افغان حکمرانوں کی دوغلی پالیسیاں اور ہمارے حکمرانوں کی ذمہ داری

ایسے وقت میں جب امریکا افغان مسئلہ کے حل کے لیے اپنی تمام استعداد مجتمع کررہا ہے، تو دوسری جانب صدر حامد کرزئی نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے اور طالبان سے ایک امن ڈیل کرنے کے لیے محترک ہیں۔ گو کہ امریکا انہیں اس ڈیل سے روکنے کی کوشش کررہا ہے تاہم کرزئی کا یہ دلیرانہ اقدام امریکا اور نیٹو فورسز کو افغانستان سے باعزت طور پر واپسی سے مدد فراہم کرسکتا ہے۔

امریکہ جریدہ نیوز ویک کے مطابق اندرونی طور پر کرزئی اپنے ساتھی پشتونوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو کہ ملک میں سب سے بڑا نسلی بلاک ہے۔ پشتونوں کو قبل ازیں بڑی تعداد میں اہم سیکورٹی عہدوں سے ہٹا کر تاجک نسلی اقلیت کی نمائندگی کرنے والے امریکی حمایت یافتہ لوگوں کو ان کی جگہ تعینات کردیا گیا تھا۔ ایک ماہ قبل کرزئی نے انٹیلی جنس کے تاجک النسل سربراہ امراللہ صالح کو ہٹا کر پشتونوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے والے ابراہیم اسپن زادہ کو تعینات کردیا۔ امراللہ صالح کرزئی کی جانب سے طالبان سے رابطوں کے سخت خلاف تھے۔ حال ہی میں کرزئی نے فوری اقدامات کے تحت دو پشتون جنرل شیر کریم اور محمد اکرم کو فوج کے انتہائی اہمیت کے حامل عہدوں پر چیف اور ڈپٹی چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے تعینات کردیا ہے۔ قبل ازیں ان عہدوں پر تاجک النسل جنرلز تعینات تھے۔

بیرونی محاذ پر کرزئی نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے اہم مذاکرات کا آغاز کردیا ہے جو کہ ان سے ملاقات کے لیے حال ہی میں دو مرتبہ کابل کا دورہ کرچکے ہیں۔ کرزئی پاکستان آرمی چیف کے ذریعے طالبان سے ایک امن معاہدہ کرنے کے خواہش مند ہیں، کیوں کہ اسلام آباد کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ماضی میں طالبان سے انتہائی قریبی تعلقات رہے ہیں جو کہ اب بھی پاکستان جنرلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کیوں کہ تمام طالبان رہنما اور جنگجو پشتون ہیں اور کرزئی کو ایک تاجک کٹھ پتلی ہونے کا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے اس لیے کرزئی کی امن کوششین ان کے لیے پشتون حمایت مستحکم کریں گی۔

واشنگٹن کرزئی اور طالبان کے درمیان مجوزہ امن معاہدہ کی شرائط پر چوکنا ہوگیا ہے۔ پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ریاض محمد خان نے مجوزہ معاہدہ کے حوالے سے حال ہی میں اظہارِ خیال کیا تھا۔ ان کا مشاہدہ تھا کہ طالبان نے کئی پشتون اکثریتی صوبوں مثلاً خوست اور پکتیا میں اپنے قدم مضبوطی سے جما رکھے ہیں، وہاں وہ اپنا قبضہ برقرار رکھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کابل میں شراکت اقتدار کے خواہش مند نہیں جب کہ انہوں نے طالبان کی جانب سے ایک اور ملک گیر ٹیک اوور کے امکانات مسترد کردیے۔
اگر کرزئی کو صدر کی حیثیت سے اقتدار برقرار رکھنے کے لیے یہ قیمت ادا کرنی پڑی تو وہ طالبان کا ان مقامی شہروں یا صوبوں پر کنٹرول تسلیم کرلیں گے۔ شاید کرزئی کا یہ اقدام صوبائی خودمختاری کو مستحکم کرنے کے لیے وسیع آئینی اصلاحات کے ایک حصہ کے طور پر ہوگا۔ تاہم امریکا کو اس ڈیل پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ طالبان اور اسلام آباد میں اُس کے حمایت یہ ضمانت دینے پر آمادہ ہیں کہ ان صوبوں کو دہشت گردی کی بین الاقوامی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ امریکا کے لیے جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ طالبان کو کابل میں شراکتِ اقتدار سے دُور یا پھر محدود رکھا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مقامی مضبوط گڑھ پر طالبان کا کنٹرول قبول کرنا ضروری ہوگا۔

