حماس فوبیا میں مبتلا بین الاقوامی ذرائع ابلاغ

BBC لے کر CNN تک اور وائس آف جرمنی سے لے کر ریڈیو آسٹریلیا تک امریکی و مغربی ریڈیو اور ٹیلی ویژن نیٹ ورک جب تک فرانسیسی لی مونڈے اور لی فگارو سے لے کر امریکن واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز اور نیوز ویک سے لے کر ٹائم تک تمام بین الاقوامی اخبارات و جرائد کی شہ سرخیاں فلسطینی اتھارٹی کے الیکشن میں حماس کی غیر متوقع اور ناپسندیدہ فتح کے عواقب سے بھری ہوئی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ حماس فوبیا میں مبتلا ہوگئے ہیں۔

امریکا و یورپ کی اسرائیل نوازی اب کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں رہی۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں جس طرح حماس کی کامیابی کو مسخ کر کے پیش کرنے اور اسرائیل کو تحفظ دینے کی خواہشات ظاہر کی جارہی ہیں اس کا اظہار نیوز ویک کے تازہ شمارے میں شامل ایک آرٹیکل سے بہ خوبی ہوجاتا ہے۔ جریدے کے مطابق بدھ 25 جنوری کو ہونے والے فلسطینی الیکشن کے نتائج جمہوری نظام کے لیے ایک ”دھچکا“ ہیں۔ کسی کو بھی یہ توقع نہیں تھی کہ اسلام پسند ”دہشت گرد“ تنظیم ان انتخابات میں مکمل طور پر فاتح بن کر ابھرے گی۔ امریکی جریدے کے اس تبصرے کی بنیاد وہ حقیقت ہے جس کے مطابق امریکی حتیٰ کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے بھی حماس کو فتح سے روکنے کے لیے تمام تر ہتھکنڈے اختیار کیے گئے۔ بش انتظامیہ کی جانب سے الفتح کی زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی کی حکومت کو سرمایہ بھی فراہم کیا گیا۔ اسرائیلی فوجوں نے اپنی حکومت کی ہدایت پر حماس کے امیدواروں کو الیکشن سے دور رکھنے کے لیے بڑی تعداد میں رہنماﺅں، ورکروں اور خود انتخابی امیدواروں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ٹھونس دیا۔ انہیں اپنی انتخابی مہم چلانے سے بہ زور طاقت روکا گیا۔ تاہم کرپٹ فلسطینی حکومت سے نفرت کی حد تک مخالفت کرنے والی فلسطینی عوام کی اکثریت نے حماس کے امیدواروں اور رہنماﺅں کی غیر موجودگی کے باوجود ان کے حق میں فیصلہ کردیا۔ انتہا تو یہ ہے کہ حالیہ الیکشن میں الفتح کے بہت سے حامیوں نے بھی اپنے رہنماﺅں کی کرپشن اور بدعنوانیوں کے خلاف بہ طور احتجاج حماس کو ووٹ دیئے۔

