موجودہ بجٹ میں عوام سے زیادہ
کتے اور بلیوں کوریلیف دیاگیاہے
بجٹ میں کتے اور بلیوں کی درآمدی)امپورٹ کی گئی) خوراک سستی....اورایمبولینس
کی درآمدپر سیلزٹیکس عائد
آہ ...!!یہ کیسابجٹ ہے...؟ جس میںصدراور وزیراعظم کے غیرملکی دوروں کےلئے
اضافی رقم مختص کردی گئی ہے......
آخر کار ملک کی ساڑھے سترہ کروڑ عوام کے لئے گرانی کی خبرلے کر خساروں کا
بجٹ2011-12 اِس پر نازل ہوہی گیاجس میں اِسے سوائے گرانی ، بھوک وافلاس اور
تنگدستی کے ہاتھوں مجبور ہوکرخودکشی کرنے کے اور کچھ بھی اِس کے ہاتھ نہیں
آیاکیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ بجٹ کسی محب وطن پاکستانی کا تیارکردہ
نہیں ہے بلکہ یہ بجٹ توIMFنے تیارکرکے ہمارے حکمرانوں کے ہاتھوں میں
تھمادیا جسے صرف پیش کرنے والے ہمارے پاکستانی وفاقی وزیرخزانہ مسٹرڈاکٹر
عبدالحفیظ شیخ ہیں اور اِس سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ جس طرح اِنہوں نے
بجٹ 2011-12پیش کیا اِن کا انداز بھی قیام پاکستان سے اب تک64بجٹوں کوپیش
کرنے والے ہمارے تمام وزیرخزانہ سے سب سے زیادہ مختلف اور منفرد اِس لحاظ
سے بھی تھا کہ شیخ صاحب ہر لفظ اور ہر لائن پڑھنے کے بعد کبھی خود کو
دیکھتے تو کبھی آمنے سامنے اورکبھی اِدھر اُدھر.... یوں اِسی دیکھتی دکھاتی
کیفیت میں اُنہوں نے اپنی ساری بجٹ تقریرکرڈالی اور عوام کو آئندہ مہنگائی
کے ہاتھوں زندہ درگور کرنے کا ساماں کرکے چلتے بنیں۔
اِس موقع پر ہمیں یہاںبڑے دُکھ کے ساتھ یہ کہنے دیجئے کہ خبروں کے مطابق یہ
کتنی افسوس کی بات ہے کہ ہماری غریب نوازی کا دعویٰ کرنے والی موجودہ حکومت
نے اِس بجٹ میں عوام کے لئے خاطر عوام ریلیف دینے کے بجائے کتے اور بلیاں
پالنے والوں کو خاص رعایت کا اعلان کچھ اِس طرح سے کیاہے کہ اِس سے یہ
اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں رہاکہ یہ بجٹ جو ہماری عوامی حکومت نے پیش کیا
ہے یہ انسانوں سے زیادہ کتے اور بلیوں کا ریلیفی بجٹ اگرکہاجائے تو کوئی
بُرانہ ہوگاکیونکہ ہماری حکومت نے خود یہ واضح کردیاہے کہ موجودہ بجٹ
2011-12انسانوں کے بجائے کتے اور بلیوں کا بجٹ ہے جس میں حکومت نے اپنی
تمام ترترجیحات اور اقدامات کو بروئے کارلاتے ہوئے اپنے مفلوک الحال عوام
کے بجائے کتے اور بلیوں کی درآمدی(امپورٹ کی جانے والی)خوراک 20فیصدسستی
کرنے کے لئے ایف پی آر کی جانب سے فوری طور پر ایک ایسانوٹیفکیشن جاری
کردیاہے جس کے تحت کتے اور بلیوں کی درآمدی خواک پر عائد20فیصد ریگولیٹری
ڈیوٹی ختم کردی جائے گی۔جس کے بعد اب یہ شک پوری طرح سے اِس یقین میں بدل
چکاہے کہ ہمارے ملک کا موجودہ بجٹ آئی ایم ایف نے ہی تیارکیاہے کیوں کہ اِن
کے یہاں اِنسانوں کوحاصل حقوق کے ساتھ ساتھ اِن کے معاشرے میں پلنے اور
پائے جانے والے کتے اور بلیوں کوبھی اِن کے ملک کے شہریوں کی طرح تمام حقوق
حاصل ہیں اور اِن کی بھی اتنی ہی اہمیت اور قدر ہے جتنی کہ اِن کے معاشرے
میں انسانوں کو حاصل ہے جبکہ اِس کے برعکس ہمارے ملک اور معاشرے میں کتے
اور بلیوں کوحقوق تو کیاحقوق حاصل ہوں گے ...؟؟ ہمارے یہاں تو گزشتہ
64سالوں سے انسان اپنے بنیادی حقوق کے حصول سے محروم ہیں اور اِن کی کوئی
اہمیت اور قدر نہیں ہے کتے بلیوں کو کیا حاصل ہوں گے ۔مگر اِس بجٹ سے
اندازہ ہوتاہے کہ اَب ہمارے یہاں انسانوں کواِن کے حقوق حاصل ہوں یانہ ہوں
مگر IMF کے بنائے گئے بجٹ کی وجہ سے اَب ہمارے یہاں پلنے والے کتے اور
