5اپریل 2011ءکے روزنامہ جنگ
میں نصرت مرزا کے کالم ”FMCTامتیاز قبول نہیں“ بحیثیت پاکستانی جتنا
نصرت مرزا کو لکھتے وقت دکھ ہوتا ہو گا۔ مجھے پڑھتے وقت ہورہا تھا۔ جس
میں تحریر یہ تھا کہ جنیوا میں جنوری 2011ءسے (FMCT) پر کوئی معاہدہ ہو
جائے‘ یعنی ایٹمی مواد تیار کرنے کا سلسلہ بند کر دیا جائے۔ اس ساری
مشق کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان ایٹمی مواد کی تیاری روک دے جبکہ امریکہ
انڈیا کو ایٹمی طاقت مان چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے یہ بھی کہا
کہ وہ ان ممالک پر حملہ نہیں کرے گا جو ایٹمی اسلحہ نہیں رکھے گا یعنی
وہ انتظار میں ہے کہ ایٹمی اسلحہ میں پاکستان کو محدود کرے اور پھر
ایران کے خلاف ”صفر برداشت“ کے معاہدہ پر مذاکرات شروع کرے۔ اب تمام
کالم تو میں تحریر نہیں کر سکتی کیونکہ مجھے اپنے حساس قارئین کو پہلے
سے ہی حکومت کے ظلم و ستم سے چور چور ہیں زیادہ سچ پڑھ کر دل فیل ہی نہ
کر بیٹھیں۔ جیسے کرکٹ جو ایک کھیل ہے اور کھیل میں ایک کی ہار دوسرے کی
جیت ممکن ہوتی ہے لیکن پھر بھی سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔ میں تو بس
اتنا عرض کرسکتی ہوں کہ ”عقل سے بھی کام لینا چاہیے‘ دل کو اکثر مشورہ
اچھا لگا“ یہ خوبصورت بات میرے ان قابل‘ ذہین لوگوں کے لیے جو اس خوش
فہمی میں مبتلا ہیں شاید ”امن کی آشا“ جیسی تحریک بنا کر بھارت اور
پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب لاسکتے ہیں۔ میں ان کی اس کاوش کو غلط
نہیں کہہ رہی۔ امید کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑو‘ ایسی اچھی باتیں بھی ہم
انسانوں کے لیے ہی کہی گئی ہے۔ میں تو پس ان کو روشناس کروانا چاہ رہی
ہوں کبھی چاند‘ سورج‘ ہوا‘ پانی اور نیک و بد قریب آسکے ہیں؟ بس یہ بھی
ان کی ناکام کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ کیونکہ آج کمپیوٹر کے دور میں ہر
انسان ہی اتنا باشعور‘ عقل مند ہو چکا ہے کہ مجھے اپنے لیے کہنا پڑرہا
ہے کہ دور قدیم اور دور جدید کے دوراہے پر کھڑی ہوں اور کسی ایک نئی
راہ کی متلاشی ہوں۔ خیر امن کی آشا بھی نہیں کہنے کے لیے ایک نئی راہ
ہے لیکن صرف ہم نادان مسلمانوں کے لیے‘ جن کا ایمان اﷲ رسول اور آخری
کتاب کے سوا کچھ نہیں۔ جس میں واضح کہا گیا کہ اگر ایک شخص میں 99 فیصد
بھی برائیاں جنم لیتی ہے لیکن اس نے تمہارے ساتھ کبھی بھی ایک نیکی کی
ہے تو اس کی ان 99برائیوں کو نظرانداز کردو۔ اب آﺅ تاریخ کی طرف‘ تاریخ
گواہ ہے کہ بھارت کی طرف سے کبھی بھی پاکستان کو نفع ہوا ہو؟ تو پھر ان
کی برائیوں کو نظرانداز کیسے کریں یہ ہندو اپنے کالے بتوں کی طرح کالے
ہی رہیں گے۔ اگر وہ پاکستان کو ہر معاملے میں پیچھے دھکیل سکتے ہیں تو
ہم پاکستانیوں کو کس بات کا ڈر‘ یا کونسی ایسی بات جو ہماری زبان کو سچ
بولنے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے سے روکتی ہے۔ جبکہ دوسرے ممالک کے
لوگ چاہے وہ بھارت ہو یا امریکہ ہمارے مذہب‘ ہمارے لوگوں کو برصغیر سے