حقیقت یہ ہے کہ حماس نے یہ انتخابی فتح مضبوط انتخابی مہم کے ذریعے حاصل نہیں کی بلکہ پچھلے کئی عشروں سے حماس فلسطینی عوام کے مصائب کم کرنے کے لیے نچلی سطح پر کام کرتی رہی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جس پارٹی کی انتخابی فتح پر اسرائیل، امریکا اور یورپ میں تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے اسی پارٹی کے ووٹر اسرائیل سے مذاکرات کے حق میں ہیں۔ حالیہ الیکشن سے قبل کیے گئے سروے کے مطابق تین چوتھائی فلسطینی بہ شمول حماس کے 60 فیصد حامی بھی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مفاہمت کے حامی ہیں۔ ان کی اکثریت 2 ریاستوں (اسرائیل و فلسطین) کی بنیاد پر مسئلے کا حل چاہتی ہے۔ نیوز ویک کے مطابق پچھلے ایک عشرے کے دوران فلسطینی عوام کی اکثریت نے اپنے سخت گیر موقف میں لچک پیدا کر کے اسرائیل سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ حماس کی فتح کا سب سے بنیادی سبب فلسطینی اتھارٹی میں زبردست کرپشن اور سرحدوں پر امن و امان کے قیام میں ناکام رہنا ہے۔ سروے کے دوران 80 فیصد فلسطینیوں نے الفتح کی زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی کی حکومت کو انتہائی کرپٹ قرار دیا ہے جب کہ ان کا خیال تھا کہ اس حکومت کے تحت ان کے مال و اسباب بھی قطعی غیر محفوظ ہیں۔ امریکی حکومت نے بھی فلسطینی اتھارٹی کی کوئی اقتصادی مدد نہیں کی جس کے باعث فلسطینی حکومت عوام کے اعتماد سے محروم ہوگئی۔ امریکی حکومت نے اسرائیل کی جانب سے رضاکارانہ طور پر غزہ کی پٹی کے علاقے سے فوج کی واپسی کی مکمل حمایت کی۔ 80 فیصد فلسطینیوں کا خیال ہے کہ اسرائیلی فوج نے یہ علاقہ حماس کی مسلح جدوجہد کے نتیجے میں خالی کیا ہے۔