بلیوں کو توکم ازکم وہ تما م حقوق ضرورمل جائیں گے جن سے اَب تک پاکستانی
عوام محروم تھی۔اوراَب اِس منظر اور پس منظر میں ہمارے عوام یہ سوچنے
پریقینا مجبور ہوگئے ہوں گے کہ اَب یہ اپنے آپ کو کس صف میں کھڑاہونے کی
خواہش کااظہار کریں۔
اور اِسی طرح یہ بھی بڑی حیرت کی بات ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے اِس بجٹ
میں عوام دشمنی کا ایک اور ثبوت ہرقسم کی ایمبولینس گاڑیوں کی درآمدپر سیلز
ٹیکس عائدکرکےکچھ اِس طرح سے دے دیاہے کہ اِس حکومتی اقدام سے آئندہ ملک
میں نئی ایمبولینس گاڑیوں کی آمد رک جائے گی جبکہ ہمارے خیال سے حکومت کو
یہ چاہئے تھاکہ کم ازکم مہنگائی کے بوجھ تلے دم توڑتی عوام کو زندگی بچانے
کے لئے اسپتالوں تک لے جانے والی ایمبولینس گاڑیوں کوتو حکومت بجٹ میں سیلز
ٹیکس مستثنیٰ قرار دیتی تاکہ ہمارے ملک میں فلاحی کام کرنے والے اداروں اور
اسپتالوں کو ایمبولینس گاڑیاں سستی قیمت پر درآمد کرنے میں آسانی پیداہوتی
اور اپنے ملک کے عوام کو اپنی خدمات انجام دینے والے یہ ادارے اِس حکومتی
چھوٹ سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوتے مگر چوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اِس حکومت
نے مختلف بہانوں سے اپنے عوام کو زندہ درگوکرنے اور مارنے کی شاید اپنی
حکمت عملی اور منصوبہ بندی پہلے سے ہی تیار کررکھی ہے تب ہی اِس نے
ایمبولینس پر سیلز ٹیکس عائدکرکے اپنے مرتے عوام کوبچانے والے وہ تمام
راستے بندکردیئے ہیں جس کی وجہ سے سب سے پہلے ملک میں نئی ایمبولینس گاڑیاں
نہیں آسکے گیں اور عوام اسپتالوں تک پہنچنے سے قبل ہی موت کی وادی میں پہنچ
جائیں گے۔
ابھی ہماری بات یہیں ختم نہیں ہوگئی ہے بلکہ اِس سے بھی زیادہ اِس بجٹ میں
ملک کے غربت ،بے روزگاری اور مہنگائی کے اژدھے کے شکنجوں میںجکڑے سسکتے
بلکتے اور انتہائی لاغر جسموںوالے ساڑھے سترہ کروڑ پاکستانیوںپر ایک ظلم یہ
بھی ہواہے کہ حکومت نے اِس بجٹ میں بجلی، کھانے پینے کی اشیاءپر سبسڈی کی
مد میں جہاں کمی کی ہے تو وہیں اِس کٹوٹی کی مد سے حاصل ہونے والی رقم
کوصدر، وزیراعظم اور اِن کے خوشامدیوں کے غیرملکی دوروں کے لئے پہلے سے
رکھی گئی رقم میں اضافہ کردیاگیاہے جو اِس حکومت کا کھلاتضاد ہے کہ یہ
حکومت اپنے سے زیادہ عوام کے مفادات کا خیال رکھتی ہے۔ جبکہ اَب یہ
کہاجاسکتاہے کہ اِس حکومت کو عوامی کی تکالیف اور پریشانیوں سے کوئی غرض
نہیں اِسے اگر فکر ہے تو بس اپنی اور اپنی عیاشیوں کی جو یہ اپنے غریب اور
مفلوک الحال عوام کے گلوں پر چھری پھیرکربھی حاصل کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔
بہرحال 3جون کوجب قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں وزیرخزانہ مسٹر ڈاکٹر
عبدالحفیظ شیخ موجودہ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی جو ملک کی درحققیت
ایک بڑی عوامی جماعت سمجھی جاتی ہے اور جس کے منشور میں بنیادی نقطے ہی میں
روٹی ،کپڑااور مکان شامل ہے اِس جماعت کا مجموعی طور پر تیسرابجٹ پیش کررہے
تو اِسی دوران ارکان نے وزیرخزانہ کا گھیراؤ کرتے ہوئے اِن کے ڈائس پرخشک
روٹی اور چوڑیاں رکھ دیں اور اپوزیشن کی جانب سے اسمبلی ہال میںشدیدہنگامہ
آرائی کی گئی اوراِسی کے ساتھ ہی ارکان نے شیم شیم اور ڈاکوڈاکو کے نعرے
بھی لگائے اِس موقع پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کا یہ عمل ملک میں ایک
