وزیر داخلہ امیت شاہ نے صحت یاب ہوتے ہی سیاسی پینترے
بازی شروع کردی ۔ پہلے مغربی بنگال گئے اس کے بعد پٹنہ کی حلف برداری میں
شرکت کی اور پھر جموں کشمیر میں اپنے سیاسی مخالفین کو گپکار گینگ کے لقب
سے نواز کر انہیں دہشت گردی سے جوڑ دیا۔ وزیر داخلہ کا الزام ہے کہ یہ ملک
و قوم کےدشمن ہیں اور انہوں نے قومی پرچم کی توہین کی ہے۔ اس اشتعال انگیز
بیان کے ساتھ وادی میں سیاسی ماحول گرم ہوگیا ۔ سابق وزیر اعلیٰ جموں کشمیر
محبوبہ مفتی نے اس پر سخت رد عمل کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے وہ کہتے
تھے کہ ٹکڑے ٹکڑے گینگ سے ہندوستان کی خودمختاری کو خطرہ ہے اور اب گپکار
الائنس کو ملک دشمن اور قوم مخالف کے طور پر پیش کررہے ہیں تاہم ان کی کوشش
کامیاب نہیں ہوگی ۔ محبوبہ مفتی نے بی جے پی پر الزام لگایا کہ یہ پارٹی
آئے دن آئین کی خلاف ورزی کرتی ہے ۔ ٰ عمر عبداللہ نے شاہ کےجواب میں
کہاکہ یہ صرف جموں کشمیر ہے جہاں کے مین سٹریم لیڈران کو جیل میں بند کیا
جاتا ہے اور جمہوری نظام کی حمایت کرنے اور انتخابی عمل کا حصہ بننے کی
پاداش میں انہیں ملک اور قوم کادشمن قراردیا جاتا ہے ۔ عمر نے ٹویٹ میں
لکھا ،سچ تو یہ ہے کہ جو کوئی بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف ہے اس کو یہ لوگ
بدعنوان اور ملک دشمن قراردےیتے ہیں ۔
جموں کشمیر کے معاملے میں جب یہ سیاسی جگل بندی جاری تھی شمالی کشمیر کے
ضلع بارہمولہ میں ایک سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) اہلکار نے
اپنی ہی سروس بندوق سے خودکشی کرلی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق قصبہ سوپور کے
واڈورہ علاقے میں گولی کی آواز سنتے ہی ساتھیوں نے اڑیسہ کے رہنے
والےکانسٹبل رجت کمارکو ضلع اسپتال پہنچایا، جہاں ڈاکٹروں نے انہیں مردہ
قرار دے دیا۔ دریں اثنا پولیس نے اس ضمن میں ایک کیس درج کر کے تحقیقات
شروع کی ہیں۔ رجت کمار کی خودکشی پر سرحد پر جاکر فوجیوں کے ساتھ دیوالی
مناے والے اور پاکستان و چین کو چیلنج کرنے والے وزیر اعظم نے ایک ٹویٹ تک
کرنے کی زحمت نہیں کی۔ وزیر دفاع کے علاوہ اپنے سارے مخالفین کو دیش دروہی
قرار دینے والے امیت شاہ کو بھی سانپ سونگھ گیا ۔ یہ دیش بھکت جموں و کشمیر
میں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کی خودکشی کے رجحان میں اضافہ کچھ نہیں
بولتے ۔
پچھلے مہینے بھی کشمیر کےکپوارہ ضلع میں تعیناتسرحدی اسلحہ بردار دستے کے
ایک جوان امیت کمار نے مبینہ طور پر گولی چلا کر خود کشی کر لی تھی ۔ خود
کشی کا یہ واقعہ ولگام ہندوارہ میں واقع ایس ایس بی کیمپ میں11؍ اکتوبر کی
شب میں پیش آیا تھا۔ جموں و کشمیر میں ہندوستانی فوج یا پیرا ملٹری فورسز
کے اکتوبر میں محض 12 دنوں کے دوران پانچ اہلکاروں نے خود کو ہلاک کرکے
اپنی زندگی کا خاتمہ کیاتھا۔ پولیس نے مذکورہ معاملات میں کیس درج کر کے
تحقیقات شروع کر دیلیکن اس میں نہ تو سرکار نے کوئی دلچسپی لی اور نہ اس کے
وفادار میڈیا نے توجہ دی ۔ یہ وہی زمانہ تھا جب سشانت سنگھ راجپوت کی
خودکشی پر بحث و مباحثے کا بازار گرم تھا لیکن کسی نے نہیں سوچا کہ ایک
مختصر سے عرصے میں پانچ جوانوں نے کیوں خودکشی کی؟ذرائع ابلاغ اس کو نظر
انداز کردیا کیونکہ اس میں حکومت کا سیاسی فائد ہ نہیں بلکہ نقصان تھا ۔ یہ
فوجی جوان اگر کسی دھماکے میں ہلاک ہوجاتے تو میڈیا میں قیامت برپا ہوجاتی
۔ کشمیر میں دفع 370 کو ختم کرتے وقت ایوان پارلیمان میں وزیر داخلہ امیت
شاہ نے جو بلند باگ دعویٰ کیا تھا اور ذرائع ابلاغ نے اس کا جس طرح جشن