لے کر اب تک اذیت کا نشانہ بنا رہے ہیں اور معصوم پاکستانیوں کو باغی‘
دہشت گرد بنارہے ہیں۔ تبھی امریکہ کا صدر بارک اوباما کے دورے بھارت کے
وقت وہاں کی عوام نے کھلم کھلا کہا کہ پاکستان کو دہشت گرد ملک کیوں
قرار نہیں دیا جاتا؟ کتنی شرم کی بات ہے اور ہماری پیاری حکومت اور
عوام ان کے ایک دعوت نامہ پر ایسے خوش ہوتی ہے جیسے مسئلہ کشمیر حل ہو
گیا ہو۔ جب آج تک مسئلہ کشمیر‘ سندھ طاس‘ کالا باغ ڈیم کا معاہدہ حل
نہیں ہو سکا تو اس امن کی آشا سے کس بات کی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں؟
امیدیں بھی ان سے لگائی جاتی ہیں جو امیدوں پر پورا اترتے ہیں۔ یہ تو
وہی بات ہو گئی کہ کشتی ڈوب رہی ہے اور ہم سب اس کو بچانے کے بجائے
رونی صورتیں لئے اسے ڈوبتا دیکھ رہے ہیں اور یہ امید لگائے ہوئے ہیں
شاید کشتی اور مسافر دونوں خودبخود بحفاظت کنارے پر آجائیں۔ خوراک حاصل
کرنے کے لیے جانور بھی محنت کرتے ہیں اناج خود بخود چل کر ان کے منہ
میں نہیں چلی جاتا تو کیا ہم ان جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں کہ کرکٹ
جیسے کھیل کے لیے ایک ہو سکتے ہیں لیکن اس پاک سرزمین کے لیے کچھ نہیں
کرسکتے۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب حکومت اپنی تجوریاں بھرنے کے بجائے
غریب عوام کا ساتھ دیں۔ اس کے علاوہ باآواز ہو کر دشمنوں کا مقابلہ
کریں۔ جو چاہتے ہیں کہ پاکستان ایٹمی مواد کی تیاری روک دے اور کہتا ہے
اے پاکستانیوں تم نے ایٹم بم کی تلوار اپنی کمر سے کیوں باندھی ہے؟ تو
ہماری حکومت یہ جواب نہیں دیتی‘ یہ ہمارا سرمایہ‘ ہماری طاقت ہے بلکہ
اگر یہ طاقت نہ بھی ہو تو ہم مسلمان ساری دنیا سے طاقت ور قوم ہوں گی
لیکن ہماری حکومت میں اتنی ہمت کیسے پیدا ہوگی؟ ہماری حکومت کا جواب اس
کے برعکس ہوتا ہے کہ جناب عالی! آپ اس بات کو نظرانداز کردیں‘ آپ کی
حکومت‘ عوام ہمیں کچھ بھی کہہ لیجئے‘ آپ کے باشندے ریمنڈ ڈیوس ہماری بے
گناہ عوام کو قتل کردیں‘ ہم نے برا منایا؟ آپ کے خلاف احتجاج کیا؟ بلکہ
اسے VIPطریقے سے آپ کے حوالے کیا اور رہی بات ہماری بے چاری عوام کی تو
آپ فکر نہ کرو ان کی ایسی سوچ جو آپ جناب عالیٰ کے خلاف ہو تو ہم اس کو
بھی ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتے ہیں۔ آپ ایٹمی طاقت کی بات کرتے ہو‘ اس
تلوار کی بات کرتے ہو جناب یہ تو ہم نے شوشا کے لیے باندھی ہوئی ہے۔
آدھا پاکستان تو آپ کو دے چکے ہیں‘ بہت جلد یہ بھی آپ کے لیے ہی تحفہ
عظیم رکھا ہوا ہے۔ شرم آنی چاہیے ایسی حکومت اور عوام دونوں کو‘ حکومت
اپنے ہی بھائیوں کا خون نچوڑ رہی ہے اور عوام مسکراتی ایسا کروا رہی ہے۔
جبکہ اﷲ نے ہم سب کو مکمل بنایا ہے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی
آزادی دی‘ لیکن ہائے افسوس اب تو میرا قلم بھی روتا ہے کہ میں کیسے
الفاظ بناﺅں کہ میری سوئی ہوئی قوم جاگ جائے۔ آخر میں دعا گو ہوں کہ
حکومت اور عوام کو عقل آجائے اﷲ ان کو ہدایت دے اور سیدھے راستے کی طرف
گامزن کرے۔ (امین)
”اے کاش برس جائے یہاں بھی نور کی بارش
کہ ایمان کے شیشوں پر بہت گرد جمی ہے |