بہت سی مختلف وجوہات کے باعث واشنگٹن افغانستان میں تاریخی پشتون غلبہ کو نظرانداز کرتا رہا ہے۔ پشتون بادشاہوں نے 1747ءمیں بادشاہت کے قیام سے 1973ءمیں اس کے خاتمے تک افغانستان پر حکمرانی کی ہے۔ آج 28 ملین (دو کروڑ 80 لاکھ) آبادی والے ملک میں 44 فیصد پشتون ہیں، تاجک مجموعی آبادی کا 27 فیصد ہیں۔ اب تک کابل میں اقتدار کا لیور تاجکوں کے ہاتھ میں ہے، کیوں کہ 1996ءسے 2001ءتک قائم رہنے والی طالبان حکومت کے خاتمے کی امریکی مہم کے مہینوں کے دوران انہوں نے درست وقت پر درست جگہ کا انتخاب کرلیا تھا۔ جب فاتح امریکی فوجوں نے کابل میں مارچ کیا تو تاجک النسل طالبان مخالف ملیشیا شمالی اتحاد بھی وہاں موجود تھا۔ تاجک جنرلوں نے امریکی مدد سے نئی حکومت میں اہم سیکورٹی عہدوں پر قبضہ کرلیا۔

پشتونوں کو ساتھ ملانے کے لیے کرزئی کی کوششوں کے نتیجے میں طالبان کے اس پروپیگنڈے کا مقابلہ کیا جاسکے گا کہ امریکا ملک کے سب سے بڑے نسلی گروپ کو اہمیت نہیں دیتا۔ تاہم کرزئی کی اس اسٹرٹیجی میں ایک خدشہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں تاجک انتقامی حملے کرسکتے ہیں۔ کرزئی کے لیے مضبوط امریکی حمایت تاجکوں کو حدود میں رکھنے کے لیے ضروری ہوگی۔ اس کے نتیجے میں اس سوچ کو ابھرنے سے بھی روکا جاسکے گا کہ امریکا دوبارہ پشتون مفادات کی مخالفت کررہا ہے۔

کرزئی سے امریکی تعاون اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ وہ پاکستانی رہنماؤں کے ہمراہ امن کے لیے کوئی فارمولا وضع کرسکتے ہیں۔ طالبان رہنما اب بھی اس موقف پر اصرار کریں گے کہ یقینی مذاکرات کے لیے امریکا اور نیٹو افغانستان سے دست بردار ہونے کے لیے ٹائم ٹیبل دیں۔ ٹائم ٹیبل دیے بغیر طالبان مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے برخلاف جب بھی فوجوں کی واپسی کے ٹائم ٹیبل کا اعلان کیا جائے گا تو غیر ملکی قبضے کے خلاف طالبان کی جذباتی اپیل کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ پاکستان میں سی آئی اے کے ایک سابق اسٹیشن چیف ہوارڈ ہارٹ نے نیویارک ٹائمز کے نکولس کرٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بھی اسی مو ¿قف کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری فوجوں کی افغانستان میں موجودگی ایک مسئلہ ہے۔ ہم جتنے زیادہ فوجی وہاں رکھیں گے اتنی ہی زیادہ مخالفت ہوگی۔

( یہ آرٹیکل افغان صدر حامد کرزئی کی دوغلی پالیسی پر روشنی ڈالنے کے لئے گزشتہ برس لکھا گیا جو کہ روزنامہ جرات میں شائع ہو چکا ہے تاہم وہی حالات دوبارہ پیش آنے کے باعث ہماری ویب پر جاری کیا گیا ہے )
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 77827 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More