بجٹ آگیا ہے، معاشیات کی
زبان میں توبجٹ کی نہ جانے کیا تعریف ہے لیکن عوام کے نزدیک بجٹ اس
دستاویز کانام ہے جو مہنگائی کانیا طوفان اور مزید ٹیکسوں کا بوجھ لاتی
ہے ۔ ایک طرف اقتصادی ماہرین بجٹ کے پوسٹ مارٹم میں مصروف ہیں تو دوسری
جانب اپوزیشن نے بجٹ کو مسترد کردیاہے کہ اس سے مہنگائی، معاشی بدحالی،
خود کشیاں اور غربت کے ہاتھوںبچے بیچنے کے واقعات میں اضافہ ہوگا
کیونکہ یہ عام سمجھ کی بات ہے کہ گندم، بجلی، گیس اور گھی مہنگی ہونے
سے غریب کیلئے زندگی کی گاڑی کھینچنا مشکل ہوجاتا ہے۔
ویسے تو ہمارے ہاں پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں گاہے بگاہے اضافے
کی صورت میں سارا سال بجٹ آتے رہتے ہیں لیکن جون کی تو بات ہی نرالی ہے
۔ اس ماہ فیصلہ ہوتاہے کہ عوام کی جیبوں سے ٹیکسوں کی صورت میں مزید
کتنی دولت کشید کرکے خواص کو دان کی جائے گی۔ امراءکی مراعات میں کتنا
اضافہ ہوگا اور انہیں مختلف مدوں میں چھوٹ کی صورت میں کیاکچھ ملے گا،
گاڑیاں کتنی سستی ہونگی۔
مہنگائی کے عفریت سے مقابلے کیلئے اس مرتبہ میں بھی سرکاری ملازمین کی
تنخواہوں میں اضافہ کیاگیا ہے۔ اگرچہ ہوشربا گرانی کودیکھتے ہوئے اس
اضافے کو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہی قرار دیاجاسکتاہے لیکن
سرکاری ملازمین اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ ان کی تنخواہیں معمولی ہی
سہی ہرسال بڑھ تو جاتی ہیں جبکہ نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین
اس اضافے سے محروم ہی رہتے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ حکومت ایسا نظام وضع
کرے کہ نجی ادارے بھی اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اسی شرح سے اضافے
کے پابند ہوں جس شرح سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی جاتی ہیں ۔
بالخصوص وہ ادارے جواپنی آمدن کیلئے حکومتی وسائل پر انحصار کرتے ہوں،
ان کیلئے تو یہ پابندی لازمی ہونی چاہیے اوروسائل کی فراہمی ملازمین کی
تنخواہوں ومراعات سے مشروط ہونی چاہیے ۔ اس کےلئے ایک طریقہ تو یہ
ہوسکتاہے کہ نجی اداروں کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی بنکوں کے
ذریعے لازمی قرار دیدی جائے اس طرح خود بخود اس بات کاپتہ لگ جائے گا
کہ کون ساادارہ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کررہاہے اور کون سا
ادارہ ملازمین کوان کے حق سے محروم رکھے ہوئے ہے۔
ہر سال کی طرح اس باربھی بجٹ آنے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان
اعداد وشمار کی جنگ چھڑ گئی ہے جو حسب روایت بجٹ کی منظوری تک جاری رہے
گی، اس دوران وہی گھسی پٹی باتیں دہرائی جائیں گی۔ اپوزیشن واویلا کرے
گی کہ حکمران ملک کو لوٹ کرکھاگئے اور حکومت میں بیٹھے افراد اپوزیشن
رہنماﺅں کی ماضی میں کی گئی لوٹ کھسوٹ کے قصے دہرائیں گے۔ لیکن اصل
مسئلے کی طرف کوئی نہیں آئے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھی
جماعتیں ہوں یا پارلیمنٹ سے باہر کی جماعتیں وہ آج تک ملک کودرپیش
مسائل کاحل پیش کرنے سے میں ناکام رہی ہیں ۔ زبانی جمع خرچ تو بہت کئے
جاتے ہیںلیکن عملاً کوئی بھی جماعت وہ نسخہ کیمیا پیش کرنے میں ناکام
ہے جسے استعمال کرکے بیمار معیشت کوٹھیک کیاجاسکے ۔ غالباً اس کی وجہ
یہ ہے کہ سیاسی راہنماﺅں کومعیشت کی بحالی سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ۔ نہ
انہیں اس بات سے کوئی غرض ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے چنگل سے
عوام کونکالاجائے۔ اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ حکومت میں بیٹھے
افراد ہوں یاحزب اختلاف کے رہنما دونوں کاتعلق طبقہ اشرافیہ سے ہے
اورانہیں اس بات کاعلم ہی نہیں۔ آٹا، گھی، چینی، دالیں، چاول اور
ٹرانسپورٹ کرایوںمیں اضافے سے عام آدمی پر کیا بیتتی ہے۔ وہ تو بس یہ
جانتے ہیں کہ ان کی دولت میں دن دوگنا رات چوگنا اضافہ کیسے ہوسکتاہے؟
اس کانتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف توایک وقت کے کھانے پر ہزاروں روپے اڑادئے
جاتے ہیں تو دوسری طرف سوکھی روٹی بھی میسر نہیں ہوتی۔ ایک طرف تو
