سیاسی اسٹاک ایکسچینج

2013ء میں یوم تکبیرکے سلسلہ میں نواز شریف کادیدار (جی ہاں دیدار )نصیب ہوا ۔ اگر سینیٹر(ر)سید فصیح اقبال ہمت نہ کرتے تومیں زیارت سے محروم رہ جاتا۔ تب میں نے ایک کالم بہ عنوان"یوم تکبیر کا متکبر" لکھا تھا۔ اس کی تفصیل میں جائے بغیراس دن کی گئی باتوں میں سے ایک پر کچھ لکھنے کی جسارت کروں گا۔میں نے ان سے کہا کہ میاں صاحب ایک بار وزیر،دو بار وزیر اعلیٰ پنجاب اور دو بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔اب مجھے یقین ہے کہ آپ کچھ نہ بھی سوچیں تب بھی آپ کی طرف سے ملک کیلئے بھلائی ہی نکلے گی۔عوام بھی یہی چاہتی ہے۔تیسری باری میں آپ اپنی پارٹی اورذات سے ابھر کراگر ملک کو گھمبیر اور تشویشناک صورتحال سے نکال لیں گے تو نہ صرف پاکستان کا بیڑہ پارہوگا بلکہ آپ بھی تاریخ میں امر ہو جائیں گے۔کیوں کہ آپ پاکستان کے بلحاظ آبادی سب سے بڑے صوبے پنجاب سے ہے۔اس کی بناء پر سروسزاور اسٹیبلشمنٹ میں بھی بڑا حصہ ہے۔دوسرے صوبوں میں بھی آپ کے چاہنے والے ہیں۔اس کی بناء پرآپ نہایت آسانی سے ملک کوسیدھی سمت میں لے جانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس طرح وہ لوگ جو ہمیشہ سے پنجاب اور اسٹیبلشمنٹ کے خلف بولتے ہیں ان زبان بندی بھی ہوجائے گی۔ ان کی اپنی دلیلیں اور تاویلیں تھیں جو کہ بے وزن اورسطحی تھیں۔وہ میری گفتگو سے واضح طورپر زچ نظرآرہے تھے۔بہرحال میں یہ کہتے ہوئے محفل سے اٹھ گیاکہ مرضی آپ کی ہے گاڑی آپ کی ہے اورڈرائیور آپ ہیں جس طرح چاہیں چلائیں ۔لیکن اگر میری گذارشات نہ مانیں تو جلد ہی مسائل میں الجھ جائیں گے۔برا تو ان کو بہت لگامگر بعد کے واقعات نے میرے اندیشے صحیح ثابت کردئیے۔اس وقت اگروہ آرام سے اچھے فزیشن کی طرح ضروری ٹیسٹ اورصحیح انداز میں معائنہ کر کے دوائیاں تجویزکرتے تومرض ختم ہوجاتا اور مریض ایک صحتمند زندگی گزار رہا ہوتا۔مگر انہوں نے ایک غافل اور اور نااہل ڈاکٹر کی طرح مریض کاعلاج غلط طور پر کیا اور مرض کو مزید پیچیدہ کر دیا۔ جب دوسرے ڈاکٹر نے مریض کو سنبھالاتو پرانے مسیحا نے شور مچا نا شروع کردیا۔ سسٹم کی خرابی کاشور مچا کراب سرجیکل علاج کے لئے ضدکررہے ہیں۔ میاں صاحب بھی بالکل ایسا ہی کر رہے ہیں۔ کیوں نکالا کا بھونڈہ اور عاجزانہ انداز، پھرنظریاتی اور انقلابی ہونے کے دعویدار ہونے کے بعد ووٹ کو عزت دینے کا خیال اور نعرہ ان کی پریشان سیاست کا واضح ثبوت ہے۔ آخرکارسیلیکٹڈکی آڑ میں فوج پر سیدھا وار کرکے ثابت کر دیا کہ وہ اس ادارے کو چیلنج کر سکتے ہیںَ جب کہ میں نے ان سے گزارش کی تھی کہ وہ سسٹم کو راہ راست پر لاسکتے ہیں۔