ادھر حماس نے بین الاقوامی دباﺅ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نہ تو اسرائیل کو تسلیم کرے گی اور نہ ہی اسرائیل کی تباہی کے لیے اپنے چارٹر کو تبدیل کرے گی۔ تاہم اس نے عارضی مدت کے لیے اسرائیل سے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ حماس کے سب سے اہم مرکزی رہنما خالد مشعل نے فلسطینی صدر محمود عباس سے اگلی حکومت کے خدوخال کو حتمی شکل دینے کے لیے ملاقات سے قبل واضح کیا کہ اسرائیل سے طویل المدتی معاہدہ امن صرف اس وقت ہوسکتا ہے جب وہ مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے کو خالی کردے۔ دوسرے معنوں میں اسرائیل 1967ءسے قبل کی اپنی سرحدوں پر واپس چلا جائے۔ واضح رہے کہ امریکا اور یورپی یونین نے حماس سے کہا تھا کہ اگر وہ اپنی حکومت بنانے کی خواہش مند ہے تو فوری طور پر اسرائیل کو تسلیم اور اپنے عسکری ونگ کو غیر مسلح کر کے طویل المدتی معاہدے پر آمادگی ظاہر کرے۔ حماس نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکا حماس کو اپنے مو ¿قف سے ہٹانے کے لیے دباﺅ ڈال رہے ہیں تاہم اسے یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ تمام فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور 1967ءکی سرحدوں پر واپس جائے بغیر حماس اسرائیل سے کوئی معاہدہ نہیں کرے گی۔ حماس کے دوسرے بڑے رہنما ابو تِر نے موجودہ صورتِ حال خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مغرب سے لے کر امریکا اور یورپ تک سب کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ حماس امن چاہتی ہے، ہم خون خرابے اور ہلاکتوں سے نفرت کرتے ہیں، ہم لڑائی نہیں چاہتے۔ قرآن میں ایک آیت ہے کہ جس کسی نے ایک روح کو قتل کیا اُس نے تمام روحوں کو قتل کردیا اور جس نے ایک شخص کو زندگی دی اُس نے گویا پوری قوم کو زندگی دی۔ ہمارا مسئلہ اسرائیلی قبضے سے متعلق ہے، مغرب نے بھی جارحیت کی ہے، مغرب نے اسرائیلی جارحیت پر اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ مغرب اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔ حالاں کہ مغرب اسرائیل سے کہہ سکتا تھا کہ بس بہت ہوچکا قتل عام بند کردو۔ مغرب کہہ سکتا تھا کہ مقبوضہ علاقے خالی کرو تم نے فلسطینی علاقوں پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کی مدد اور ہمیں دہشت گرد کہنا چھوڑ دو۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر کوئی فوج امریکی علاقے پر قبضہ کرلے تو کیا امریکی عوام خاموش رہیں گے۔ جنگ عظیم دوم کے دوران جب جاپانیوں نے پرل ہاربر پر طیاروں سے حملہ کیا تو امریکی خاموش نہیں بیٹھے۔ انہوں نے انتقامی طور پر جاپان کے اوپر ایٹم بم پھینک دیئے۔ ابوتِر نے اپیل کی کہ ہمارے ساتھ بھی انصاف پر مبنی سلوک کیا جائے۔ انہوں نے انتہائی دردمندی سے سوال کیا کہ امریکا و یورپ ہماری سلامتی کے لیے تشویش کا اظہار کیوں نہیں کرتے؟ انہیں ہمیشہ ہی اسرائیل کی سلامتی کے حوالے سے تشویش کیوں ہوتی ہے۔ انہوں نے امریکیوں، مغرب اور اسرائیل کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ حماس کی حکومت خطے کی سلامتی کے لیے ایک ضمانت ہوگی۔ فلسطینی اتھارٹی کے ذریعے غریب فلسطینیوں کودی جانے والی امدادی حقیقتاً غریب لوگوں تک پہنچے گی، یہ موٹی توند والے کرپٹ لوگوں کے ہاتھوں برباد نہیں ہوگی، ہم اس رقم کو تعلیم کے لیے، سماجی کاموں کے لیے، انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے لیے اور غریب عوام کی حالت زار بدلنے کے لیے استعمال کریں گے۔ اپنے ذہنوں میں سے یہ خوف نکال دیں گے کہ ہم اس رقم سے اسلحہ خریدیں گے۔ اسلحہ ہم نے ہمیشہ بلیک مارکیٹ سے خریدا ہے۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ ہم نے اپنا پوری فوجی انفرااسٹرکچر اسی طرح تیار کیا ہے۔ ہمارے ہتھیار صرف ہماری موجودگی کی ضمانت ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کی حقیقی حکومت ایک بار قائم ہوجائے تو تمام مسلح فلسطینی گروپوں کو فلسطینی فوج میں ضم کردیا جائے گا۔ یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) 30 برسوں سے اسرائیل سے مذاکرات کررہی ہے۔ اسرایل نے کیا کیا؟ سمن پیرز نے کہا ہے کہ وہ ہم سے صرف اسی وقت مذاکرات کریں گے جب ہم ہتھیار پھینک دیں۔ایسی ہی بات انہوں نے اس سے قبل تنظیم آزادی فلسطین سے بھی کہی تھی۔ کیا وہ مذاکرات کے لیے مزید 30 سال چاہتے ہیں؟ ہم آئر لینڈ ماڈل کے تحت کام کرنے پر بہ خوبی تیار ہوں گے مگر کیا اسرائیل ہمارے سیاسی ونگ کو تسلیم کرلے گا؟ کیا اسرائیل ایسے کسی فارمولے کے لیے تیار ہے؟ ابوتِر نے مزید کہا کہ مغرب کو ہم سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم نہ تو لوگوں کو اٹھ کھڑے ہونے کے لیے کہہ رہے ہیں اور نہ ہی ہم شریعت نافذ کررہے ہیں۔ ہم القاعدہ بھی نہیں ہیں۔ ہمارا مسئلہ تو صرف ناجائز اور غاصبانہ اسرائیلی قبضہ ہے۔

حماس کی فتح سے خوف زدہ امریکی حکومت نے جمعہ کے روز فلسطینی علاقوں میں کسی نئے پروجیکٹ کے لیے فنڈز کی فراہمی معطل کردی ہے۔ مقبوضہ بین المقدس میں امریکی قونصل جنرل جیکب ویلس نے تاہم ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کو یہ خطرہ بھی درپیش ہے کہ حماس فنڈز کے حصول کے لیے کہیں ایران سے رابطہ نہ کرلے۔ دوسری جانب اسرائیل نے ساڑھے 5 کروڑ ڈالر کی رقم منجمد کردی ہے۔ اس نے یہ رقم فلسطینی اتھارٹی سے معاہدے کے تحت ٹیکسوں کی شکل میں وصول کی تھی جسے فلسطینی اتھارٹی کو ٹرانسفر کیا جانا تھا۔ واضح ہے کہ کسٹم ریونیو فلسطینی اتھارٹی کے بجٹ کے لیے اہم ذریعہ ہے جس کے ذریعے 140,000 سرکاری ملازمین کو تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔

