1971ءمیں پاکستان پر جنگ مسلط
کرتے ہوئے بھارت کا ایجنڈا مشرقی پاکستان کے عوام کو بچانے کے بجائے کچھ
اور تھا۔ بالآخر بنگلہ دیشی عوام پر یہ عقدہ اُس وقت کھلا جب انہیں یہ
معلوم ہوا کہ شیخ مجیب الرحمن کی جانب سے بھارت سے اپنی فوج اور بیوروکریٹ
واپس بلوانے کے مطالبے کے بعد بھارت نے اپنا اصل منصوبہ ختم کردیا۔
بھارت کو یہ فکر اور خوف دامن گیر تھا کہ اگر بنگلہ دیش کے عوام کو بھارت
کی جانب سے 1971ءکی جنگ چھیڑنے کے حقیقی محرکات کا علم ہوگیا تو نئی ریاست
سے اس کے تعلقات کشیدہ ہوجائیں گے۔ اسی خوف کے باعث بھارت نے پاکستان سے
1971ءکی جنگ سے متعلق تمام دستاویزات کترنوں میں کاٹنے والی مشین میں ڈال
کر ضائع کردیں۔
معروف بھارتی روزنامہ ٹائمز آف انڈیا نے 9 مئی 2010ءکی اشاعت میں یہ رپورٹ
دی ہے کہ ضائع کی گئی دستاویزات میں مکتی باہنی کی تخلیق، جنگ کے دنوں میں
بھارتی آرمی کی جانب سے تیار کیے گئے تمام تر تشخیص اور اقدامات، جنگی
فارمیشنز کو جاری کیے گئے احکامات اور دیگر حساس آپریشنل تفصیلات سے متعلق
فائلیں شامل تھیں۔
سرکاری ذرائع کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اُس دور کا تمام تر
ریکارڈ کولکتہ میں بھارتی آرمی کے ایسٹرن کمانڈ ہیڈ کوارٹرز میں رکھا ہوا
تھا، جسے 1971ءکی جنگ کے فوری بعد ضائع کردیا گیا۔ تاہم اس کے مندرجات اب
تک ایک راز ہی ہیں۔ سنسنی خیز حقیقت یہ ہے کہ فائلوں کی گمشدگی کا علم حال
ہی میں اُس وقت ہوا جب ایسٹرن کمانڈ مکتی باہنی کے کیمپوں کی تفصیلات تلاش
کررہی تھی جو کہ 1971ءکی جنگ میں حصہ لینے والوں کو ایک استقبالیہ دینا
چاہتی تھی۔
بھارتی آرمی کے سینئر افسران اور ایسٹرن کمانڈ کے دو سابق سربراہوں کے
مطابق یہ دستاویزات ممکنہ طور پر اس وقت ضائع کی گئیں جب لیفٹیننٹ جنرل
جگجیت سنگھ اروڑہ بھارتی آرمی کی ایسٹرن کمانڈ کی قیادت کررہے تھے۔
بھارتی آرمی نے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سخت گیر عناصر کے ایک
گروپ کو ترغیب و تحریص دے کر بھارت بھر میں قائم کیے گئے مختلف کیمپوں پر
پہنچایا جہاں بھارتی آرمی کے انسٹرکٹرز نے انہیں گوریلا جنگ کی تربیت فراہم
کی۔ بعدازاں مکتی باہنی کے جنگجو اُسی جنگی آپریشن کا حصہ بن گئے جو کہ
بھارتی آرمی نے 1971ءمیں مشرقی پاکستان میں شروع کی تھی۔
مکتی باہنی کے کیمپوں مثلاً کیمپوں کی لوکیشن، ان کیمپوں کی قیادت کرنے
والے افراد اور کیمپ میں شامل افراد کے ناموں کی تفصیلات تلاش کرنے کے
دوران آرمی کو متعلقہ فائلیں دستیاب نہ ہوسکیں۔ 1971ءکی جنگ سے متعلقہ
ریکارڈ تلاش کرنے پر ایسٹرن کمانڈ اس نتیجے پر پہنچی کہ تمام ریکارڈ لاپتہ
ہے۔
1974ءمیں ایسٹرن کمانڈ کے چیف کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد جب
لیفٹیننٹ جنرل جیکب، فرج، رافیل جیکب (جے ایف آر جیکب) نے یہ ریکارڈ دیکھنے
کی خواہش کا اظہار کیا تو انہیں بتایا گیا کہ پورا ریکارڈ کترنوں کی شکل
میں ضائع کردیا گیا ہے۔ بہرکیف! جب حال ہی میں ٹائمز آف انڈیا نے رابطہ کیا
تو لیفٹیننٹ جنرل (ر) جیکب نے اس معاملے پر بحث سے انکار کردیا کہ اس
ریکارڈ کو ضائع کرنے کے لیے احکامات کس نے جاری کیے اور اسے کترنوں میں کاٹ
کر ضائع کیوں کیا گیا۔
یہ دنیا میں شاید پہلی بار ہوا کہ ایک فاتح نے اپنی کامیابیوں کا تمام تر
ریکارڈ تلف کردیا۔ عام طور پر ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب الزامات سے بچنے یا
لڑائی کے دوران مدد فراہم کرنے والی پارٹیوں کی شناخت کو تحفظ فراہم کرنے
کے لیے ریکارڈ تلف کیا جاتا ہے۔ تاہم بھارتی آرمی کی جانب سے اپنا ریکارڈ
ضائع کرنے کی وجوہات قابلِ فہم نہیں ہیں۔
اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ریکارڈ ضائع کیے جانے کا علم 1974ءسے بھی قبل