ان کی عیاں اور پوشیدہ طاقتوں اور رابطوں کا مجھے کچھ ا دراک اور علم تھا۔ میاں صاحب نے میری باتوں در خور اعتناء نہیں سمجھا۔اور اپنے پرانے اندازمیں حکومت کرتے رہے۔ ملک و قوم کی بدبختی کہ تین بار کے وزیر اعظم کے اس دور میں ملک برے حالات کا شکار رہا۔ جب ان کی پارٹی انتخابات کے بعدحزب اختلاف بنی تو وقت آیا کہ وہ عدالتوں کا سنجیدگی،متانت،دیانت اور وقار کے ساتھ سامنا کرتے۔لیکن انہوں نے سطحی انداز میں عدالتوں اورسسٹم کو مصروف رکھااور نئی منفی مثالیں قائم کیں۔بیماری،پلیٹ لیٹس،زہر دیاجانے کاالزام،دن میں آٹھ باراینجائنا کے حملے،اور کیا کیا مکر نہ کئے گئے۔ سچائی دکھانے کے بھونڈے طریقے ، قطری شہزادے کا کیلیبری رسم الخط والا خط اور بہت سے بھونڈے حیلے بہانے۔اب آخر میں پی ڈی ایم بننے کے بعد دھاندلی اور سیلیکٹڈکا بیانیہ بدل دیا گیا۔پہلے خلائی مخلوق کا چرچا خوب کیا جاتاتھا پھر اسٹیبلشمنٹ کا نام لیا جانے لگا۔پھر گجرانوالا کے پہلے جلسہ عام میں بیمار نواز شریف ایک نئے انداز میں جلوہ گیر ہوئے،وہ کسی بھی طرح بیمار نظر نہیں آئے۔ گھن گرج قابل سماعت اور زبردست تھی۔غصہ عیاں تھااور پھر ایٹمی دھماکوں کی طرح ایک سیاسی دھماکہ کر دیا۔خلائی مخلوق ِ،اسٹیبلشمنٹ کے بعدفوج کے سربراہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ پر چڑھ دوڑے۔پاکستان کے سیاسی ماحول میں اکثروبیشتر قوم پرست پارٹیاں اداروں پر تنقید کرتی رہی ہیں۔ بھارت اور بیرون ملک جلاوطن علیحدگی پسند رہنماتو یہ بات کھلے عام کرتے رہتے ہیں۔ اندرون ملک یہ بہت بڑا واقعہ ہے کہ یہ پنجاب کے ایک بڑے رہنما نے کہہ دیا۔ نواز شریف نے بزعم خود ثابت کردیاکہ وہ انقلابی بن چکے ہیں ۔سونے پرسہاگہ یہ کہ ان کی بیٹی مریم بی بی مسلسل کہہ رہی ہیں کہ اِسٹیبلشمنٹ تو بزدل لوگ کہتے ہیں ۔شاید وہ بھول رہی ہیں کہ ان سے ہزاروں گنا زیادہ بہادر ملک میں موجود ہیں۔ ان کو شہ دیکرملک کو کمزور کرنا کون سی دانشمندی اور قومی خدمت کر رہی ہیں وہ۔ملک کو آئینی راستے پر لانا ضروری ہے۔ سب اداروں کواپنے اپنے دائرے میں رکھنے کیلئے کیوں نہ سنجیدگی سے کوشش کی جائے۔اپنے اپنے منشورکے مطابق ہر جماعت عملی سیاست کرے اور عوام کی بے لوث خدمت کرے تو ملک و قوم کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔ وقت یہی ہے سماج ، سیاست اور اداروں کو راہ راست پر لانے کا۔ سیاست کو سائنس ہی بنائیں آرٹ(فن) نہیں، سیاسی فنکاریاں بہت ہو چکی ہیں۔

 

Nawab Dr. Ghaus Bakshs Barozai
About the Author: Nawab Dr. Ghaus Bakshs Barozai Read More Articles by Nawab Dr. Ghaus Bakshs Barozai: 24 Articles with 19957 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.