منایا گیاتھا اس کے تناظر میں دیانتداری کا تقاضہ ہے کہ امیت کمار اور اجیت
کمار کی موت کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ جموں و کشمیرمیں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں میں
خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سخت ڈیوٹی، اپنے عزیز و اقارب سے دوری
اور گھریلو و ذاتی پریشانیاں ہیں۔ حکومت کی جانب سے سیکورٹی اہلکاروں کے
لئے یوگا اور دیگر نفسیاتی ورزشوں کو لازمی قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے
باوجود جموں و کشمیر میں جوانوں کی خودکشی کے واقعات میں کمی کے بجائے
اضافہ ہو رہاہے۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق سال 2010 سے 2019 تک ملک میں
1113 فوجی اہلکاروں کی خودکشی کےواقعات درج کیے گئے۔ وزیر مملکت برائے
دفاعی امور شری پد نائیک نے گزشتہ برس دسمبر میںایوانِ زیریں کے اندربتایا
تھا کہ خودکشی کرنے والوں میںبری فوج کے891، فضائیہ کے182؍ اور بحری فوج
کے40 ؍اہلکار شامل تھے ۔قیاس کیا جاتا ہے کہ ان میں سب سے زیادہ معاملات
جموں کشمیر میں درج ہوئے ہوں گے اس لیے کہ اکثر وہیں سے ایسی خبریں آتی
ہیں ۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس حکومت ، ذرائع ابلاغ اور عوام
کو سشانت سنگھ راجپوت جیسے اداکار کی خودکشی کو زیادہ سنجیدگی سے لینا
چاہیے یا اپنے فوجی جوانوں کے لیے فکرمند ہونا چاہیے؟ حزن و ملال کا شکار
ان فوجیوں کی حالت زارعادل منصوری کے اس شعر کی مصداق ہے کہ ؎
کوئی خودکشی کی طرف چل دیا
اداسی کی محنت ٹھکانے لگی
سوشانت سنگھ راجپوت سے پہلے ملک میں کسی کی خودکشی کو سنجیدگی سے نہیں لیا
گیا حالانکہ وہ ایک عام سانحہ تھا ۔اس پرمہاراشٹر کی حکومت کو گھیرنے
کیسیاسی سازش رچی گئی اور یہ الزام لگایا گیا کہ وہ قتل کی پردہ پوشی کرکے
مجرموں کو بچانے کی سعی کررہی ہے۔ سوشانت کے والد کے کے سنگھ نے ممبئی کے
بجائے پٹنہ میں ایف آئی آر داخل کرکے اسے ایک بین الریاستی تنازع بنا
دیا۔ مہاراشٹر کی پولس نے بہاری افسران کی آمد کو اپنی توہین گردانتے ہوئے
انہیں قرنطینہ میں بھیج کر اپنے پیر پر کلہاڑی مارلی اور مخالفین کو موقع
دے دیا ۔ اس کے بعد سی بی آئی تفتیش میں یہ محسوس کرلینے کے بعد کہ اس میں
سے دم نہیں ہے انفورسمنٹ ڈیپارٹمنٹ (ای ڈی) کو حرکت میں لایا گیا اور آخر
میں نارکوٹک کنٹرول بیورو(این سی بی ) کو بھی میدان میں اتار دیا گیا۔ ان
تینوں کے علاوہ میڈیا اس معاملے کو دن رات اچھالتا رہا جبکہ سشانت سنگھ کی
خودکشی پر ثروت حسین کا یہ شعر صادق آتا تھا؎
موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروتؔ
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں
سوشانت کی خودکشی کے ذریعہ جب مہاراشٹر کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی
کوشش ناکام ہوگئی تو اسے بہار کا انتخابی مدعا بنانے کی مذموم کوشش کی گئی۔
بی جے پی نے یہ پوسٹر نکال دیا کہ ’’نہ بھولیں گے اور نہ بھولنے دیں گے‘‘ ۔
بہار میں چونکہ بی جے پی اقتدار میں حصے دار ہے اس لیےوہ چاہتی تھی کہ
پچھلے تین سالوں میں اس کی نااہلی کو بھول کر لوگ صرف سوشانت کی یاد میں
اسے پھر سے کامیاب کردیں ۔ اس لیےمرکز کی بی جے پی سرکار کے تحت کام کرنے
والےکی تینوں ادارےاس خودکشی کے پیچھے پڑ گئے ۔ اس معاملے میں رنگ و روغن
ڈالنے کے لیے پہلے ریا چکرورتی کو گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا اور پھر
منشیات کے الزام میں ان سارفنکاروں کو پریشان کیا گیا جنھوں نے جے این یو
میں یا سی اے اے کی تحریک میں حکومت کی مخالفت کی تھی ۔ ان افسانوں کو طول