ہوچکاتھا اور اُس وقت یہ معاملہ نئی دہلی میں اعلیٰ ترین سطح پر افسران کے
علم میں لایا گیا۔ ایم آئی علی نے ہالیڈے، ڈھاکہ میں 14 مئی 2010ءکو لکھے
گئے ایک کالم ”واقعہ سے شبہات میں اضافہ: بھارت نے جنگِ آزادی کا ریکارڈ
کیوں ضائع کیا؟“ (Incident fuels speculation: Why India destroyed
libration war records) میں لکھتے ہیں کہ ”کیا 1971ءمیں فتح حاصل ہوئی تھی“
جہاں تک بھارتیوں کی تشویش کا تعلق ہے، حقیقت یہ ہے کہ مکتی باہنی کا تمام
تر ریکارڈ حتیٰ کہ جو لوگ اس منصوبے سے منسلک تھے اُن کا تمام ریکارڈ ہمیشہ
کے لیے کترنوں کی شکل میں ضائع کردیا گیا۔
یہ اطلاعات ہیں کہ وہ فائلیں جس میں تمام تر مواد شامل تھا، بھارت کے لیے
تباہ کرنا قطعی طور پر ضروری ہوگیا، اس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ریکارڈ
بنیادی طور پر بھارت میں مکتی باہنی کیمپوں سے متعلق تھا۔ کیا ان کیمپوں کے
حوالے سے بھارت کا ایجنڈا بنگلہ دیش کے قیام سے ہٹ کر کچھ اور تھا؟ اس
بھارتی ایجنڈا پر عمل درآمد نہیں ہوسکا، تاہم اس کا کوئی سراغ بھی پیچھے
نہیں چھوڑا گیا۔ ایم آئی علی لکھتے ہیں کہ بھارت کو یہ خوف کہ عوامی سطح پر
ایجنڈا کا علم ہوجانے کی صورت میں بنگلہ دیش کے ساتھ مستقبل میں تعلقات
تباہ ہوسکتے ہیں۔
بہرکیف! ریکارڈ میں مکتی باہنی کیمپوں سے متعلق صرف محدود معلومات ہوسکتی
ہیں۔ ان دستاویزات میں بیشتر ڈیٹا معمول کی معلومات پر مبنی ہوگا کئی
کیمپوں کے روزمرہ کے امور کیمپ میں شامل نوجوانوں کے ناموں کی فہرست، تربیت
سے متعلق معلومات، ہتھیاروں کی فہرست، نقل و حرکت کا ریکارڈ اور وقتاً
فوقتاً موصول ہونے والی خصوصی ہدایات کا اندراج، تاہم اس نوعیت کی معلومات
کی ایسی اہمیت نہیں ہوتی کہ انہیں خفیہ طور پر کترنوں کی صورت میں مستقل
طور پر ضائع کردیا جائے۔
1971ءمیں ہند پاک جنگ کے بعد بھارتی آرمی نے مشرقی پاکستان میں پاکستان
آرمی کے تمام اثاثوں پر قبضہ کرلیا تھا اور بڑی تعداد میں بھارتی سول
سرونٹس بھی بنگلہ دیش کی نوزائیدہ مملکت کی مدد کے نام پر وہاں موجود تھے۔
نئی مملکت کو معاشی طور پر ناکارہ بنانے کے لیے بھارتیوں نے بنگلہ دیش میں
واقع تمام بڑے صنعتی یونٹوں بالخصوص جوٹ کی فیکٹریوں کو اپاہج بنادیا تھا۔
بعدازاں وہ پورے پورے پلانٹس کھول کر ملحقہ بھارتی ریاست مغربی بنگال لے
گئے۔ یہ صورتِ حال بھارتیوں کا ممکنہ طور پر بنگلہ دیش میں طویل قیام اور
بنگلہ دیشی دفاع اور انتظامیہ کی نگرانی میں ایک کردار ادا کرنے کی خواہش
کا اشارہ کرتا ہے۔
تاہم یہ منصوبے اُس وقت ختم کردیے گئے جب شیخ مجیب الرحمن نے بھارت پر اپنی
فوج اور بیوروکریٹس کو واپس لے جانے کے لیے دباؤ بڑھایا، اس کے نتیجے میں
بھارت نے اپنے منصوبوں کی فوری طور پر دوبارہ تیاری کی۔ ممکنہ طور پر اس
صورتِ حال کے باعث مکتی باہنی کے کیمپوں کی فائلیں ضائع کرنے پر مجبور ہوا
جو کہ کولکتہ میں فورٹ ولیمز میں رکھی گئی تھیں۔
ممکنہ طور پر ضائع کی گئی فائلوں میں مکتی باہنی کی صفوں میں شامل ایک
پانچویں کالم (Fifth column) کی تفصیلات موجود تھیں جن کا کردار بنگلہ دیش
پر بھارتی آرمی کے قبضے کو مستحکم بنانے میں مدد فراہم کرنا تھا۔ اس امکان
کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ یہ فائلیں عوام کے سامنے آنے کی صورت میں مکتی
باہنی میں شامل خصوصی تربیت یافتہ بھارتی ایجنٹس کے بے نقاب ہونے کا خدشہ
تھا۔ ایسا ہونے کی صورت میں وہ مستقبل میں بھارتی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک
پہنچانے میں مددگار نہیں ہوتے۔ بنگلہ دیش میں بہت سے باخبر لوگوں کو یہ
خدشات ہیں کہ ففتھ کالمسٹ ملک میں پرانے بھارتی ایجنڈے کو مکمل کرنے کے لیے
اب بھی خفیہ طور پر متحرک ہیں۔ |