جب القاعدہ کے نمبر 3 اور افغان
آپریشنز کے سربراہ مصطفی ابویزید شمالی وزیرستان میں ایک ڈرون حملے میںہلاک
ہوگئے تھے تو یہ خیال کیا جارہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ
پاکستان کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔
مصری نژاد کٹر جنگجو کمانڈر شیخ فتح المصری کی تقرری سے القاعدہ کی
اسٹرٹیجی میں ایک تبدیلی نظر آئی کہ القاعدہ افغانستان میں اپنی موجودگی
بڑھانے کی خواہش مند ہے۔
”القاعدہ کے نئے رہنما کی پاکستان پر نظر“ کے عنوان سے شائع ہونے والی
رپورٹ میں سید سلیم شہزاد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں القاعدہ کو افغانستان
میں غیر ملکی فوجوں کے خلاف القاعدہ آپریشنز کامیاب بنانے کے لیے استعمال
کیا جائے گا۔
”ایشیا ٹائمز“ سے گفتگو کرنے والے عسکریت پسندوں نے کہا کہ المصری
افغانستان کی نئی تبدیل ہونے والی اسٹرٹیجی پر توجہ مرکوز کریں گے۔ ان کا
کہنا تھا کہ المصری یہ سمجھ چکے ہیں کہ افغانستان میں جاری لڑائی کو
پاکستان سے علیحدہ نہیں رکھا جاسکتا۔
شہزاد کی رپورٹ کے مطابق القاعدہ کی ضمن میں پاکستان کی اسٹرٹیجی مختلف
افغان گروپوں کو متحد کر کے القاعدہ اور اس سے ملحقہ پاکستانی تنظیموں کے
خلاف لڑائی کے لیے ماحول تیار کرنا ہے۔ رپورٹ میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ
المصری کو لاہور میں قادیانیوں کی عبادت گاہ پر حملہ کرنے کی کھلی چھوٹ دے
دی گئی تھی جس میں قادیانی فرقہ کے 95 افراد ہلاک اور 100 کے لگ بھگ زخمی
ہوگئے تھے۔ اس حملہ میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات بہ ظاہر کم ہوئے
کیوں کہ انٹیلی جنس اداروں نے احمدیہ کمیونٹی پر حملوں کی مبینہ سازش کی
اطلاعات فراہم کردی تھیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے
تھے اور انہوں نے شمالی وزیرستان میں اپنی ٹاپ لیڈر شپ سے مشورہ کیے بغیر
داتا دربار پر حملے کا فیصلہ کرلیا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ حملہ
پنجابی طالبان کی کارستانی نہیں تھا۔
داتا دربار پر حملے کے نتیجے میں دیوبندی اور بریلوی مکتبہ فکر کے ماننے
والوں کے درمیان شدید ترین اختلافات پیدا ہوگئے۔ وزیرِاعظم سید یوسف رضا
گیلانی نے دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ اسٹرٹیجی کا فیصلہ
کرنے کے لیے ایک قومی کانفرنس کا اعلان کردیا۔ اس کا دیوبندی اسکالرز نے
بھی خیرمقدم کیا جو محسوس کرتے تھے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پالیسیاں
ان پر اثراندوز ہوسکتی ہیں۔
دیوبندی اسکالرز کی بریلوی اسکالرز کے برخلاف ایک مضبوط سیاسی بنیاد بھی ہے،
جس کی وجہ سے ان کا مدارس اور مساجد کا ایک بڑا نیٹ ورک ہے۔ اس نیٹ ورک کے
باعث وہ دائیں بازو کی جماعتوں پر اپنا گہرا اثر و رسوخ بھی استعمال کرسکتے
ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس صورتِ حال کے باعث دائیں بازو کی کوئی بھی جماعت انہیں
خفا کرنے کی جسارت نہیں کرتی، باوجود اس حقیقت کے کہ ان کے طالبان سے گہرے
مراسم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے فوری طور پر طالبان سے مذاکرات کی
ضرورت پر زور دیتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری
خارجہ پالیسی میں سقم کو قرار دیا۔
سلیم شہزاد نے ایشیا ٹائمز میں شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں کہا کہ پنجاب
میں عسکریت پسندوں کی مقبولیت میں حالیہ مہینوں کے دوران قابلِ ذکر کمی
ہوئی ہے۔ تاہم دہشت گردوں کی حکمرانی نے صوبہ پنجاب میں بالخصوص اور ملک
میں بالعموم گہرائی تک سیاسی اور فرقہ وارانہ پولرائزیشن پیدا کی ہے۔
پنجاب میں عسکریت پسندی کے معاملے پر سیکورٹی فورسز کے قبل از وقت اقدامات
کے باعث القاعدہ اورکرزئی جیسے علاقوں میں سکون کا سانس لے گی جہاں پہلے ہی
اس کا گہرا اثر و رسوخ ہے۔
رپورٹ میں توقع ظاہر کی گئی ہے کہ سکون کا سانس لے کر المصری افغانستان اور
پاکستان دونوں جگہ حملوں کا انتظار کررہا ہے۔
پاکستان میں مجموعی طور پر 239 مذہبی تنظیمیں کام کررہی ہیں، ان میں سے 107
کے ہیڈ کوارٹر پنجاب میں ہیں اور تقریباً تمام تنظیموں کے صوبہ میں مضبوط
نیٹ ورک کام کررہے ہیں۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ 1947ءمیں صرف 6 مذہبی
جماعتیں کام کررہی تھیں، ان میں جمعیت علمائے اسلام، جماعتِ اسلامی، تحریکِ
احرار، خاکسار تحریک، جماعتِ اہلِ حدیث اور شیعہ پولیٹیکل پارٹی۔
ملک بالخصوص پنجاب میں مذہبی تنظیموں کی افراط 1970ءکی دہائی میں ہوئی۔
1980ءکی دہائی میں افغان، سویت جنگ کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا۔ 1979ءتک
30 مذہبی تنظیمیں اور جماعتیں کام کررہی تھیں، ان میں سے 5 کا تعلق بریلوی
مکتبہ فکر، 7 کا دیوبندی، 4 کا اہلِ حدیث اور شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی
تھیں۔ 1980ءکی دہائی میں مذہبی سیاسی جماعتوں اور دینی تنظیموں کی تعداد
بڑھ کر 239 ہوگئی۔
افغانستان پر امریکی حملے اور اتحادی فوجوں کی ظالمانہ کارروائیوں کے نتیجے
میں جہادی تنظیموں کو عوامی سطح پر مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ سلسلہ ایک عشرہ
تک چلتا رہا، تاوقت یہ کہ جہادی تنظیموں نے پاکستانی شہریوں کو بھی دہشت
گردی کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ داتا دربار حملے کے بعد پہلی بار صوبہ
پنجاب میں عوامی ردِعمل جہادی تنظیموں کے خلاف ہوگیا ہے۔ تاہم اس کے خاتمے
کے لیے ایک طویل اور مضبوط جنگ لڑنی ہوگی۔ )مقتول سلیم شہزاد کی یہ رپورٹ
ایشیاءٹائمز نے شائع کی تھی جس کاراقم نے اردو ترجمعہ کر کے روزنامہ جرات
میں27جولائی 2010کو شائع کیا) |