مختلف سیاسی اتحادوں کے بعد کھڑی ہونے والی مشکلات پر قابو پانے
کیلئے شدید ترین جدوجہد سے گزر کر اب کچھ مطمن دکھائی دے رہے ہیں اور اس کی
وجہ مسلم کانفرنس کا حلقہ ایل اے 2چکسواری میں ان کی حمایت کا اعلان کرنا
ہے لیکن یہاں پر یہ بات قابل توجہ ہے کہ ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ان
کے کئی دیرینہ رفیق دل شکستگی کے عالم میں اس انتخابی عمل میں حصہ لیں گے
اور اس کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے ۔
قارئین نئے سیاسی منظرنامے میں مسلم کانفرنس سردار عتیق احمد خان کی قیادت
میں تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہی ہے لیکن اس کے باوجود مسلم کانفرنس
کو ”انڈر اسٹیمیٹ “نہیں کیا جاسکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک ریاستی جماعت
ہے اور سب سے مضبوط تنظیمی ڈھانچہ مسلم کانفرنس کے پاس ہے اگر پاکستان
پیپلزپارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور پس پردہ اور پیش پردہ اتحاد کا سلسلہ
جاری رہا اور محبت کی بیلیں پروان چڑھتی رہیں تو مسلم لیگ ن کیلئے مشکلات
میں اضافہ ہوسکتا ہے اور آئندہ الیکشن میں مسلم کانفرنس اپنی عزت بچانے میں
کامیاب ہوسکتی ہے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک آدمی اپنی کا علاج کرانے کیلئے ڈاکٹر کے پاس گیا بیماری بڑی پریشان کن
تھی ڈاکٹر نے مکمل معائنہ کرنے کے بعد علاج تجویز کیا اور کہا
”ایک ماہ تک بالکل کام کاج ناکرواور آب وہوا کی تبدیلی کیلئے زیارت یا
کشمیر چلی جاﺅ “
واپسی پر شوہر خاموش تھا بیوی نے پوچھا
”ہم کہاں جائیں گے کشمیر یا زیارت “ ؟
شوہر نے جواب دیا
”کسی دوسرے ڈاکٹر کے پاس “
قارئین کشمیر کے لوگ 63سال کے سیاسی عمل سے تھک چکے ہیں اور ان کی تھکن کا
علاج شاید کسی دوسرے ڈاکٹر کے پاس ہے اب دیکھیئے کہ یہ دوسرا ڈاکٹر کون
منتخب ہوتا ہے ۔۔۔؟ |