مُلا عمر کا افسانوی کردار

چند ہفتوں قبل طالبان کی صفوں میں اس وقت کھلبلی مچ گئی جب کسی نے بتایا کہ اُس نے ایک نئی ویڈیو دیکھی ہے جس میں ملا محمد عمر کو فاصلے سے کلاشنکوف فائر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ باغی خوشی سے اچھل پڑے۔ انہوں نے 2001ءکے آخر سے اپنے رہنما کی آواز نہیں سنی تھی۔ انہیں آخری بار اُس وقت دیکھا گیا تھا جب وہ امریکی بمباری سے بچتے ہوئے اپنے برادرِ نسبتی کی موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھ کر قندہار کی پہاڑیوں کے مشرق میں جاتے ہوئے نظر آئے تھے۔

یہ ہیجان بہرکیف کچھ دیر بعد بخارات بن کر اُڑ گیا۔ کسی کو بھی یہ یاد نہیں کہ پچھلے 9 برسوں کے دوران ملا عمر کتنی بار ظاہر ہوئے ہیں تاہم اختتام ہمیشہ اسی طرح ہوتا۔ پھر نئی ویڈیو کی افواہ اڑتی یا پھر ان کا کوئی آڈیو پیغام منظر عام پر آجاتا۔ کچھ عرصہ بعد یہ سوال اٹھتا کہ ملا عمر کہاں ہیں؟ کیا وہ زندہ ہیں؟ کیا وہ اب بھی انچارج ہیں؟ اور اگر نہیں تو اب کون ہے؟

امریکی جریدہ نیوز ویک کے مطابق ان تمام سوالات کا ایک واضح جواب اس امر کے فیصلے سے مل سکتا ہے کہ کیا افغانستان میں بغاوت موجود ہے یا ختم ہوچکی۔ ہر شخص یہ تسلیم کرتا ہے کہ ملا عمر سے وفاداری نے طالبان کو متحد کر رکھا ہے۔ عملی طور پر ایک شخص گروپوں کے کمانڈرز اور جنگجو کہتے ہیں کہ وہ اپنے لیڈر امیرالمومنین کے لیے لڑ رہے ہیں اور ان کا مقصد افغانستان میں ان کی اسلامی امارت کی بحالی ہے۔ ایک سینئر طالبان انٹیلی جنس افسر جنہوں نے سیکورٹی وجوہات کی بنا پر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ ہر طالبان یہ جانتا ہے کہ بغاوت کے حوصلے اور اتحاد کا دار و مدار ملا عمر پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ان کے لیے لڑ رہے ہیں۔ روحانی قیادت ملا عمر پر یقین اور ان سے وفاداری کے بغیر طالبان مختلف حریف قبائل اور ٹکڑیوں میں تقسیم ہو کر تباہ ہوسکتے ہیں۔

اب یہ اختلافات زیادہ نظر آرہے ہیں کیوں کہ ہر رپورٹ سے شکوک اور تقسیم مزید گہری ہوجاتی ہے۔ اس اسٹوری کے لیے نیوز ویک کو انٹرویو دینے والے ایک درجن کے لگ بھگ طالبان کمانڈروں کا کہنا تھا کہ ملا عمر کی خاموشی طالبان قیادت میں ایک ہنگامی موضوع بن چکا ہے۔ ملا عمر کے بیشتر ساتھیوں اور جنگجوؤں کو یہ یقین ہے کہ ملا عمر زندہ ہیں، وہ طالبان تنظیم کی قیادت کررہے ہیں اور بغاوت کی رہنمائی بھی۔ تاہم اس کا ایک پس منظر اور بھی ہے۔ وہ یہ کہ کمانڈروں نے خود اپنے قائد کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ کیوں کہ ہر شخص جانتا ہے کہ اگر وہ طالبان کی صفوں میں یہ خدشہ ظاہر کرے کہ ملا عمر جاں بہ حق ہوچکے ہیں یا کہ طالبان کا کنٹرول کھو چکے ہیں تو ایسا کہنے والے کو مخالف حتیٰ کہ شاید جاسوس قرار دے دیا جائے۔ سینئر طالبان انٹیلی جنس افسر کا کہنا ہے کہ ملا عمر کے ٹھکانے کا معلوم کرنے پر شکوک پیدا ہوتے ہیں اور ایسا کرنا سختی سے منع ہے۔ تاہم اپنی نجی محفلوں میں ٹاپ کمانڈر ایسے سوالات کرتے ہیں۔
پاکستانی صحافی اور طالبان ایکسپرٹ رحیم اللہ یوسف زئی جو کہ ملا عمر سے ان کی سبک دوشی سے قبل ملاقاتیں اور انٹرویوز کرچکے ہیں، اس ضمن میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو گہری نظر سے جانچنا مشکل ہے کہ واضح طور پر بولنے سے معذور دیہاتی ملا نے دین داری اور پرہیزگاری کے لیے کسی طرح اپنے پیروکاروں کو ابھارا ہے۔ ایک مذہبی رہنما اور قرآنی آیات کا ورد کرنے کے علاوہ ان میں متاثر کرنے والی کوئی خصوصیت نہیں۔ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ ملا عمر کرشماتی شخصیت نہیں اور نہ ہی باریک بین دانشور نظر آتے ہیں۔ وہ ہر معاملے کو سیاہ اور سفید میں دیکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ جب وہ اقتدار میں تھے، تب بھی عوامی سطح پر دکھائی نہیں دیتے تھے اور کابل بھی صرف ایک بار قندہار میں اپنے گھر جاتے ہوئے آتے تھے۔