دینے کے لیے وائی پلس سیکیورٹی فراہم کرکے کنگنا رناوت کو میدان میں اتارا
گیا لیکن بہت جلد سرکار دربار کواحساس ہوگیا کہ کنگنا کی بدزبانی فائدہ سے
زیادہ نقصان کرنے لگی ہےتو اسے خاموش کردیا گیا ۔
کنگنا اور سوشانت میں بہار کی عوام نے دلچسپی نہیں لی تواسے لپیٹ دیا
گیا۔حکومت کے اشارے پر کام کرنے والی اداروں نےپہلے پوسٹ مارٹم کی روشنی
میں ایمس نے خودکشی کی تصدیق کی اور اسی کے ساتھ بنک اکاونٹس کی فورنسک
رپورٹ سے پتہ چلا سوشانت نے اپنی 70 کروڈ کی دولت میں سے صرف 55 لاکھ ریا
چکرورتی پر خرچ کیے جو ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ این سی بی (منشیات کی روک
تھام کا قومی ادارہ)نے بھی اعلان کردیا کہ ریا سے رابطے میں آنے سے پہلے
سوشانت منشیات کا عادی تھا اس لیے ریا چکرورتی کی ضمانت ہوگئی ۔اس طرح
سشانت سنگھ کی خودکشی کا بلبلہ سطح آب پر آکر پھوٹ گیا اور سارامعاملہ
ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا۔ اس میں شک نہیں کہ حکومت سوشانت کی خودکشی کو بہار
کے انتخاب میں نہیں بھنا سکی لیکن اس کے سبب کورونا سے نمٹنے میں سرکاری
نااہلی پر پردہ ضرور پڑ گیا اور عوامی مشکلات کو سلجھانے میں حکومت کی
ناکامی نظروں سے اوجھل ہو گئی ۔ وہ بھی ایک بہت بڑا فائدہ تھا۔
سشانت سنگھ کی خودکشی کا معاملہ ابھی پوری طرح ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ
ایک اور خودکشی کی واردات ذرائع ابلاغ میں آئی۔ یہ سابق سی بی آئی
ڈائریکٹر اشونی کمار کا سانحہ تھا ۔ اشونی کمار نے اپنی رہائش گاہ پر بالکل
سشانت سنگھ راجپوت کی مانند پھندا لگا کر خودکوہلاک کردیا ۔ شملہکے براک
ہاسٹ میں اپنے گھرکے اندر ان کی لاش لٹکی ہوئی ملی ۔ سی بی آئی کے سربراہ
کی حیثیت سے سبکدوش ہونے والے اشونی کمار ناگالینڈ کے گورنر بھیتھے۔ پولس
کو جائے وقوع سے ایک خودکشی نوٹ ملا جس میں لکھا ہوا ہے کہ "زندگی سے تنگ آ
کر اگلے سفر پر نکل رہا ہوں۔"سابق آئی پی ایس افسر کی خودکشینے ہر کسی کو
حیران و ششدر کردیا ہے۔ اس خودکشی واقعہ کی جانچ شملہ کے ایس پی موہت چاؤلہ
کی قیادت میں پولس ٹیم کے حوالے کردی گئی ۔
یہ عجیب معاملہ ہے کہ سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی پر آکاش پاتال ایک
کردینے والے میڈیا نے سابق سی بی آئی ڈائرکٹر کی خودکشی کو نظر انداز
کردیا۔ اشونی کمار نے یہ انتہائی قدم کیوں اٹھایا؟ ان کوکس نے اس پر مجبور
کیا اس کا پتہ لگایا جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کرنے کی دو وجوہات ہیں۔
اول تو یہ کہ وہ کانگریس کے اسی طرح قریبی تھے جیسے موجودہ سی بی آئی
چیفرشی کمار شکلا بی جے پی سے قریب ہیں اور دوسرے امیت شاہ کو جیل بھیجنے
کا سہرہ انہیں کے سر ہے ۔ اس لیے اگر اس کی کھوج بین کی جاتی تو شک کی سوئی
وزیر داخلہ کی جانب بھی مڑ سکتی تھی ۔ وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے والا
ادارہ سی بی آئی ایسی جرأت کیونکر کرسکتا ہے؟ اس لیے ان کی موت پر صدر
مملکت اورسونیا گاندھی کے علاوہ کسی بی جے پی رہنما نے تعزیت بھی نہیں کی۔
اشونی کمار کے معاملہ کو جس طرح انفرادی مایوسی کا سبب بنا کر سلجھا دیا
گیا وہی بات ممبئی کی پولس سشانت کی خودکشی کو لے کر کررہی تھی لیکن جہاں
ایک طرف ہماچل پولس کے موقف کو پس وپیش کے بغیر قبول کرلیا گیا وہیں سشانت
کی خودکشی پر مذموم سیاست کی گئی ۔ سشانت سنگھ راجپوت اور اشونی کمار جیسے
آسودہ حال لوگوں کی خودکشی پر عارف شفیق کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی
|