پائیدار جمہوری عمل کے جانب ایک حوصلہ افزااشارہ ہے کسی بھی ایسے عوامی
فورم پر جب ملک اور عوام کے لئے برسراقتدار جماعت کوئی قدم اٹھانے جارہی ہو
تو اپوزیشن کی طرف سے ایسے مثبت اور تعمیری احتجاجوں کا ہوتے رہناایک
اچھاعمل کہاجاسکتاہے حکمران جماعت کو اپوزیشن کے اِس عمل پر سیخ پاہونے اور
جل کر خاک ہونے کے بجائے اپنا کام کئے جانے کی ضرورت ہے کیوںک ہ ہمارے خیال
میں اپوزیشن یہ بات خوب سمجھتی ہے کہ موجودہ بجٹ درحقیقت ملک کے ساڑھے سترہ
کروڑ عوام کے بجائے ملک کے اُن امراءکا بجٹ ہے جو صرف ملک میں پانچ فیصد
ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو کسی نہ کسی بہانے حکومت میں شامل ہیں ۔
بہرکیف! ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ بجٹ ملک کے
غریب عوام کی فلاح وبہبودکے لئے نہیں ہے کیوں کہ اِس بجٹ میں عوام کوکسی
بھی حوالے سے کوئی ریلیف نہیں دیاگیاہے سوائے ملک کے غریب عوام پر ترنت
اثرانداز ہونے والی گرانی کے اِسی لئے تو شاعر نے کہاہے کہ
ہمارے مالیاتی شہسواروں کابجٹ آیا
وطن کے غمگساروں کا بجٹ آیا
مبارک ہوعزیزانِ وطن تم کو مبارک ہو
گرانی کی خبر لے کر خساروں کا بجٹ آیا
جبکہ یہا ں ہم عرض کرتے چلیں کہ اِس بجٹ کی آمد سے قبل متعددمواقع پرہمارے
وفاقی وزیرخزانہ مسٹرڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ تو اپنا سینہ ٹھونک کر اور گردن
تان کریہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے تھے کہ آئندہ بجٹ میں ملک کے عوام کو زیادہ
سے زیادہ ریلیف دینے کے اقدامات کئے گئے ہیں جبکہ بجٹ میں ایسابہت کم اور
قال قال ہی رہاکہ عوام کے لئے ریلیف کے اقدامات کئے گئے ہوں کہنے
کوتووزیرخزانہ نے ملک کی اقتصادی ترقی کے عمل کو تیزکرنے اور معاشی استحکام
کے تسلسل کویقینی بنانے کی حکمت عملی پر مبنی آئندہ سال برائے 2011-12کے
وفاقی بجٹ جس کا مجوزہ حجم2504ارب روپے ہے اور جو رواں مالی سال سے
12.3فیصدزائد ہے جس میں ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو1203ارب
روپے منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ ایف بی آر کی طرف سے1952ارب روپے کی وصولی کے
تخمینہ سمیت مجموعی وفاقی محاصل کا تخمینہ 27کھرب23ارب روپے لگایاگیاہے اور
اِسی طرح975ارب روپے کے بجٹ خسارہ کے ساتھ خالص وفاقی محاصل کا
تخمینہ1529ارب روپے ہے جبکہ اتناکچھ ہونے کے باوجود بھی بڑاحیران اور
پریشان کن نکتہ یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں صرف 15فیصد اضافے
کا فیصلہ کیاجانااِس منہ توڑ اور سر پھوڑ مہنگائی کے عالم میں اُونٹ کے منہ
میں زیرہ کے مترادف ہے ۔جبکہ اِس بجٹ میں یہ بھی دعویٰ کیاگیاہے کہ یکم
جولائی 2009ءتک دیئے گئے تمام ایڈہاک رلییف الاؤنسز کو 2008ءکے بنیادی
تنخواہ کے اسکیل میں ضم کرنے اور نئے پے اسکیل متعارف کرانے کے علاوہ پنشن
میں 15سے20فیصداضافہ اور گریڈ 1سے15کے تمام سرکاری ملازمین کے موجودہ
کنوینس الاؤنس میں 25فیصداضافے کی جو تجویز کی گئی دیکھتے ہیں کہ عوام کی
خدمت اور اِسے روٹی ، کپڑااور مکا ن دینے والے یہ حکمران اِس تجویز کی کب
منظوری دیتے ہیں یا یوں ہی ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے ایک سال پوراگزار
جاتے ہیں۔ اور سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں میں اضافے کی آس اور اُمید لئے
مجسمہ بنے بیٹھے رہ جائیں گے۔ |