اس کے باوجود ان کے پیروکار اب تک انتہائی عقیدت اور احترام سے ان کی بات کرتے ہیں۔ پکتیا صوبہ میں ایک سینئر گوریلا کمانڈر کا کہنا تھا کہ ہم مسلمان اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں، مگر ہم اس بارے میں نہیں سوچتے کہ خدا کیسا لگتا ہے اور کہاں ہے؟ بالکل اسی طرح ہم ملا عمر پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں حتیٰ کہ جب ہم انہیں نہ دیکھ سکتے ہوں تو بھی وہ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ بعض طالبان کا کہنا ہے کہ ان کی غیر موجودگی ہمارے لیے خدا کی رحمت ہوسکتی ہے۔ انٹیلی جنس افسر کا کہنا ہے کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ ہمارے امیر کہاں ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے دشمن بھی ان کی موجودگی سے لاعلم ہیں۔

اس کے باوجود ان کی غیر موجودگی سے افغانستان میں مزاحمتی تحریک متاثر ہورہی ہے۔ ملا عمر کے سابقہ ساتھی خود کو ان کے قائم مقام ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں اور کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ انہیں چیلنج کرسکے۔ ملا عمر کے پرسنل سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے گل آغا کا دعویٰ ہے کہ امیر کے دستخطوں والا خط ان کے پاس ہے، جس میں انہوں نے نئے ڈپٹی کی حیثیت سے ان کا نام دیا تھا۔ بہ قول گل آغا کے امیر نے یہ خط طالبان کمانڈر ملا عبدالغنی برادر کی اس سال کے شروع میں گرفتاری کے بعد لکھا۔ تاہم بہت سے کمانڈر اس خط کے اصلی ہونے اور اس عہدہ کے لیے گل آغاز کی اہلیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ملا عمر کے ایک اور سابق ساتھی آغا جان معتصم اپنی ذاتی ملیشیا ترتیب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ ممکنہ طور پر اُن کے پاس اس کام کے لیے رقم بھی موجود ہوگی۔ ان پر حکومت کے خاتمے کے دوران 20 ملین ڈالر مبینہ طور پر لے کر فرار ہونے کا الزام تھا۔ اس الزام کی تاہم سختی سے تردید کی ہے۔
نوجوان باغیوں میں اب ڈسپلن بھی درہم برہم ہورہا ہے۔ ان کے کمانڈروں کا کہنا ہے کہ ملا عمر کے نام سے متعدد بار ایک ضابطہ اخلاق جاری ہوچکا ہے۔ آخری بار یہ موسمِ گرما میں جاری ہوا۔ اس میںجنگجوؤں کو حکم دیا گیا تھا کہ ہائی ویلیو ٹارگٹس کو نشانہ بنانے کے دوران شہریوں کی ہلاکت سے پرہیز کیا جائے۔ تاہم خودکُش حملوں اور آئی ای ڈی حملوں میں اس ہدایت کو نظرانداز کیا گیا۔ اس سال 1000 شہری ہلاک ہوچکے ہیں، جس میں سے 60 فیصد طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ ہر شخص کو اب یہ یقین نہیں یہ حکم ملا عمر کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔ وسطی افغانستان میں ایک سب کمانڈر گل احمد کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ ہم یہ چیزیں ختم نہیں کرسکتے۔ پکتیا کے کمانڈر کا کہنا تھا کہ ملا عمر یہ سب کچھ محض ایک آڈیو پیغام سے ختم کرسکتے ہیں۔

ملا عمر کے نام سے جاری ہونے والے کسی بھی احکام پر اب شکوک و شبہات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ 18 ماہ قبل ایک حکم نامہ ملا عمر کے نام سے منظرِ عام پر آیا جس میں پاکستانی طالبان کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ پاکستانی فوجی اہداف پر حملے بند کردیں اور اپنی تمام تر توجہ افغانستان میں امریکیوں پر مرکوز کریں۔ بیشتر باغیوں کا خیال تھا کہ یہ خط ان کے لیڈر نے نہیں لکھا، بلکہ پاکستان کی ڈائریکٹوریٹ فار انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کی جانب سے لکھا گیا ہے۔ درحقیقت بعض سینئر طالبان کمانڈروں کو خدشہ ہے کہ آئی ایس آئی نے ملا عمر کو قید کرلیا ہے اور ان کے نام سے احکامات جاری کررہی ہے۔

بعض کمانڈروں کو شبہ ہے کہ یہ احکامات امریکن جاری کرتے ہیں، پچھلے جون میں نیٹو حکام نے کابل میں اعلان کیا کہ انہوں نے ملا عمر کا ایک پیغام پکڑا ہے، جس میں انہوں نے طالبان کو حکم دیا ہے کہ ایسے افغان شہریوں بہ شمول خواتین کو گرفتار کرکے قتل کردیا جائے جو غیر ملکی فوجوں کے لیے کام کررہے ہیں۔ یہ خط سابقہ ضابطہ اخلاق کے قطعی خلاف تھا۔ تاہم نیٹو کے بریگیڈیئر جنرل جوزف بلوٹز کا دعویٰ ہے کہ خط 100 فیصد ملا عمر کی جانب سے لکھا گیا ہے۔ تاہم طالبان اور آزاد تجزیہ کار اسے اتحادیوں کی نفسیاتی جنگ کا حصہ قرار دے رہے ہیں، اس کا مقصد عام افغانوں کی نظر میں طالبان کی پوزیشن خراب کرنا ہے۔

( یہ آرٹیکل گزشتہ برس کے آخری حصہ میں روزنامہ جرات میں شائع ہوا تھا تاہم افغانستان کی موجودہ صورتحال میں یہ ایک معلوماتی مضمون ہے جس سے طالبان رہنماءکی اپنی تنظیم میں حیثیت پر روشنی پڑتی ہے).
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 77762 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More