ارنب گو سوامی سے پیار اور صدیق کپن پر وار؟ آخر کیوں ؟

عدالت عظمیٰ کی شبیہ فی الحال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ اس کے تعلق سے پچھلے دنوں سوشیل میڈیا میں ایک نہایت دلچسپ لطیفہ گردش کرنے لگا جو اس طرح تھا کہ چنگیز خان نے اپنی حیات میں ۴ کروڈ لوگوں کو قتل کردیا ۔ اپنی موت سے قبل اس نے اپنے گرو کو بلا کر پوچھا کہ کیا دنیا میں کوئی ایسی جگہ ہے جہاں میری معافی تلافی ہوسکے ؟ اس کا استاد بولا اے شہنشاہ آپ ہندوستان کی عدالت عظمیٰ سے رابطہ کریں وہ کوئی نہ کوئی جگاڑ لگاہی لیں گے ۔ اس لطیفے کی حقیقت ارنب گو سوامی کو 7 دن کے اندر رہائی میں پوشیدہ ہے ۔ ارنب کو ایک ہفتہ کے اندر آزادی کا پروانہ دینے والی عدالتِ عظمیٰ کو صدیق کپن پر رحم نہیں آتا جن کی بلاجواز گرفتاری کو 70 دن سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔

صدیق کپن ایک سینئر صحافی ہیں جنھیں ہاتھرس کے متاثرہ کے گاوں جاتے وقتبے بنیاد الزام لگا کر گرفتار کرلیا گیا تھا ۔ انہوں نے ارنب گوسوامی کی مانند کسی آرکیٹیکٹ کے پیسے دبا کر اسے خود کشی کے لیے مجبور نہیں کیا بلکہ وہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری ادا کررہے تھے ۔ ان کو ضمانت دلانے کی خاطر دوسری مرتبہ کیرالہ ورکنگ جرنلسٹ ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو پھر سے عدالت عظمیٰ نے ہائی کورٹ کا راستہ دکھا دیا ۔ ارنب کو بھی ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ میں جانے کی ہدایت کی تھی جہاں اس پر مقدمہ درج تھا لیکن سپریم کورٹ نے عدالت عالیہ کے فیصلے کی تو ثیق کرنے کے بجائے مداخلت کرکے فوری ضمانت دے دی ۔ سوال یہ ہے کہ اگر عدالت کے اندر بھی تفریق و امتیاز ہونے لگے تو انصاف کہاں ہوگا؟

صدیق کپن کی درخواست ضمانت کےدورانِ سماعت چیف جسٹس بوبڈے نے انکے وکیل کپل سبل سےپوچھا کہ وہ ہائی کورٹ کیوں نہیں جاتے؟ اس پرسبل نے بتایا کہ درخواست گزارکے اہل خانہ کو نہ تو اس سے جیل میں ملنے دیا جارہا ہے، نہ کسی وکیل کو ملاقات کی اجازت ہے۔ اس کے بعد جسٹس بوبڑے نےاترپردیش حکومت سے جواب طلب کرنے کے لیے نوٹس جاری کرکے شنوائی کے لیے چار دن بعد کی تاریخ مقرر کردی۔ایک ماہ قبل اکتوبر میں بھی جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تو عدالت کا یہی موقف اختیار تھا۔ اس طرح دومہینے گزر گئےلیکن صدیق کپن کو ضمانت دینا تو دور ان کی غیر قانونی گرفتاری پر سماعت کے لیے بھی عدالت راضی نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ آرٹیکل 32 کے تحت دائر پی آئی ایل کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ارنب کے معاملے میں حوصلہ افزائی اور صدیق کے لیے حوصلہ شکنی یہ کہاں کا انصاف ہے؟
ارنب گوسوامی اور صدیق کپن میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اول الذکر کی حمایت میں مگر مچھ کے آنسو بہانے کے لیے پوری بی جے پی تال ٹھونک کے میدان میں آگئی تھی لیکن کوئی صحافتی ادارہ آگے نہیں آیا کیونکہ اول کو لوگ اس کو صحافی نہیں مانتے دوسرے اس پر ایک خودکشی میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ اس کے برعکس صدیق کپن کی گرفتاری کے خلاف پوری صحافتی برادی احتجاج درج کراچکی ہے۔ دہلییونین آف جرنلسٹس کے صدر ایس کے پانڈے نے کہا تھاکہ ”صدیق کپّن کی گرفتاری اس امر کا اشارہ ہے کہ اترپردیش کییوگی حکومت میڈیا کو اپنا کام کرنے سے روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ وہ اصل حقائق کو عوام کے سامنے لانے سے روکنے کے لیے کوئی بھی حربہ اپنا سکتی ہے۔" انہوں نے مشتبہ بنیادوں پر صحافیوں کو گرفتار کرنے کے رجحان کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہاتھا کہ صدیق کپّن ایک پروفیشنل جرنلسٹ ہیں۔ انہیں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے ہاتھرس جاتے ہوئےگرفتار کیا گیااس لیے فوراً رہا کیا جانا چاہیے ۔
ڈی یو جے کے علاوہ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے بھی صدیق کپّن کی گرفتاریکے بعد میڈیا کو ہاتھرس کےمتاثرہ کنبے سے ملاقات کی اجازت نہیں دینے کے لیےیوگیسرکارکو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ گلڈ کے مطابق ہاتھرس معاملہ میڈیا کے کام میں ریاستی مداخلت کی بدترین مثال ہے۔ ایڈیٹرز گلڈ نے حالیہ مہینوں میں ذرائع ابلاغ پرریاستی حکومتوں کے بڑھتے ہوئے حملوں پر تشویش کا اظہار کیا۔پریس کلب آف انڈیا (پی سی آئی) نے صدیق کپّن کی گرفتاری کو اترپردیش پولیس کے ذریعہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر ایک صحافی پرانسداد دہشت گردی جیسے قوانین کےاستعمال کو غلط ٹھہراتے ہوئے فوری رہائی پر اصرار کیا ۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے بھی صدیق کےخلاف درج مقدمات واپس لے کررہائی کا مطالبہ کیا۔ ان ساری اپیلوں کو دو ماہ گزر چکے ہیں لیکن عدلیہ یا انتظامیہ کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔

