واقعـی بیٹیوں کی تربیت ایسـی ہـی کرنـی چاہیــے
❤
شادی کےتین سال کے بعد ساسُ نے بہو سے پوچھا.:
بہو مجھے ایک بات تو بتا. میں تجھے اتنی خراب اور کھری کھری باتیں سناتی
ہوں اور تو پلٹ کر جواب بھی نہیں دیتی اور غصہ بھی نہیں کرتی اور بس ہنستی
رہتی ہے۔
بہو کو تو جیسے سنانے کو کہانی مل گئی۔۔۔
کہنے لگی :
اماں جی آپ کو ایک بات سناتی ہوں۔ میں جب چھوٹی تھی تو مجھے ہمیشہ ایسا
لگتا تھا کہ میری ماں میری سگی ماں نہیں۔ کیوں کہ وہ مجھ سے گھر کے سارے
کام کرواتی تھی اور کوئی کام غلط ہو جاتا تو مجھے ڈانٹ بھی پڑتی اور کبھی
کبھی مار بھی دیتی تھی لیکن ماں تھی وہ میری۔ مجھے ان سے ڈر بھی لگتا تھا
اور میں نے ان سے کبھی غصہ نہیں کیا۔۔۔
یہاں تک کہ میں کالج سے تھکی ہوئی واپس آتی تو آتے ہی کچھ دیر آرام کے بعد
مجھے کام کرنے ہوتے تھے۔
پھر جب میری بھابیاں آئیں تب تو جیسے میرے کام زیادہ ہی بڑھ گئے۔ ہونا تو
چاہیے تھا کہ بہو آئی تو ساری ذمہ داریاں اس پر ڈال جاتی۔ لیکن میری امی نے
پھر بھی مجھ سے سارا کام کروایا اور کبھی بھی بھابھیوں کو نہیں ڈانٹا بلکہ
ان کے کام بھی مجھے کہتی تھیں کہ کر دو خیر ہے۔ "پھر کیا ہوتا ہے" ان کا یہ
ایک جملہ ہمیشہ مجھے یاد رہتا ہے۔
وہ کہتی تھی خیر ہے بیٹی اگلے گھر جاکر تجھے مشکل نہیں ہوگی اور میں اِس
جملے سے چِڑ گئی تھی۔
جب میری شادی تھی تو دو دن پہلے مجھے امی نے پیار سے اپنے پاس بٹھایا اور
بولیں :
بیٹا آج تک سمجھ میں تیری ساس تھی۔ میں نے تجھے پریکٹس کروا دی ہے اور تجھے
بتا دیا ہے کے ساس کیسی ہوتی ہے۔ اب آج سے میں تیری ماں ہوں۔ اب تیری شادی
ہو رہی ہے تو بیٹا جب تمھاری ساس تمہیں کچھ کہے تو سمجھنا کہ جیسے میں کہتی
تھی ویسے ہی تیری ماں تجھے ڈانٹ رہی ہے۔ بس یہ ہی بات تھی کہ مجھے آپ کی
باتیں بری نہیں لگتی۔ کیوں کہ میری امی نے مجھے پریکٹس کروا کے بیجھا ہے۔۔۔
اور اماں جی آپ نے تو کبھی اتنا ڈانٹا ہی نہیں جتنا امی ڈانٹتی تھیں۔۔ توبہ
توبہ۔۔
بہو ہنستی ہوئی کچن میں چلی گئی۔۔۔
اور ساس سوچتی رہی کہ کیا واقعی بیٹیوں کی تربیت ایسی کرنی چاہیئے۔۔۔؟
|