چھینک بھی آئے تو علاج کیلئے بیرون ملک دوڑ لگائی جاتی ہے اور دوسری
طرف ڈسپرین خریدنے کیلئے بھی رقم دستیاب نہیں ہوتی ۔ ایک طرف امراءکے
بچے تعلیم کیلئے بیرون ملک کے اعلیٰ اداروں میں داخلے لیتے ہیں تو
دوسری طرف غریبوں کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ وہ اپنے بچوں
کوسرکاری تعلیمی اداروں میں ہی داخل کراسکیں۔ یہ معاشی خلیج روز بروز
گہری ہوتی جارہی ہے اورطبقاتی کشمکش کی بنیاد بن رہی ہے ۔ معاشی مسائل
کاایک نتیجہ تو یہ ہے کہ معاشرے میں ذہنی تناﺅ، عدم برداشت، تشدد،
گھریلو جھگڑے بڑھ رہے ہیں ۔ دوسری طرف دولت کی تقسیم بگڑنے کا وہ نتیجہ
بھی سامنے ہے جس کی نشاندہی حضرت شاہ ولی اللہ نے کی تھی ۔ شاہ صاحب
کہتے ہیں ”کسی بھی معاشرے میں اگردولت کی تقسیم کانظام بگڑ جائے تو اس
کے ہر دو صورتوں میں خطرناک نتائج مرتب ہوتے ہیں، اول جن کے پاس دولت
کاانبار ہوتا ہے وہ لہو ولعب میں مبتلا ہوکر دین سے دور ہوجاتے ہیں،
دوم وہ افراد جو غربت کی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں وہ دو وقت کی روٹی
کمانے کے چکر میں پڑ کر عبادت کیلئے وقت نہیں نکال پاتے۔ کیا بحیثیت
مجموعی ہمارا معاشرہ اس بات کی عملی تصویر پیش نہیں کررہا جو شاہ صاحبؒ
نے کہی تھی۔ دین سے دوری کاہی یہ نتیجہ ہے کہ ہم ہر میدان میں پستی کی
طرف جارہے ہیں۔ اسلام نے معیشت کیلئے جو سنہرے اصول مرتب کئے تھے وہ آج
ہم بھلاچکے ہیں۔ آج ہم یہ تو کہتے ہیں کہ مغرب کی ترقی قابل ستائش ہے
اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے لیکن کیا مغرب نے یہ ترقی اسلام کے معاشی
اصول اپنا کر نہیں کی؟ اسلام ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ناپ تول میں کمی سے
منع کرتاہے۔ اسلام کہتاہے اگر کسی چیز میں کوئی عیب ہوتو وہ گاہک کوبتا
کربیچی جائے۔ اسلام سودی کاروبار سے منع کرتاہے لیکن کیاآج ہماری معیشت
سود سے پاک ہے؟ ہم جب تک ان اصولوں پر کاربند رہے ہماری نہ صرف معیشت
مضبوط رہی بلکہ اسلام بھی پھیلتا رہا ۔ تاریخ اٹھاکردیکھیں تو معلوم
ہوگا کہ مسلمان تاجروں کی ایمانداری سے متاثر ہوکر کفار بھی دائرہ
اسلام میں داخل ہوتے تھے لیکن جب ہم نے دین کے بتائے ہوئے اصول ترک کئے
ترقی وخوشحالی ہم سے روٹھ گئی، کیونکہ یہ خدائی فیصلہ ہے۔
”اور جو منہ موڑے گا میری کتاب یاہدایت سے اس کیلئے ہوگی بہت تنگ ترش
زندگی“۔ (سورہ طٰحہٰ آیت ۴۲۱)
اسی آیت کاترجمہ بعض علمایہ بھی کرتے ہیں۔
اور جس نے میرے ذکر (یعنی میری یاد اور نصیحت )سے روگردانی کی تو اس کے
لئے دنیاوی معاش (بھی )تنگ کردیا جائے گا۔
امام جلال الدین عبدالرحمان بن ابی بکر السیوطی نے اس آیت کی تفسیر میں
مختلف روایات بیان کی ہیں ۔ امام عبدبن حمید اور ابن ابی حاتم نے
الضحاک سے روایت کیاکہ ٓایت میں آنے والے الفاظ معیشة ضنکا سے مراد برا
عمل اور حرام رزق ہے۔
امام ابن ابی حاتم نے حضرت مالک بن دینارؒ سے روایت کیا کہ معیشة ضنکا
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کارزق حرام میں پھیر دے اور وہ مرتے دم تک
حرام ہی کھاتا رہے ۔ پس اس مال کو اس کیلئے باعث عذاب بنادے۔
امام ابن ابی حاتم نے ہی حضرت عکرمہؒ سے روایت کیاکہ اس کامطلب یہ ہے
کہ رب تعالیٰ کسی بندے پر حرام معیشت کوکشادہ کردے اور رب جہنم کی آگ
میں اس کی وجہ سے تنگی فرمائے۔
ایک فیصلہ وہ ہے جوحق تعالیٰ نے کردیاہے تو دوسرافیصلہ ہمارے ہاتھ میں
ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ بحرانوں کاخاتمہ ہو، ترقی وخوشحالی آئے تو پھر
ہمیں اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلناہوگا۔ سچے دل سے توبہ کرکے رب کی
تابعداری کریں گے تو وہ بھی آسانیاں پیدا فرمائے گا اورہمیں اپنے غیب
سے عطا کرے گا۔ جیسے کہ قرآن میں ارشاد ربانی ہے” جوشخص نیک عمل کرے گا
مرد ہو یاعورت اور وہ ایمان بھی رکھتاہو ہم (دنیا میں بھی) اس کی زندگی
اچھی بسر کرائیں گے اور ان کو (آخرت میں بھی) ان کے (ان) بہترین اعمال
کاصلہ ضرور عطا کریںگے(سورہ النحل)۔
آخری بات اللہ اور رسول سے جنگ کرکے نہ کوئی فلاح پا سکا ہے اور نہ
فلاح پا سکے گا ۔ |