پریس ایسوسی ایشن آف انڈیانے بھییوگی حکومت کے اس اقدام کو میڈیاکا گلا گھونٹنے کی کوشش قرار دیا ۔ انہوں نے اترپردیش پولیس کے اس دعوے کو بے بنیاد بتایا کہ صدیق کپّن کا تعلق پیپلز فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) نامی تنظیم سے ہے۔ صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پولیس اس سلسلے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکی ہے۔دہلی یونین آف جرنلسٹس کی انتظامیہ کے رکن ایم ساجد نے ریاستی حکومت پر ہاتھرس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کا الزام لگایا ۔اُن کے بقول ’حکومت کو قربانی کے بکرے کی تلاش تھی سو اُنہیں چار مسلمان مل گئے‘۔ انہوں نے اس گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی اور سپریم کورٹ سے اپیل کی تھی کہ صدیق کپن کو بلا تاخیر رہا کیا جائے۔ویسے پی ایف آئی کوئی ممنوعہ تنظیم تو ہے نہیں کہ کسی کو اس سے جوڑ کر گرفتار کرلیا جائے۔ حکومت اگر پی ایف آئی پر پابندی لگانے کی کوشش کرے گی تو عدالت میں اوندھے منہ گرجائےگی ۔اتر پردیش کی پولیسکا دعویٰ تھا کہ اس نے ہاتھرس معاملے پر ذات پات کی بنیاد پر فساد بھڑکانے اور یوگی حکومت کو بدنام کرنے کے لیے تیار کی گئی ایک بین الاقوامی سازش کا پتہ لگایا لیا ہے اور اس کے لیے کئی کروڈ روپیہ بیرونی ممالک سے آیا ہے حالانکہ سرکاری ادارہ ای ڈی نے اس کی تردید کردی۔

حزب اختلاف کانگریس نے یوگی انتظامیہ کے بین الاقوامی سازش والے پروپگنڈے پر کہا تھا کہ وزیر اعلیٰ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے ہیں۔ وہ متاثرین کو انصاف دلانے کے بجائے بین الاقوامی سازش کیاحمقانہ افواہ گڑھ رہے ہیں۔ آدتیہ ناتھ عوام کو بے وقوف بنانے کے بجائے بیٹیوں کو انصاف دلائیں ۔یہ نہایت افسوسناک صورتحال جس میں صدیق کپن جیسے صحافی کے خلاف انسدادِ دہشت گردی یعنی 'یو اے پی اے' اور غداری کے الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی۔ یوگی اور مودی سرکار کی انہیں حرکتوں کے سبب عالمی ادارہ (Reporters without border) کیجانب سے جاری کردہ رپورٹ 2020 کے اندر صحافتی آزادی کے باب میں ہندوستان کو 142ویں مقام پر رکھا گیا ہے۔ صحافتی آزادی کے لحاظ سے ہندوستان کی حالت اپنے پڑوسی ممالک نیپال، بھوٹان اور سری لنکا سے بھی دگر گوں ہوچکی ہے۔یہ انحطاط جاری رہا تو بعید نہیں کہ ہندوستان 180 ممالک کی عالمی فہرست میں آخری پائیدان پر پہنچ جائے۔

اس صورتحال کو سدھارنے کے عدالت عظمیٰ کو اہم کردار ادا کرنا چاہیے لیکن اس کا معاملہ یہ ہے کہ جب حکومت کی جانب سے صحافتی حقوق پامال کیے جاتے ہیں تو ضابطوں کا بہانہ بناکر ٹال مٹول کا رویہ اختیار کرتی ہے ۔ ارنب گوسوامی جیسے کسی ہائی پروفائل کی آدمی کے مقدمہ میں اچانک نیند سے بیدار ہوکر سرگرم عمل ہوجاتا ہےاور صدیق کپن جیسے لوگوں معاملے میں کمبھ کرن کی نیند سوتا رہتا ہے۔ سپریم کورٹ کے لیے صدیق کپن نے معاملے میں ضمانت دے کر اپناوقار بحال کرنے کا ایک نادر موقع ہے لیکن اگر اس نے پھر سے اسے الہ باد ہائی کورٹ کی جانب ڈھکیل کر شتر مرغ کی مانند اپنی گردن ریت میں ڈھانپ لی تو ارنب گوسوامی کے حوالے اس کے متعلق وضع کیا جانے والا یہ لطیفہ درست ثابت ہوجائے گا جس میں کہا گیا ہے کہ ہما ری عدالت میں عورت کو مرد ثابت کرنے کے سوا سب کچھ ممکن ہے ۔ امید ہے جمعہ 20 نومبر کو سپریم کورٹ مایوس نہیں کرے گا۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1228261 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.