حماس کی تشکیل 1987ءمیں مصری تنظیم اخوان المسلمین کی طرز پر ہوئی جس کا مقصد فلسطینی سرزمین پر قائم اسرائیل کی ناجائز ریاست کا خاتمہ کر کے اس کی جگہ فلسطینی کی اسلامی حکومت قائم کرنا تھی۔ حماس کی تشکیل کے بعد اسرائیلیوں پر حملوں کے متواتر واقعات کے باعث حماس پر پابندی عائد کر کے اس کے لیڈر شیخ احمد یاسین کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ ٹائم کے مطابق فلسطینیوں میں حماس کی مقبولیت کا اصل سبب عوامی خدمات کے لیے اس کا نیٹ ورک ہے۔ حماس نے لاتعداد اسکول، کالج، اسپتال قائم کیے جب کہ حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ اُس نے اسرائیلیوں پر حملوں کے لیے نہ صرف رقم فراہم کی بلکہ خودکش حملہ آوروں کے خاندانوں کی خبر گیری کرتی رہی۔ 1993ءمیں حماس نے اوسلو امن معاہدے کی مخالفت کی جب کہ 1994ءمیں خود کش حملوں کی ایک مہم کا آغاز کردیا۔ اگلے چند برسوں کے دوران اسرائیل نے خودکش حملوں کے جواب میں حماس کے کئی رہنماﺅں کو خصوصی فوجی دستے تشکیل دے کر قتل کرادیا۔ کئی رہنماﺅں کو میزائلوں یا ہیلی کاپٹروں کے ذریعے حملے کر کے قتل کیاگیا۔ اسی پالیسی کے تحت 2004ءمیں شیخ احمد یاسین کو شہید کیا گیا۔ بعدازاں حماس نے تنظیم آزادی فلسطین کے ونگ الفتح کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی کی کرپشن کے خلاف باقاعدہ مہم کا آغاز کیا۔ پچھلے سال دسمبر میں فلسطینی میونسپل کونسلوں کے لیے ہونے والے الیکشن میں اُس کی ایک تہائی سے زیادہ سیٹوں پر کامیابی نے اسرائیل کو بھی ورطہ ¿ حیرت میں مبتلا کردیا تھا۔ اسرائیل سیاسی پنڈتوں نے اس وقت ہی یقین کا اظہار کیا تھا کہ 2006ءمیں ہونے والے قانون ساز ادارے کے الیکشن میں حماس مزید حیران کن اکثریت سے کامیاب ہوگی۔ تاہم فلسطینی اتھارٹی اور الفتح رہنماﺅں نے ان دعوﺅں کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ آج حماس کی کامیابی پر فلسطینی اتھارٹی کے بعض رہنما اور الفتح اُسے اقتدار سے دور رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
دبئی سے شائع ہونے والے روزنامہ گلف نیوز کے مطابق حماس نے حالیہ الیکشن میں مکمل کامیابی حاصل کرنے کے باوجود الفتح کو اقتدار میں شریک کرنے کی پیش کش کی تھی جسے الفتح رہنماﺅں نے مسترد کردیا۔ اسی طرح حماس کے کئی رہنماﺅں نے موجودہ فلسطینی صدر محمود عباس کو برقرار رکھنے اور ان کی زیر قیادت حکومت تشکیل دینے کی پیش کش بھی کی۔ حماس کا کہنا ہے کہ وہ داخلہ اور عوامی خدمات جیسی وزارتیں خود رکھنے جب کہ امور خارجہ اور اسرائیل سے مذاکرات کی ذمہ داریاں محمود عباس کو دینے کی خواہش مند ہے

(مضمون محمود عباس کی زیر قیادت فلسطینی حکومت کے قیام پر لکھا گیا تھا جو کہ روزنامہ جرات کراچی میں شائع ہو چکا ہے)۔
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 77798 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More