لیجئے صاحب نائن الیون کے صیہونی
ڈرامے کے بعد برادر ہمسایہ مسلمان ملک افغانستان کے خلاف یہودو نصاریٰ کی
صلیبی جنگ کا ہر اول دستہ بننے اورامریکی دیوی کے قدموں میں 40000زندہ
انسانوں کی بَلی، 50ارب ڈالر کا خطیر معاشی نقصان ،کشمیر پر شرمناک
پسپائی،ایٹمی پروگرام پر جگ ہنسائی اور دنیا بھر میں ذلت و رسوائی کے بعد
ہمیں یہ سننے کو مِل رہا ہے کہ ''اب پاکستان دہشتگردوں کے خلاف کاروائی میں
حقیقی اقدامات اٹھائے''امریکہ کی طرف سے حالیہ تازہ ترین بیان اگرچہ اٹھارہ
کروڑپاکستانیوں پر بجلی بن کر گرا ہے لیکن حسبِ توقع ِ حکمرانوں کی طرف سے
ایک بھی ایسی آواز سننے کو نہیں ملی جو اس نام نہاد سپر پاور اور درحقیقت
دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد ریاست سے یہ پوچھتی کہ صاحب اگر حقیقی اقدامات
کرنے کا وقت اب آیا ہے تو جو کچھ ہم نے اب تک کیا ہے وہ کیا تھا ؟اور اب تک
ہم نے جو خطیر نقصان اٹھایا ہے کیا وہ ہالی وڈکی کسی ایکشن فلم کی شوٹنگ
تھی ؟
کس قدر شرم کی بات ہے کہ امتِ مسلمہ کی واحد ،دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت
اور بہترین سپاہ رکھنے والی مملکت ِ خدادادکے لالچی حکمرانوں نے چند ٹکوں
اور دو روزہ اقتدار کی خاطر اصل مالک الملک کے نام لیوا مسلمانوں اور اپنے
ہی ہم وطنوںپر آگ و آہن کی نہ صرف اجازت دے رکھی ہے بلکہ کامیاب آپریشنوں
پر مبارکباد بھی دی جاتی ہے تا کہ حقِ غلامی میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔بے شک
اس شرمناک پسپائی کا ذلت آمیز سفر ملکی تاریخ کے بد ترین ڈکٹیٹرپرویز مشرف
کے دور میں ہوا لیکن اب جبکہ وطنِ عزیز پر ایک سول ملک کی سب سے بڑی عوامی
پارٹی ہونے کی دعویدار پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ایسے میں ہونا تو
یہ چاہئے تھا کہ عوامی حکومت عوام کے جذبات پیشِ نظرنہ صرف محب وطن قبائل
کا خونِ ناحق رکوانے کیلئے فوراََ ڈرون حملے رکواتی بلکہ ایک ڈکٹیٹر کی وضع
کردہ ان ''روشن خیال'' پالیسیوںپر بھی نظر ثانی کرتی جواس نے پوری دنیا میں
پاکستان کا soft imageبحال کرنے کے لئے تشکیل دی تھیںجبکہ ہوا یہ کہ بدنام
ِ زمانہ NROکی گنگا میں اشنان کر کے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان
ہونیوالی''عوامی حکومت''نے نہ صرف انہی پالیسیوں کو جاری و ساری رکھا بلکہ
اس سلسلے میں امریکی غلامی میں اس قدر آگے جا نکلی کہ پارلیمنٹ میں ڈرون
حملوں اور قومی سلامتی کو ملحوظِ خاطررکھتے ہوئے متفقہ طور پرمنظور
ہونیوالی قراردادوں کو بھی کوئی حیثیت نہیں دی جا رہی اور اب بھی ڈرون حملے
بدستور نہ صرف جاری ہیں بلکہ امریکی حکام بڑی ڈھٹائی سے یہ کہتے آرہے ہیں
کہ یہ حملے روکے بھی نہیں جائیں گے کیوں کہ پاکستان ہمارے ساتھ ڈبل گیم
کھیل رہا ہے وہ ایک طرف تو ہمارا اتحادی ہے جبکہ درحقیقت وہ اندرونی طور پر
مسلسل طالبان سے رابطے میں ہے۔یہ اور اس طرح کی بے سروپا باتیں امریکی
انتظامیہ کی طرف سے اکثر اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں جن کا مقصدپاکستان
کو مسلسل پریشرائز رکھنے کی پالیسی کا حصہ ہے جب کہ دوسری جانب زمینی حقائق
ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ امریکہ کا اپنا غرور graveyard of the super
powersافغانستان کی پہاڑیوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو چکا ہے حالاں کہ اسے اس
صلیبی جنگ میں NATOکی مدد بھی حاصل رہی ہے جس میں تقریباََ 40ممالک کی
افواجِ قاہرہ اپنے جدید ترین اسلحے سمیت شامل ہیں ۔یہاں پر ایک نہائت اہم
نقطہ یہ بھی ہے کہ اگر پاکستان اپنے ملکی مفاد میں طالبان سے روابط قائم
کرتا بھی ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے ؟کیا امریکہ افغانستان میں قیامِ امن
کیلئے ماضی میں طالبان سے مزاکرات اور انہیں حکومت میں شامل کرنے کیلئے
پرُکشش وزارتوں کی پیشکشیں نہیں کرتا رہا جسے عظیم طالبان نے پائے حقارت سے
ٹھکرادیابلکہ حال ہی میں ایسوسی ایٹڈ پریس نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی صدر
اوباما نے پاکستان اور پاکستان کیلئے نمائندہ خصوصی مارک گراسمین کو یہ
ٹاسک دیا ہے کہ وہ ہر صورت امیرالمجاہدین ملا عمر سے مزاکرات کی کوشش کرے
جس کیلئے گراسمین نے بھاگ دوڑ شروع کر بھی دی ہے۔پاکستان میں آئے روز کی
امریکی و نیٹو دہشت گردی اور اس پر ہماری حکومت کی مجرمانہ غفلت تو اب کوئی
نئی بات نہیں رہی لیکن ایسے میں افغان صدرحامد کرزئی جسے ہم دن رات امریکی
کٹھ پتلی کہتے ہوئے نہیں تھکتے کی جانب سے نیٹو کو مخاطب کرتے ہوئے دیا
جانے والا بیان شائد ہمارے مردہ ضمیر حکمرانوں کیلئے چابک کا کام دے جائے
جو اس نے نیٹو کی جانب سے مسلسل بے گناہ افغانیوں کی شہادت پر دیا اس نے
کہا ''نہتے افغانیوں پر نیٹو کی وحشیانہ بمباری اب ہر گز براشت نہیں کی
جائے گی اگر آئندہ اس طرح کی کاروائی ہوئی تو ہم نیٹو کو قابض فوج سمجھیں
گے''ان تمام حالات اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال کے تحت ضرورت اس بات کی
ہے کہ پاکستان اب بھی امریکی ارمانوں کا جنازہ اپنے کاندھوں پر اٹھانے کی
بجائے اپنے ملکی و عوامی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے حقیقی دوستوں
سعودی عرب،چین اور ترکی وغیرہ سے اپنے تعلقات کو مزید وسعت دے ورنہ امریکہ
نے اب ایک بار پھرجس طرح ڈو مور،ڈومور کی رٹ لگانی شروع کر دی ہے اب کی بار
بھی اگر ہم نہ سنبھلے تو پھر ہمیں یہ پھسلن ذلت و رسوائی کے تحت الثر یٰ تک
جا پہنچائے گی۔گویا یہ ہمارے سنبھلنے کا آخری موقع ہے۔ |